ابراہیم آتش
ہر سال ملک بھر میں رام نومی پر ملک بھر میںجلوس نکالے جاتے ہیںاور امن و امان سے ساتھ گذر جاتے ہیں،یہ الگ بات ہے موجودہ دورِ حکومت میںان جلوسوں کا معیار بدلتا جارہا ہے۔ اس طرح کی تبدیلیاں فطری ہیں،جس طرح کے لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں، تہوار اور مذہبی یاترائوں کا معیار بھی بڑھتاجاتا ہےاور اپنے رنگ میں سب کو رنگنے کی کوشش ہوتی ہے۔اگر یہ قانونی دائرے میں ہوں تو کوئی بات نہیںمگرجب قانون کے دائرے سے بات باہرجاتی ہے تو نظم و نسق کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سال 2023 میںجس طرح ملک بھرمیںتشدد کے واقعات دیکھے گئے، اس سے لگتا ہے ان واقعات کی نا کامی کے لئے مقامی حکومتیں ذمہ دار ہیں۔مہاراشٹرا ،بنگال ،بہار اور گجرات میں سب سے زیادہ واقعات پیش آئے۔ ان واقعات کا رونما ہونا کچھ لوگ 2024 کے الیکشن کو جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ بہر حال جو بھی طاقتیں اس کے پیچھے ہیں،ان کو بے نقاب کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ان چار ریاستوں میں دو جگہ بی جے پی اور دو جگہ غیر بی جے پی کی سرکاریں ہیں ۔
حکومتیں چاق و چوبند ہوں اور حالات پر نظر رکھتے ہوں تو کسی میں ہمت نہیں ہوگی قانون کو اپنے ہاتھ میںلینے کی۔ اکثر تشدد ہونے کی بڑی وجہ انتظامیہ کی لا پروائی رہی ہے۔ اس طرح کے جلوسوں کے لئے چاہے وہ کسی کا بھی مذہبی جلوس ہو، جلوس کے لئے اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔سب سے پہلے راستہ اور وقت دو اہم چیزیں ہوتی ہیں،جب کسی جلوس کا راستہ متعین کیا جاتا ہے تو وہ جلوس اُسی راستے سے گذر ے۔ اگر جلوس اس راستے سے نہیں گذرتا ہے تو انتظامیہ کی مکمل ناکامی مانی جائے گی ۔انتظامیہ کو جلوس میں شریک افراد کا بھی اندازہ ہونا چاہئے، جلوس کے منتظمین انتظامیہ کو افراد کی تعداد بتائیںتا کہ انتظامیہ کو پولیس تعیناتی کے لئے آسانی ہواور جلوس کے منتظمین کو بھی جلوس کو قابو میںرکھنے کے لئے سہولت ہوگی ۔جلوس کی نگرانی کے لئے پولیس انتطامیہ ،جدیدٹیکنالوجی جیسے ڈرون اور کیمرے استعمال میں لائیں۔جلوس میں شامل افراد قانون پر عمل کریں، کس کس کے پاس کونسا ہتھیار ہے، تحریری طور پر انتظامیہ کے سپرد کریں۔ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ قریب کے علاقے سے کوئی پتھر یا کو ئی چیزکا استعمال ہو تو فوراً کاروائی کریں اور جلوس کو منتشر ہونے سے بچائیں۔اُن عناصر کو ا پنی گرفت میں لے لیںجو جلوس کو منتشر کر کے افرا تفری کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ملک میں اس طرح کے جلوس ہر شہر میں نکالے جاتے ہیں، اس سے مسلمانوں کو گھبرانے کی یا خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔اکثر ایسا دیکھا گیا کہ اس طرح کے جلوس عین عبادت گاہوں کے سامنے پُر جوش نظر آتے ہیں،نفرت انگیز نعرے لگائے جاتے ہیں،اشتعا ل دلانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر مسلمان اس اشتعال انگیزی کا جواب محبت اور صبر سے دیں۔ اگر مسلمان ایسا کرتے ہیں تو کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔اگر مسجدوں کے سامنے جلوس روک کر ڈی جے زور سے بجاتے ہیں تو بجانے دو، اس پر کسی طرح کا رد عمل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان محلوں کے ذمہ دار افراد اپنے نو جوانوں کو سمجھائیں،جلوس اگر مسلمانوں کے محلوں سے اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے بھی گذر رہا تو صبر سے کام لیں،ہو سکے تو ان لوگوں کا استقبال کریں۔ اگر ا ستقبال نہیں کرتے ہیں تو جلوس پورا گذرنے تک خاموش رہیں، جلوس میں شامل افرادنعرے لگائیںگے اور مظاہرہ کریں گے ،گذر جائیں گے۔ ہمیں اس طرح کے جلوسوں کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جلوس نکالنے والوں کے پاس جواز ہے، وہ سڑک پر نعرے لگا رہے ہیں،کسی عبادت گاہ میں داخل نہیں ہوئے۔ اگر عبادت گاہ میں داخل ہو کرنعرے بازی یا اشتعال انگیزی کی جاتی ہے تو حکومت اس کے لئے جوابدہ ہے اور اس طرح کے جلوس سال میں ایک بار ہی تو نکلتے ہیں،اگر دوسرے تہواروں میں اس طرح ہوتا ہے تو سال میں دو چار سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ اگر کوئی خلاف ورزی کی جاتی ہے توانتظامیہ کے سامنے وہ ثبوت پیش کر سکتے ہیں ۔ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے، جب ہم فجر میں اذاں دیتے ہیںاور جن محلوں میں غیرمسلم رہتے ہیں،انھیں بھی نا گوار گذرتا ہے۔ اس کے باوجودجب سے لائوڈ اسپیکر آیا ہے ہماری اذانوں کو روز سن رہے ہیں،وہ برداشت کرتے آ رہے ہیںاور اذان کا معاملہ ہر روز کا ہے، خاص کر فجر اور عشاء کی آوازیں ہر گھر میں پہنچتی ہیں۔اس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں۔اس طرح کے واقعات کو ہم ہار یا جیت کا مسئلہ نہ بنائیں ۔اکثر اس طرح کی رپورٹیں ملتی ہیںکہ جلوس گذر رہا تھا،قریب سے جلوس پر پتھرائو کیا گیا ،جس سے جلوس میں شامل افراد بے قابو ہو گئے اور پھر دکانوں گھروں اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔
ہندوستان کی تاریخ کی یہ تلخ حقیقت ہے جب بھی جہاں بھی فساد ہوتا ہے، مسلمانوں کا نقصان ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے، مالی اور جانی نقصان مسلمانوں کے حصے میں آتا ہے، چاہے وہاں حکومت کسی بھی سیاسی پارٹی کی کیوں نہ ہواور اس کے بعد لا تعداد نوجوانوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور ان کے خلاف سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں،ان کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، ان کے ماں باپ عدالتوں اور پولیس اسٹیشنوں کے چکر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کے آمدنی کا ذریعہ متاثر ہوتا ہے ۔
میں یہاں ہمارے گلبرگہ کرناٹک کی ایک مثال دینا چاہوں گا،گلبرگہ سے جملہ تین ایم یل اے چُنے جاتے ہیں اور مسلمانو ں کی آبادی اچھی خاصی ہے۔ ایک زمانہ تھا یہاں سے مسلم لیگ کاایم یل اے چنا جاتا تھا، یہاں پر بھی رام نومی کا جلوس ہر سال نکلتا ہے ۔گلبرگہ کے مسلمانوں نے ایک نئی حکمت عملی شروع کی ہے، اس جلوس میں آنے والے تمام لوگوں کو شربت پلا کر استقبال کر رہے ہیںاور ایک گلاس شربت نفرتوں کی آگ کو ٹھنڈاکرنے کے لئے کافی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایک کامیاب ترکیب ہے اس ترکیب کو مسلما ن ہر اس شہر میںاپنائیں، اس کے ساتھ ایک اور مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ایک شہر میں ہر سال جلوس کے موقع پرتنائو اور پھر فساد معمول بن چکا تھا اور اس فساد کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو جلایا جاتا تھا،جس کا نقصان کروڑوں میں ہوتا تھا اور ساتھ میں جانی نقصان علاحیدہ۔ جس حساس علاقے سے جلوس گذرتا تھا ، جہاں سے فساد کی شروعات ہوتی تھی، اس علاقے کے مسلمانوں نے حکمت عملی بد لی۔ اب انھوں نے یہ کیا کہ جلوس کا استقبال کرنے کے لئے اس محلے کے ذمہ دار کھڑے ہوگئے ،جیسے ہی جلوس قریب آیا، جلوس کے ذمہ داروںکو پھول کے ہار سے استقبال کیا،جلوس کے ذمہ داروں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ مسلمانوں کے گلے لگ گئے اور کہنے لگے اب ہمارے در میان کوئی نفرت نہیں ڈال سکتا ،ہم سب بھائی بھائی ہیں ۔ایک شربت کے گلاس اورایک پھول کے ہار میں وہ طاقت ہے جو بڑی بڑی حکومتوں میں نہیں ہے۔ نفرت کو نفرت سے نہیں مٹایا جا سکتا ،نفرت کو محبت سے ہی مٹانا ہوگا، چاہے اس کے لئے ایک فریق کو ہی اقدام کیوں نہ کرنا پڑے اور یہی اس ملک کے لئے بہتر ہے اور یہی ان تمام لوگوں کے بھی بہتر ہے ۔
(رابطہ۔9916729890 )
[email protected]
نفرت کو نفرت سے نہیں مٹایا جاسکتا