ہندوستانی اپنی ما قبل تاریخ سے زیادہ مابعد کی تاریخ میں یقین رکھتے ہیں ۔ما قبل کی تاریخ ان کے عقیدے کا حصہ ہو سکتی ہے لیکن مابعد کی تاریخ سے وہ چشم پوشی بھی کرنا نہیں چاہتے ۔جو بیت گئی وہ بیت گئی ،کے مصداق بیشتر ہندوستانی پرانی باتوں کو بھلا دینا چاہتے ہیں لیکن چند لوگ ایسے بھی ہیں جو انہی پرانی باتوں کا اعادہ کر کے دو قوموں کے درمیان نفرت کا بازار گرم کرنے کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔۱۰۰؍برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،ایک مخصوص نظریہ کو تمام ہندوستانیوں پر تھوپنے کے منصوبے پر عمل پیرا یہ لوگ ۷۰؍برس پہلے ایک تقسیم کروانے میں معاون ثابت ہو چکے ہیں اور آج بھی روز کوئی نہ کوئی فتنہ کر گزرنے سے باز نہیں آتے اور ہر پل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ٹکڑے ٹکڑے ہو رہے ہیں ۔ہندوستان میں آج جو حالات ہیں وہ کسی نہ کسی طرح ۱۹۴۷ء سے مماثلت رکھتے ہیں،جن کی عمریں ۸۰-۸۵ ؍برس کی ہیں، اُن سے بات کرنے پر معلوم پڑتا ہے کہ وہ حالات پھر بھی واضح تھے لیکن آج کی صورت حال میں تذبذب کی کیفیت زیادہ ہے ۔یہ افراداپنے بیٹوں اور پوتے پوتیوں نیز نواسوں اور نواسیوں کے لئے حد درجہ پریشان ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہوگا؟ ۔آیا کہ ہندوستان میں یہی حالات رہے اور اکثریتی طبقے کی سوچ میں نفرت کے زہر کا مقدار بڑھتا گیا تو ہم نے تو اپنی زندگی جی لی لیکن ہمارے اپنوں کی زندگی تو اجیرن بن جائے گی اور اس کو سوچ سوچ کر ان کا پریشان ہو جانا فطری ہے لیکن اسی دوران اُن کی ہمت اُس وقت بندھتی ہے جب اکثریتی فرقے کے ہی لوگ مسلمانوں کے منصوبہ بند قتل کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔اگرچہ اس تحریک کا نام وہ ’’ناٹ اِن مائی نیم‘‘ دیتے ہیں یعنی ’ ’میرے نام پر(قتل) نہیں‘‘ اور لاکھوں کی تعداد میں ہندوستان کے تقریباً ۱۵؍ بڑے شہروں میں خاموش احتجاج کرتے ہیں ۔اس تحریک کا بظاہر کوئی قائدنہیں لیکن سوشل میڈیا کی قیادت میں اِتنا بڑا مجمع ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم مودی پہلی بار،جی ہاں پہلی بار اس طرح کے قتل کے خلاف بیان دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ملک کا دانشور طبقہ سارے معاملے کی جڑانہیں ہی گردانتا ہے کیونکہ مسلمانوں سے ان کی نفرت جگ ظاہر ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پتہ نہیں اتنا دل میں نفرت پالے یہ روز سوتے کیسے ہیں ؟ان کے چہرے کو بغور دیکھنے پرمحسوس ہوتا ہے کہ مدتوں سے یہ سوئے نہیں ہیں ۔وہ چہرہ تو ٹی وی کا ہوتا ہے۔اگر حقیقتاً آمنے سامنے کا چہرہ دیکھنے کا موقع مل جائے یا جو لوگ دیکھتے ہیں ،اُنہیں اس کا بخوبی احساس ہوگا کہ ان کا چہرہ کیا کیا پیش کرتا ہے؟بھکت یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ زیادہ کام کرنے کی وجہ سے ایسا ہے اور ملک کی تقدیر سنوارنے میں یہ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور اسی لئے ان کے چہرے کی صحت متاثر رہتی ہے۔
بھلاکوئی بتلائے کہ ملک کی تقدیر کیا اس طرح سنورتی ہے؟ملک کی تقدیر سنوارنے کے کیا یہ سب طریقے ہیں ؟پورے ملک میں افراتفری اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔جس روز یہ گئو رکشکوں کے خلاف پہلی بار بیان دیتے ہیں ٹھیک اُسی روز اور اس بیان کے چند گھنٹوں بعد جہار کھنڈ کے ضلع رام گڑھ میں ایک مسلم نوجوان کو بیف لے جانے کے شبہ میں ہجوم کے ذریعے پیٹ پیٹ کر مار دیا جاتا ہے اور اس کی گاڑی نذرِ آتش کر دی جاتی ہے اور جس روز’’ ناٹ اِن مائی نیم‘ ‘کے بینر تلے ہندوستان بھر میں احتجاج درج ہو رہا تھا،ٹھیک اُسی روز جہارکھنڈ کے ہی گریڈیہہ علاقہ میں ایک معمر مسلمان کو بھیڑ زدو کوب کرکے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے صرف اس شبہ پر کہ اس نے ایک گائے کو مار ڈالا،جب کہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گائے کی موت فطری تھی ع کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
اِن نام نہادگئو رکشکوںپر کسی کا اثر نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم کا بیان اِتنا پھُسپھُسا ہے جیسے کسی بچے کو ٹافی دے کر سمجھایا جائے کہ بیٹا ایسے کام مت کیا کرو!کون نہیں جانتا کہ یہ گاندھی کا ملک ہے اور گاندھی جی اہنسا کے پجاری ہیں ؟بلکہ اہنسا اور گاندھی ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں ۔وزیر اعظم یہ کہہ کر گئو رکشکوں کو گاندگی جی کی تعلیم دینا چاہتے ہیں یعنی کہ انہیں پتہ ہے کہ ان کے یہ لوگ اور ان جیسے دوسرے بھی گاندھی جی کی تعلیم اور بالخصوص ’’اہنسا‘ ‘کو نہیں مانتے ۔گاندھی جی کا قاتل کون تھا اور کس آئیڈیالوجی کا وہ پروردہ تھا ،یہ بتلانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔وزیر اعظم نے اس سے پہلے بھی گائے کے نام نہاد گاؤمحافظوں کے تعلق سے ایک بار اپنے جلسے میں یہ کہا تھا کہ ’’دن میں یہ گئو رکشک ہوتے ہیں اور رات میں غنڈے‘‘ لیکن کیا اثر ہوا تھا،کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آج بھی اور آگے بھی وزیر اعظم کے اس تازہ بیان کا کوئی اثر لینے والا نہیں ہے اور یہ لِنچِنگ(پیٹ پیٹ کر مار دینے کی واردات) کی حیوانیت یوں ہی چلتی رہے گی۔اس لفظ لِنچِنگ کی ترویج اور رسائی میں مودی حکومت کو تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی جس کا مطلب کشمیر سے کنیا کماری تک ہر ہندوستانی سمجھنے لگا ہے خواہ وہ کوئی بھی زبان یا بولی بولتا ہو۔مودی حکومت کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
بی جے پی لیڈران اور ترجمان اس قدر جری ہیں کہ کہتے ہیں کہ یہ لِنچِنگ کوئی نئی تھوڑی ہی ہے۔اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے یعنی کہ کانگریس کے دور میں بھی ہوتی رہی ہے اور میڈیا اور سیکولرسٹوں کو اتنا واویلا مچانے کی کیا ضرورت ہے؟اسی طرح روہت ویمولا کے معاملے میں بھی یہ کہتی تھی کہ یہ کوئی پہلی بار تھوڑی نہ ہوا ہے ،اس سے پہلے بھی ایسی تقریباً ۱۰؍ اموات ہو چکی ہیں اور باضابطہ اعداد و شمار کے ساتھ اس کے ترجمان یہ جگرسوز لن ترانی کرتے ہیں یعنی کانگریس کے دور میں اگر غلط اور بُرے کام ہوئے ہیں تو اسے وہ کام کرنے میں کوئی بُرائی نہیں ہے اور اسے روکا اور ٹوکا نہیں جائے ۔ کانگریس کو دودھ کا دُھلا نہیں کہا جاسکتا لیکن بی جے پی کی اس دلیل کیا س عذرِ لنگ کا جواز نہیں بنتا۔اسے اپنے دامن میں لگے داغ پر توجہ دینی چاہئے نہ کہ دوسروں کے داغ کو پیش کرکے اپنی دفاع کا سامان کرنا چاہئے۔دادری کے مقتول محمد اخلاق سے شروع ہو نے والی یہ ’’روایت‘‘ اب تک تقریباً ۲۸؍ افراد کی جان لے چکی ہے جس میں ۲۴؍ مسلمان ہیں اور بقیہ دلت۔یہ اس حکومت پر ایک کلنک ہے اور کلنک تو داغ ہی کو کہتے ہیں ۔وزیر اعظم جو اپنی پیٹھ آپ تھپتھپانے سے کبھی نہیں چوکتے بلکہ اس میں ماہر مانے جاتے ہیں ،امریکہ میں جاکر جب یہ بیان دیتے ہیں کہ میری ۳؍سالہ حکومت میں ایک بھی داغ نہیں تو سوشل میڈیا پر لوگ اُنہیں گھیر لیتے ہیں اور اُنہیں یہ باور کراتے ہیں کہ ’’مودی جی !اُن داغوں کا کیا جو خون کے داغ ہیں؟‘‘ لیکن مودی جی کے نزدیک چونکہ وہ مسلمانوں اور دلتوں کے خون کے داغ ہیں، اس لئے ان کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی انہیں اس کا کوئی افسوس ہے۔وہ ایک بار مسلمانوں کے قتل عام کے تعلق سے کہہ بھی چکے ہیں کہ اگر گاڑی کے نیچے کوئی ’’پِلّا‘‘ بھی آجائے تو کسے افسوس نہیں ہوگا؟ مسلمانوں کے خون کی وقعت ان کے نزدیک ایک پِلّے سے زیادہ نہیں۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۵؍کروڑ آبادی کس قدر ذہنی دباؤ میں زندگی بسر کر رہی ہے؟ٹیلی ویژن چینلوں کے تعلق سے اب کچھ لکھنا بھی عجیب لگتا ہے۔کچھ دنوں میں کہیں ایسا نہ ہو کہ ’’ناٹ اِن مائی نیم‘ ‘کی طرز پر لوگ چینلوں کے اسٹوڈیوز پر مارچ کریںکیونکہ اب بھگوا تعصب انتہا کو پہنچ رہی ہے۔ ’’ناٹ اِن مائی نیم‘ ‘کی طرز پر جب پاکستان میں بھی احتجاج ہوتا ہے تو اس کے وقت اور طرز پرارنب گوسوامی ایک ڈیبیٹ کروا دیتے ہیں جب کہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ،کینیڈا اور یوروپی ممالک کے مختلف شہروںمیں بھی اسی طرز اور وقت پراحتجاج درج کرنے کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔در اصل ارنب اور ان جیسے دوسرے ڈھنڈورچیوں کا سارا زور بیان مسلمان ،اسلام اور پاکستان و کشمیر پرضائع ہوتا ہے۔اسے دیکھ کر دوسرے چینل والے بھی انہی موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں جس سے یک قطبی میڈیا کا گمان ہونے لگتا ہے۔یہ جمہوریت کے لئے کسی حال میں ٹھیک نہیں۔ ان موضوعات سے جب تک باہر نہیں نکلیں گے نفرت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور نفرت کا خارزارایک صحت مند ملک کے لئے بدشگون کانٹوں کے سوا کچھ نہیں اُگاتا۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں ؛ رابطہ9833999883