واپسی
مجھے معلوم ہے جاناں کہ تم رہتی ہو رنجیدہ
تیرا لہجہ ہے سنجیدہ تیری آنکھیں ہیں نمدیدہ
تمہیں ماضی ستاتا ہے تمہیں واپس بلاتا ہے
مگر اب واپسی ممکن نہیں یہ جانتے ہیں ہم
بڑی مُدت رہی رنجش روابط بھی تھے منقطع
تیری حالت خدا جانے میری حالت تھی پیچیدہ
روابط جُڑ بھی جائیں تو یہ دوری مِٹ بھی جائے تو
مگر اب واپسی ممکن نہیں یہ جانتے ہیں ہم
گلے شکوے جو تھے تیرے غلط فہمی جو تھی تیری
یقین کیسے کیا تم نے اُس پرجو تھا نادیدہ
پشیماں آج تم بھی ہو پریشان آج ہوں میں بھی
مگر اب واپسی ممکن نہیں یہ جانتے ہیں ہم
نئے رشتوں کا تم کو اب لحاظِ خاص رکھنا ہے
مراسِم جو ہیں بوسیدہ انہیں رکھنا ہے پوشیدہ
میرے بارے میں سوچو گی اکیلے میں رولو گی
مگر اب واپسی ممکن نہیں یہ جانتے ہیں ہم
مگر اب واپسی ممکن نہیں یہ جانتے ہیں ہم
خلشؔ
لارم اسلام آباد ، اننت ناگ،[email protected]
برسات
چھم چھم کرتی بارش آئی
من ہی من میں سب کو بھائی
گرمی سے ہم تڑپ رہے تھے
سب کے دل میں راحت لائی
دیکھو دیکھو غور سے دیکھو
چھم چھم کرتی بارش آئی
بارش میں ہم جھوم رہے ہیں
اُٹھ کر بوندیں چوم رہے ہیں
آؤ تم بھی ہم سب جھومیں
دیکھو کہاں ہم گھوم رہے ہیں
کیا ہی منظر دیکھ رہے ہیں
بارش میں ہم جھوم رہے ہیں
چاروں طرف ہریالی چھائی
سوکھے پتوں میں جان آئی
پنکھڑی گل کی پھر لہرائی
پھڑ پھڑ کرتی تتلی گائی
باغوں میں ہے رونق چھائی
چھم چھم کرتی بارش آئی
دیکھو نا برسات ہےآئی
ٹھنڈک کی سوغات ہے لائی
بستی میں خوشیاں ہیں چھائی
کھیتی دھان کی پھر لہرائی
محنت اپنی پھر رنگ لائی
چھم چھم کرتی بارش آئی
جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن کشتواڑ