ہندوستانی تاریخ میں بیسویں صدی کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ یہ صدی ایک طرف ہندستان میںچراغ ِتحریک آزادی کی صدی رہی تو دوسری طرف سماجی ،اصلاحی، مذہبی ، تہذیبی ، ثقافتی اور علمی و ادبی اعتبار سے بھی روشن باب کے اضافے کی حامل بنی۔ ادبی تاریخ کے ابواب یہ شواہد پیش کرتے ہیں کہ ہندستانی ادب کے لئے بھی یہ صدی بہت ہی زرخیز رہی ہے۔ جس سمت دیکھئے ہر طرف علم و ادب کا مینارہ نظر آئے گا، خواہ نثر کا میدان ہو کہ شاعری کا ۔جہاں تک شاعری کا سوال ہے تو ہندستان کی ہر ایک زبان میں ایسے نمایاں شاعر دکھائی دیتے ہیں جن کی شناخت عالمی سطح پر مستحکم ہے۔ اردو میں علامہ اقبال، فیض ، مجاز،فراق ، سردار جعفری، شہریار سے جہان ِ اردو روشن ہے۔ تو بنگلہ ادب رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی نذر الاسلام کے افکار و نظریات کا آئینہ دار ہے۔ جنوبی ہند کی طرف دیکھئے تو سوبرمنیم بھارتی اور جے آر ریڈی جیسے نامور شعرا نظر آتے ہیں۔ قومی زبان ہندی میں نرالا ، دنکر، بچن، مہادیوی ورما ،سمترا نند پنت، جئے شنکر پرساد، میتھیلی شرن گپت ، سوریہ کانت ترپاٹھی، پریم کمار دھومل اور گوپال داس نیرج کی شاعری نے نہ صرف ہندی زبان کو اعتبار کا درجہ بخشا بلکہ ہندستانی ادب کو بھی باوقار مقام عطا کیا ہے۔ چونکہ اس وقت ہندی کے مقبول عام شاعر گوپال داس نیرج کو خراج عقیدت پیش کرنا مقصود ہے ۔ لہٰذا اس مضمون کا محور و مرکز گوپال داس نیرج کی شخصیت اور شاعری ہے۔
ہندی کے جن شعراء نے ہندی کی کویتائوں اور چھندوںکو عوام الناس میں مقبول بنایا ،ان میں نرالا اور بچن کے بعد نیرج کو امتیاز حاصل ہے۔ واضح ہو کہ ہندی شاعری کو مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں مقبول بنانے والوں میں ہری ونش رائے بچن کے بعد نیرج کو جو مقبولیت ملی وہ کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی ۔ نیرج کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کو صرف خواص تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی شاعری کو عوام کے دلوں کی دھڑکن بنا دی۔ وہ ادب میں جس قدر مقبول رہے ، اسی طرح فلموں میں بھی اپنی ایک خاص پہچان بنائی۔ اگرچہ ان کے گیت فلمی روش سے بالکل الگ تھے لیکن عوام نے انہیں خوب پسند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ راج کپور جیسے فلمی لجنڈ اور موسیقی کے بادشاہ آر ڈی برمن نے نیرج کی نظموں کوفلمی گیتوں کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا اور نیرج کی شاعری کو ایک نئی پہچان دی۔
واضح ہو کہ فلم میں اسکرپٹ کی مناسبت سے گانے لکھے جاتے ہیں ۔ کردار اور مناظر کو پیش نظر رکھ کر شاعر گیت لکھتا ہے لیکن نیرج ؔنے کبھی بھی اسکرپٹ اور کردار کے پیش نظر گیت نہیں لکھے بلکہ پہلے سے لکھی ہوئی نظموں اورغزلوں کو فلمی دھن میں تبدیل کر اتے رہے۔ ان کی پہلی فلم ’’ نئی عمر کی نئی فصل‘‘ تھی اور اس کا گیت جو بہت ہی مقبول ہے ’’کارواں گزر گیا اور غبار دیکھتے رہے۔۔۔۔ ‘‘ اس فلم کے لئے نہیں لکھا گیا تھا بلکہ نیرج مشاعروں اور کوی سمیلنوں میں اس گیت کو پڑھ کر مشہور ہو چکے تھے۔ اسی طرح فلم پریم پرتگیا کا یہ گیت ’’ رنگیلا رے مرے من میں‘‘ اور ’میرا نام جوکر ‘کا یہ گیت ’’ اے بھائی !ذرا دیکھ کے چلو‘‘ ان کی ادبی شاعری کا حصہ ہے ۔چونکہ راج کپور اور آر ڈی برمن اس حقیقت کو جانتے تھے کہ نیرج ؔایک بڑا فنکار ہے اور وہ اپنی شرطوں پر جینے والا تخلیق کار ہے۔ اس لئے ان سے فلمی اسکرپٹ کے مطابق گانے نہیں لکھوائے جاسکتے لیکن ان کے گیت کے اندر جو تخلیقیت اور کانوں میں رس گھولنے والی نغمگی ہے اس کی بدولت فلموں میں ان کی شاعری منفرد رنگ کی شاعری تسلیم کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جتنے بھی گیت لکھے ، وہ سب کے سب مقبول ہوئے ۔
نیرج فلموں میں کل وقتی کبھی نہیں رہے بلکہ ان کی حیثیت وہاں پارٹائمر کی رہی اور وہ ادب کے کل وقتی فنکار رہے۔ ان کے ایک درجن شعری مجموعے اس حقیقت کے غماز ہیں کہ ان کے شعری مجموعے ’’ سنگھرش‘‘، ’’درد دیا ہے‘‘، ’’بیبھاوری ‘‘، ’’پران گیت‘‘، ’’بادر برس گیو‘‘،’’ دو گیت‘‘،’’گیت بھی اگیت بھی ‘‘ ، ’’ نیرج کی پاتی‘‘، ’’ ندی کنارے‘‘، ’’ کارواں گزر گیا‘‘، ’’لہر پکارے‘‘، ’’پھر دیپ جلے گا‘‘،’’ تمہارے لئے‘‘ وغیرہ ۔ ان شعری مجموعوں کے مطالعے سے یہ عقدہ ظاہر ہوتا ہے کہ نیرج نے اپنی شاعری کے لئے خام مواد اپنے آس پاس کی زندگی سے حاصل کیا ہے اور اسے اپنے تجربات و مشاہدات کی بھٹی میں تپا کر کندن بنایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری عوام کے دلوں میں گھر کر گئی ہے۔ ان کی شاعری کے اندر راجا اور رانی کی محبت کا بکھان نہیں بلکہ کرشن اور رادھا کا پریم ساگر ہے۔ وہ کسی خاص طبقے کے نہیں بلکہ عام طبقے کے ترجمان رہے ۔ ان کی شاعری ہر عمر کے لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بنی۔ اگر نئی نسل کی زبان پر ’’دل آج شاعر ہے، پھولوں کے رنگ سے‘‘ یا پھر’’ میگھ چھائے آدھی رات‘‘ہے تو عمر دراز کی زباں پر ’’ کارواں گزر گیا غبار دیکھتے رہے ۔۔۔۔۔‘‘ آج بھی سنائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے گیت اور غزل کو کھیت کھلیان تک پہنچانے کی کوشش کی۔ حالات حاضرہ سے کبھی آنکھ نہیں چرائی۔ اور نہ کبھی سلگتے مسائل سے چشم پوشی کی ۔ غرض کہ انہوں نے اپنی شاعر ی کو زندگی اور اس کے مسائل کا آئینہ دار بنا دیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں دنیا کے دکھ کو جگہ تو دی لیکن اس دکھ کو فنکارانہ جوہر سے لبریز کر دیا۔ ان کے یہاں انسانی دکھ درد زیریںلہروں کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ اپنی شاعری سے محروم طبقے کو حوصلہ بخشتے ہیں ۔ ان کی ایک نظم جو میں نے چار دہائی قبل پڑھی تھی اس کا یہ بند مجھے آج بھی ازبر ہے ؎
مدھو وش ہے دونوں جیون میں
دونوں ملتے جیون کرم میں
پر وش پانے سے پہلے
مدھو مولیہ بڑھ جاتا ہے
رونے والا ہی گاتا ہے۔۔۔!
یا پھر ان کی نظم کا یہ بند دیکھئے ؎
ہاتھ تھے ملے کہ زلف چاند کی سوار دوں
ہونٹھ تھے کھلے کہ ہر بہار کو پکار دوں
درد تھا دیا گیا کہ ہر دکھی کو پیار دوں
اور سانس یوں کہ سورگ بھومی پر اتار دوں
ان کی شاعری میں محض تخیل پروازی نہیں بلکہ حقیقت اور جوش کی آئینہ داری ہے۔ ا ن کے یہاں جسم و جان کے گیت بھی ہیں اور روح میں اترنے والا سنگیت بھی ۔تصوف کا رنگ بھی ہے اور انقلاب کی آہٹ بھی ۔ جب ان پر صوفیانہ رنگ غالب ہوتا ہے تو وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ؎
دل کے کعبے میں نماز پڑھ یہاں وہاں بھرمانا چھوڑ
سانس سانس تری اذان ہے صبح شام چلانا چھوڑ
اور جب زندگی کی سچائیاں بیان کرنا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ؎
نیند بھی کھلی نہ تھی کہ ہائے دھوپ ڈھل گئی
پائوں جب تلک اٹھے کہ زندگی پھسل گئی
مختصر یہ کہ گوپال داس نیرج کی زندگی جس طرح حقیقت پر مبنی تھی اسی طرح ان کی شاعری بھی زندگی کی تلخ سچائیوں کی آئینہ دار ہے۔ وہ کبھی مصنوعی زندگی جینے کے قائل نہیں رہے۔ اس لئے ا ن کی شاعری میں بھی بناوٹی اور مصنوعی کھوکھلی آواز نظر آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے قلم سے جو تحریر صفحۂ قرطاس پر بکھرتی ہے ،وہ حساس دل انسانوں کے ذہن و دل میں جگہ بنا لیتی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری کبھی کسی ناقد کی محتاج نہیں رہی ۔ ان کی شاعری خود بخود اپنے لئے ایک دنیا آباد کرتی رہی ۔ آج جب نیرج اس سرائے فانی سے کوچ کر گئے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیرج کی وانی کو ورام مل گیا ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ نیرج کی رس گھولنے والی شاعری انہیں دنیائے ادب میں ہمیشہ زندہ رکھے گی کہ ان کی شاعری ابدیت کے عناصر سے بھرپور ہے۔ نیرج کو فلم اور ادب دونوں جگہوں پر عزت احترام کی نظر سے دیکھا گیا۔انہیں کئی فلم فیئر ایوارڈ ملے تو ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ۱۹۹۱ء میں پدم شری ، ۱۹۹۴ء میں یش بھارتی اور ۲۰۰۷ء میں پدم وبھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ملک و بیرون ملک کی کئی تنظیموں نے انہیں ادبی انعامات سے نوازا مگر سچائی تو یہ ہے کہ عوام نے جس طرح ان کی شاعری کو حرز جاں بنایا اور انہیں تمام عمر سر آنکھوں پر بٹھائے رکھا، اس سے بڑا کوئی انعام و اعزاز نہیں ہوتا۔
گوپال داس نیرج کے افکار و نظریات کو سمجھنے کے لئے ان کا یہ وصیت نامہ بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ انہوں نے اپنے جسد خاکی کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ کے میڈیکل کالج کو عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی اور ان کے اہل خانہ نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی موت کے بعد ان کے جسم کو میڈیکل کالج میں دے دیا ہے۔ دور حاضر میں جب ایک طرف ملک کے فرقہ پرست عناصر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو طرح طرح سے نشانہ بنارہے ہیں اور اس کی شناخت کو مجروح کر رہے ہیں ، ایسے وقت میں نیرج جیسا عظیم شاعر اپنی موت کے بعد اپنی نعش کو میڈیکل طلبا ء کے استفادہ کے لئے عطیہ دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ تمام تر ازموںسے پاک تھے اور انسانیت کے ایک بڑے علمبردار تھے۔
رابطہ :پرنسپل سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل9431414586