وہ ایک بے حد اداس اور سوگوارشام تھی۔تانیہ مخدوم برآمدے میں پڑی ہوئی کرسی پر چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔رشتہ دار اور دوست احباب اس کی نرالی و نایاب ہمت کی داد دیتے ہوئے ابھی ابھی پرسہ دے کر گئے تھے۔ اس کے ابومخدوم حیات کوگزرے آج تیسرا دن تھا۔ دریں اثناء اس کے غیر معمولی جرات مندانہ اقدام پر تعریف و توصیف پر مبنی بے شمار فون کالز بھی موصول ہوئے تھے۔ لیکن اس خلافِ دستور ارتکابِ عمل کے نتیجے میں اس کے دل کا چین وسکون درہم برہم ہوچکا تھا۔وہ خود کواپنے ابو کی مجرم اور اپنے عجیب فیصلے کوناقابلِ معافی گردان رہی تھی ۔
’کاشانہء مخدوم ‘ جوکل تک اسکی شادی خانہ آبادی کی تیاریوں کی گہما گہمی سے پُر ہنسی اور شادمانی کی آماجگاہ بنا ہوا ماتم کدے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ افسوس کہ اس در پر ایک خاصے لمبے عرصے بعد خوشیوں نے دستک دی لیکن استقبال سے پہلے ہی الٹے قدموں لوٹ گئیں۔
تقریباََاٹھارہ برس پہلے کینسر کے مہلک مرض نے اس کی امی کی جان لے لی تھی۔اس نے سنا تھا کہ ان کی درد ناک موت کے بعدخیرخواہوں اور دوستوں نے نکاح ثانی کے لئے ابو پربہت دباؤ ڈالا تھالیکن وہ نہ مانے۔اسے یہ بھی یاد تھا کہ ابو کی پھوپی جان اپنی طلاق شدہ بیٹی کو لے کر ایک عرصہ اس گھرمیں ٹکی رہیں۔ منع کرنے کے باوجودان کی بیٹی نے باورچی خانہ کی ساری ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ جلد ہی ان کو احساس ہو گیا کہ اس پتھر میں جونک لگنے والی نہیں ہے لِہٰذاایک دن ابو کے دفتر سے لوٹنے سے پہلے ہی اسے اکیلاچھوڑکر بوریا بستر گول کر گئیں ۔
اس کے ابو ہر دن صبح سویرے اٹھ جاتے۔ اسے ناشتہ کروا نے کے ساتھ ساتھ ٹفن باکس بھی تیار کردیتے ۔ پھراسے تیار کرکے اسکول پہنچا نے کے بعد خود آفس چلے جاتے۔ شام کو واپسی میں اسے لیتے ہوئے گھر آجاتے۔اس کی دلجوئی کی خاطر ہمیشہ اس کے ساتھ گھر پرہی رہتے ۔ چھٹی والے دن دونوں مل کر شاپنگ کے لئے نکل جاتے ۔ ڈھیر سارا سامان خریدنے کے بعد باہر ہی کھا نا کھاکر آتے۔ گھر میں کسی تیسرے فرد کی غیر موجودگی میں وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم بن کر رہ گئے تھے ۔
شعور کی دنیا میں آتے ہی اس پر منکشف ہوا تھاکہ بیوی کے گزرجانے کے بعدصرف تانیہ کی خاطر انہوں نے تنہا ئی کو گلے لگا لیا تھا۔وہ سوچ کر رہ جاتی آیا ان کی بے لوث قربانی کانعم البدل مہیا کر پائے گی بھلا۔۔۔۔۔۔ ذرا سیانی ہوتے ہی اس نے گھر کا سارانظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔ ابو کو باورچی خانہ میں قدم بھی نہیںرکھنے دیتی تھی۔ہمیشہ اسی تاک میں رہتی کہ وہ کوئی فرمائش کریںتاکہ فوراََ تعمیل کرے۔
اس دن جب وہ کالج کے فائنل امتحان کا آخری پرچہ دے کرگھر لوٹی تو انہوں نے بتایا کہ آج گھر پرکچھ خاص مہمان آنے والے ہیں۔ تھکی ہوئی ہونے کے باوجود وہ مہمانوں کے استقبال کی تیاری میں جٹ گئی۔تانیہ کے نین نقش اور رنگ ڈھنگ ملاحظہ کرکے نوار دمہمان اتنے متاثر ہوئے کہ ا پنے بیٹے کے لئے اس کا رشتہ مانگ لیا ۔جب ان کی تشریف آوری کا اصل مدعا پتا چلاتووہ شرما کر اندر بھاگ گئی تھی۔ مہمانوں کو رخصت کر نے کے بعد مخدوم حیات اس کے کمرے میں آئے اور پرنم آنکھوں کے ساتھ مبارک باد دینے لگے تو تانیہ نے صاف کہہ دیا کہ وہ انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والی۔یکبارگی ان کے چہرے کا رنگ افسردگی میں تبدیل ہو گیا ، بولے: ’’ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ تمہیں پسند نہیں آئے ۔ خیر،کوئی بات نہیں دوسرا رشتہ دیکھ لیں گے۔‘‘
’’وہ بات نہیں ابو۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ ان کے سینے سے لگ کر سسک اٹھی ۔۔۔۔۔۔’’میں آپ کو تنہا چھوڑ کرکہیں نہیں جانا چاہتی۔‘‘
’’ اسی شہر میں تو رہوگی! آتی رہنا کبھی کبھار۔‘‘مخدوم اس کے سر پرہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
’’امی کے جانے کے بعد آپ نے دوسری شادی کیوں نہیں کی؟‘‘تانیہ اچانک پوچھ بیٹھی
’’ وہ اس لئے کہ اپنی لاڈو کے سوتیلی ماں نہیں لانا چاہتا تھا۔‘‘
’’ آیا میں آپ کی خاطر اسی طرح زندگی نہیں گزار سکتی۔‘‘
تانیہ کے اصرار پر وہ فوراََ بولے۔’’ایساہرگز نہیں ہو سکتا۔زندگی کا کیا بھروسہ۔ میرے بعد تم اکیلی جان کہاں جاؤگی؟‘‘
ان کے اصرار پرجب وہ فاران سے ملی تو اس کا ارادہ متزلزل ہوگیا۔فاران کی پر کشش شخصیت کے آگے اس کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔اس کی آمادگی سے مخدوم بے حد خوش ہوئے ۔تانیہ نے ٹھان لیا کہ بہر طوراپنے ابو کویوں اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ان کی پھوپھی کی لڑکی اگر اب تک شادی کے بغیر بیٹھی ہو تو وہی سہی۔بہر صورت ان کی دیرینہ تنہائی کا مداو ا کر کے رہے گی۔
اس کافائنل امتحان ختم ہوتے ہی مخدوم حیات نے آفس سے لمبی چھٹی لے لی اور شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔نہ جانے کیوں ان کو بہت جلدی تھی۔وہ بالکل ایک سگھڑعورت کی طرح ہر بات کا دھیان رکھ رہے تھے، کوئی کسرباقی نہیں رکھناچاہتے تھے۔ ڈھیر ساری شاپنگ۔۔۔۔ کپڑے ، زیورات، پکوانوں کی تفصیل وغیرہ وغیرہ۔حتیٰ کہ دعوت نامہ دینے کے لئے دور اور نزدیکی رشتے داروں کے گھر بہ نفس و نفیس تشریف لے گئے تھے۔ آج تانیہ بھی ان کے ساتھ ہولی ۔
چلچلاتی دھوپ برس رہی تھی اورسڑک پر ٹریفک کا اژدھام تھا ۔سامنے سے ایک بس دندناتی ہوئی چلی آرہی تھی ۔ کتراکرآگے نکل جانے کی تگ و دو میں بائیں طرف سے آتے ہوئے ایک تیز رفتار ٹرک پر ان کی نظر نہیں پڑی اورگاڑی سیدھے اس سے جا ٹکرائی ۔ایک زوردار آواز کے ساتھ گاڑی کا دایاں حصہ ٹرک کی زد میں آکر اندر کو دھنس گیا۔ تانیہ کے ابو ڈرائیونگ سیٹ اور اسٹیئرنگ وھیل کے بیچ پھنس کر بے ہوش ہو گئے۔بدقت تمام انہیں کھینچ کر باہر نکالا گیااور ایمبولینس بلواکر اسپتال پہنچادیا گیا۔ چشمِ زدن میں سب کچھ ہو گیا۔حیرت کی بات تھی کہ تانیہ کے کھرونچ بھی نہیں آئی تھی۔
وہ آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھی انتظار کی گھڑیاں گن رہی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ اندروہ کس حالت میں ہونگے۔ اچانک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلااور اس کے خیالوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ مخدوم کے قریبی دوست اورشہر کے جانے مانے سرجن ڈاکٹر طاہرباہر نکلے اور اسے اندر آنے کا اشارہ کیا۔تانیہ آ پر یشن تھیٹر کے اندر داخل ہوئی ۔ اس کے ابو آنکھیں مو ندھے بے حس و حرکت سٹریچرپرلیٹے ہوئے تھے۔ سسٹر نے ان کے چہرے پر سے کپڑا ہٹا دیا۔تانیہ نے ڈاکٹر انکل کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔۔ـ’’ انہیں کب تک ہوش آ جائیگا ۔ــ‘‘
ڈاکٹر نے ایک گہری سانس لی اور متاسفانہ انداز میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا :
’’ تمہارے ابو، میرے دوست کو اب کبھی ہوش نہیں آئے گا۔یہ ہم سب کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر طاہر کی بات سن کر تانیہ کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا ۔اگربجلی کی سی سرعت سے لپک کرانہوں نے تھام نہ لیاہوتاتو دھڑام سے نیچے گرجاتی۔سسٹر اسے سہارا دے کر دوسرے کمرے میں لے گئی۔ کرسی پر بٹھاکر پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگادیا۔تانیہ کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ذہن میں مسلسل اسی منحوس خبرکی باز گشت ہو رہی تھی کہ ڈاکٹر طاہر کمرے میں داخل ہوئے ۔ آکراس کے روبروبیٹھ گئے اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر پر افسوس لہجے میں بولے :
’’ تمہارے ابو کے سینے پر سخت چوٹ آئی تھی ۔ اسٹیئرنگ وھیل اندر دھنس جانے کی وجہ سے دائیں پسلیوں کی ہڈیاں چور چور ہو کر پھیپھڑوں میں دھنس گئیں تھیں جس کی وجہ سے جائے حادثہ پر ہی ان کی موت واقع ہو گئی تھی ۔قسمت میںجو لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔‘‘ ان کے سینے سے ایک آہ نکل گئی ۔ کچھ ثانیوں کے وقفے کے بعد وہ پھر گویا ہوئے :
’’اب میں جوکہنے جا رہا ہوںاسے دھیان سے سننا۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ارد گردہزاروں بلکہ لاکھوں مجبور لوگ آنکھ سے اندھے ، دل کے مریض، جگرکی تکلیف سے پریشان توکبھی گردوں کے درد سے بے حال اور عاجز ہوکر رات دن موت کی دعا مانگتے ہیں۔کسی نیک دل داتا کی خیرات یا نذرانے کی امید میںاپنی زندگی کے دن گزاررہے ہیں۔ قرآن ِ پاک میں لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی گویااس نے سب لوگوں کی جانیں بچائیں۔۔۔۔۔۔چونکہ تمہارے ابو کے اعضائے رئیسہ اپنی اصلی حالت میںصحیح سلامت ہیں۔تم چاہو توضرورتمندوں کو ان کاعطیہ دے کر اپنے ابوکے سانحہ ارتحال کو ایصالِ ثواب میں تبدیل کر سکتی ہو۔جانتی ہو تانیہ! یہ کتنی عظیم خیرات ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس عمل سے مرحوم کی روح کومسلسل صدقہ ء جاریہ کااجرملتا رہے گا۔‘‘
تانیہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے ہونقوں کی طرح ان کا منہ تکنے لگی ۔یکے بعد دیگرے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ رونما ہو تے ہوئے حالات نے اسے بھونچکا کرکے رکھ دیا تھا۔ کچھ لمحوں پہلے ہنستے مسکراتے ابو کے پہلو میں بیٹھی ہوئی خوش آئند مستقبل کے تانے بانے بن رہی تھی کہ چشمِ زدن میں وہ موت کا لبادہ اوڑھ کر سوگئے ۔اس صدمے سے ابھری نہیں تھی کہ یہ دوسرا جھٹکا۔۔۔۔۔۔۔ ان کے بدن کے ٹکڑے ٹکڑے تراش کربخشش کی صورت میں نہ جانے کس کس کے بدن میں منتقل کردینے کی تجویز!!
وہ تڑپ کر بولی۔’’ انکل پلیز ایسا نہ کہیں ،آپ چاہیں تو میرے ہاتھ،پیر، دل، آنکھیں، سارے اعضاء لے لیںلیکن میرے ابو کو بخش دیں۔ ‘‘ وہ ایک معصوم بچے کی طرح بلک کر رو پڑی۔
ڈاکٹر طاہرنے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔’’ میں جانتا ہوں کہ یہ فیصلہ تمہارے لئے انتہائی مشکل اورتکلیف دہ ہے۔ لیکن تمہیں اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایک مردہ انسان کے اعضاء بھلااس کے کس کام کے کیونکہ ان اعضاء کو بالآخر مٹی کے ساتھ مٹی ہوکر فنا ہو جانا ہے۔ اگر یہی اعضاء کسی کو نئی زندگی دے سکیں تو یہ انسانیت نوازی کی اعلیٰ ترین مثال ہوگی۔یہ بے حد افسوس کا مقام ہے کہ اس ضمن میں آگاہی اور واقفیت کے فقدان کی وجہ سے ـ ہمارے معاشرے کا بہت نقصان ہوا ہے۔ شریعت اور انسانیت اس امر پر مخصوص توجہ کی متقاضی ہے۔
ہندوستان کی نام ور فقہ اکادمی کے مطابق اعضائے انسانی کی پیوند کاری میں توہین انسانیت نہیں ہے حتیٰ کہ اعضاء کی بینکنگ کوبھی درست بتایا گیا ہے۔ سعودی عرب کی ہیئت کبارالعلماء(علماء کی سپریم کونسل)نے بھی کبار علماء کی اکثیر رائے سے مردہ انسان کے اعضاء کی منتقلی کے جواز کا فتویٰ صادر کیا ہے۔ نیززندہ انسان کی مصلحت کو مردہ شخص کی مصلحت پر مقدم کرنے کا تحقق ثابت کیا ہے کیونکہ اس عمل میں یہ امید پائی جاتی ہے کہ زندہ شخص میں صحتمندی کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی جبکہ پہلے اس میں یہ صلاحیت مفقود تھی۔ اس سے نہ صرف یہ کہ اس شخص کو بلکہ پوری امت کو فائدہ پہنچنے کا امکان موجود ہے۔
رنج و الم کی زیادتی نے تانیہ کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلی تھی، دماغ ماؤف ہوکررہ گیا تھا۔اس نے اپنے سرکو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ ڈاکٹر طاہر نے ناصحانہ انداز میں کہا ۔
’’وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔چونکہ تم اپنے ابو کی اکیلی وارث ہولِہٰذا تمہارے دستخط کے بغیر ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔میرایقین کرو، اگر تمہیں ایسے مریضوں سے ملنے اور ان کی تکلیف کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تواس قدر متاثر ہوجاؤگی کہ خود اپنے اعضاء بھی عطیہ کرنے کی وصیت کر بیٹھوگی۔ مجھ پر بھروسہ رکھو اور ان کاغذات پر دستخط کردو ۔ اس فیصلے پر تمہیںپشیمانی نہیں بلکہ ایک ایسے بے کراں سکون ا ور آفاقی مسرت سے ہم کنار ہونے کا شرف حاصل ہوگا جس کا اس وقت تم تصور بھی نہیں کر سکتیں۔ اگر یہ موقع گنوادیا تو زندگی بھر ندامت اور پچھتاوے کی آگ میں جلتی رہوگی۔‘‘
تانیہ نے متعدد ا قسام کے صدقات کے بارے میں سنا تھالیکن یہ ایک عجیب و غریب مطالبہ تھا۔ڈاکٹر طاہر کی باتوں اوران کی آنکھوں سے جھلکتے ہوئے عزم و اعتماد کے زیر اثر لرزہ بر اندام ہاتھوں سے کاغذات پر دستخط کر دئے اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ ڈاکٹرطاہرنے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور جلدی سے باہر نکل گئے۔
مخدوم حیات نے اپنی راحتِ جاں کے لئے پھولوں کی تمناکی تھی لیکن بے رحم وقت صرف خار ہی خاراس کی جھولی میں ڈال کر چلاگیا تھا۔ اپنے ابو کی ناگہانی موت، ان کے جسم کی چیرپھاڑکرکے اعضاء نکال لینے کاجاں فرسا تصور۔۔۔۔۔شہنائیوں کی جگہ ماتم، شادمانی کے بدلے لامتناہی غم اور احساس تنہائی نے اسے جیتے جی مار ڈالا۔
ڈاکٹر طاہر اور دوسرے کئی رشتہ دار وں کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود تانیہ اس صدمے سے باہرنہیںنکل پا رہی تھی۔ ایسے میںاس کا اکیلے رہنا مناسب نہیں تھا۔بے چارہ فاران بھی کیا کرتا، اس کی اپنی حد یںتھیں۔ شادی سے پہلے ان کا پاس و لحاظ کرنا ضروری تھا۔
ڈاکٹر طاہر ،فاران اور اس کے والدنے با ہمی مشورے سے شادی کو مقرکردہ تاریخ پر انجام دینے کا فیصلہ کر لیاکیونکہ تانیہ کی تنہائی اور غم دور کرنے کا اور کوئی مؤثرطریقہ نہیں تھالیکن تانیہ اس کے لئے تیارنہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ان حالات میں شادی کا سوال ہی کہاںپیدا ہوتا تھا۔ابو کے ماتم پر شادی کا جشن ! تانیہ کی ذہنی حالت کے پیش نظر مجبوراََ شادی کے جشن کو کچھ عرصے کے لئے ملتوی کرنا پڑا،لیکن کب تک ۔ بالآخر شادی والا دن آپہنچا ۔تانیہ کی حالت میں زیادہ فرق نہیں آیا تھا۔وہ بدستور اداس تھی،حتیٰ کہ شادی کی تمام رسومات کے دوران صرف اپنے ابو کا خیال اس کے حواس پر چھایا رہا۔
ما بعدایجاب و قبول، مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جانے کیوں تانیہ کو محسوس ہورہا تھاجیسے اس کے ابو آس پاس ہی کہیںموجود ہیںاور شانہ بشانہ اس کی خوشیوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اچانک ڈاکٹر طاہر کی آواز نے اس کی سوچ کا سلسلہ منقطع کر دیا۔
’’ تانیہ! دیکھوتو سہی تم سے ملنے کون آیا ہے۔ ‘‘ماتھے پربڑی سی بندیا لگائے ایک سرخ و سفید رنگت والی مہربان صورت خاتون سامنے کھڑی ہوئی تھیںجن کی حرکات و سکنات سے بیک وقت ممنونیت اور شفقت پھوٹی پڑ رہی تھی۔وہ وفورِ جذبات میں آگے بڑھیں اورتانیہ کو گلے لگا لیا۔
’’یہ مسز راٹھور ہیں جوگردوں کے کہنہ مرض سے عاجز ہوکرہمیشہ موت کی دعا مانگا کرتی تھیں ۔ تمہارے ابو کے ذریعے ان کو نئی زندگی ملی ہے۔ ‘‘ڈاکٹر طاہر نے ان کا تعارف کرواتے ہوئے کہا۔ان کے سینے سے لگتے ہی تانیہ کوایک ایسے اچھوتے لمس کا احساس ہواجس کے لئے وہ ہمیشہ ترستی رہی تھی۔ ممتا کی آسودگی و گرمی سے شرابور لمس جس سے جداہونے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ایک دوسرے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر بولے :
’’ان سے ملو، یہ پروفیسر ریاض ہیں۔‘‘ مسز راٹھور کے سینے سے لگے لگے تانیہ نے ان کی طرف دیکھا اور اپنی پلکیں جھپکانا بھول گئی۔ ان آنکھوں میںتیرتی ہوئی مانوس اور مقناطیسی کشش کوملاحظہ کرکے مارے حیرت کے بت بن کر رہ گئی۔
’’ جانتی ہوتانیہ !پروفیسر ریاض کی آنکھوں کی روشنی تمہارے ابو کی مرہونِ منت ہے۔‘‘ڈاکٹر طاہر کی بات پر تانیہ نے بغوردیکھا۔۔۔۔۔۔۔ان آنکھوں میں بالکل وہی شفقت اور محبت کے ملے جلے تاثرات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوایک سمندر موجزن تھا، اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ،وہ براہِ راست ابو کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ بارِ عقیدت ان آنکھوں کو چوم لینے کی خواہش کو بمشکل دل میں دبانا پڑا۔ دریں اثنا وہ ایک اور ہستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
’’ اوریہ وہی انسان ہیںجن کے سینے میں تمہارے ابو کا دل دھڑک رہا ہے۔‘‘پروفیسر ریاض کی آنکھوں سے نگاہیں ہٹا تے ہوئے تانیہ دائیں گھوم گئی۔ان پر نظر پڑتے ہی اس کا دل آب آب ہوگیا،گلے میں پھندا سا پڑ گیا اور آنکھوں میں آنسو آگئے ۔لطیف صدیقی اس کے اندرونی جذبات کو پہچان گئے ۔پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنی آغوش میں لے لیااوروہ ہمہ تن گوش ہو کران کے سینے میں دھڑکتے ہوئے دل کی آواز سننے لگی۔۔۔۔۔دریں اثنالطیف صدیقی اسے نئی زندگی میں قدم رکھنے کی مبارکباد دیتے ہوئے دعائیں دینے لگے۔۔۔۔۔۔یہ توبراہِ راست ابو کے دل سے اس کے لئے دعا نکل رہی تھی، مانو ان ذی روح ہستیوں کی دھڑکنوں اور نگاہوںکے توسط سے اپنے وجود کے جاوداں ہو نے کا ادراک کرا رہے ہوں۔وہ شدتِ جذبات سے مغلوب ہو گئی اوران سے الگ ہوکر اپناسر فاران کے کندھے پر ٹکا دیا ۔ اسکی ذہنی حالت کو محسوس کرتے ہوئے فاران نے اپنی بانہہ اس کے گرد حمائل کردی اور جھک کر سرگوشی میں بولا۔ ’’ اپنے دماغ پرزیادہ بوجھ مت ڈالو۔ انشااللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
ڈاکٹر طاہر اسے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔ ’’ شدید خواہش کے باوجودوہ خاتون آ نے سے رہ گئیں جن کے جگر کی پیوند کاری کی گئی ہے کیونکہ ان کو ابھی کچھ عرصہ آرام کی ضرورت ہے۔ فی الوقت انہوں نے اپنی دعائیں بھیجی ہیںاور جلد ہی تم سے ملنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔‘‘
آنکھوں میں تشکر کے جذبات سموئے ممنونیت سے بھرپور لہجے میںوہ یوںگویا ہوئی۔’’ انکل ،شادی کا سب سے قیمتی تحفہ آپ نے دیا ہے۔ایک عظیم شادمانی، لا محدود طمانیت اور بے کراں سکوںجسے لفظوں کا جامہ نہیںپہنایا جاسکتا۔خدا نخواستہ اگر اس دن آپ کی پیش کردہ تجویز میں نے رد کردی ہوتی تو یقیناََ ابو کی روح مجھ سے شاکی ہوتی ۔۔۔۔۔۔ یہ جسدِ خاکی بھی اب آپ کی امانت ہے ۔جب میرا وقت آجائے تو عطیہ لینے پہنچ جانا،دیکھناکہیں دیر نہ ہو جائے ۔‘‘
ڈاکٹر طاہر فوراََ بولے۔’’ اس وصیت کے لئے قانونی دستاویز تیار کرنے پڑیں گے جسے میں اپنی فائل میں محفوظ رکھوں گا۔ تمہاری خواہش کے مطابق ٹھیک وقت پرکوئی بھی انچارج یہ کام سر انجام دے سکتا ہے۔‘‘
یکلخت وہ خاموش ہوگئے اور محجوب ہوکر بولے۔’’معاف کرنا۔ شادی خانہ آبادی کے مبارک موقع پر نہ جانے کون سا خشک موضوع لے بیٹھا۔دراصل میں اس معاملے میں ذراپریکٹیکل واقع ہواہوں، سرجن ہوں نا،بہرحال تم دونوں کونئی زندگی کی خوشیاں مبارک ہوں ۔‘‘
فاران نے دخل در اندازی کرتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں انکل بلکہ عطیہ دِہندہ کے طور پر میرا نام بھی لکھ لیجئے گا۔صدقِ دل سے کہہ رہا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر طاہر مسکراتے ہوئے بولے۔ ’’ ہنی مون گزارکر لوٹنے کے بعد اطمینان سے کسی دن میرے دفتر آجانا۔ مجھے یقین ہے کہ تم دونوں کے اس مستحسن اقدام سے بے شماراشخاص کونئی تحریک ملے گی۔‘‘
موبائل;9742345786
371، 6کراس، بمقابل نہرو پارک
ادے گری، میسور570019کرناٹک