غرقِ اختر شمار میں ہوں
نہ مُجھکو حاصل قرار ہے اب نہیں میں مطلق قرار میں ہوں
خزاں رسیدہ ہے باغِ ہستی مقیم جائے مزار میں ہوں
قریب درقریب کی اب فضائے آتش ہے چہار جانب
قریب شعلوںکے آشیاں ہیں عجب میں لیل و نہار میں ہوں
خُدا کے ہوتے یہ ناخُدائی زمیں پہ فِتنے جگا رہی ہے
نہیں ہے لب پہ بیانِ جُرأت خموش سایۂ دیوار میں ہوں
ضیائے بزمِ کہکشاں گو غریق کیف و نشاط میں ہے
سکون پرور گھٹا ہے لیکن میں غرقِ اختر شمار میں ہوں
حیات اپنی ہے مختصر اب بقائے منزل بھی سامنے ہے
انجام اسکا ہے موت آخر کھڑا کہ میں بھی قطار میں ہوں
ہے سانس مطلق سرا سیمگی میں نگاہ پریشاں، مُلول رُخ ہے
نہ دل بھی اپنا ہے مطمئن اب اسیر میں اپنے خُمار میں ہوں
جو آٹھ دھے سفر کے اب تک کٹے نشیب و فراز میں ہیں
نظر جو اِن میں خدائی آئی غرق میں اُسکے غبار میں ہوں
عشاقؔ کشتواڑی
صدر انجمن ترقی اردو ( هند ) شاخ کشتواڑ
موبائل نمبر؛9697524469
[
مغموم فضائیں
فضاؤں نے خوشی ایسی
کبھی پہلے نہ دیکھی تھی
ہواؤں نے سکون ایسا
کبھی پہلےنہ دیکھا تھا
فضائیں ایسی دلکش تھیں
مچلنے دل لگا میرا
پرندے چہچہاتے تھے
بچے مسکراتے تھے
کچھ بچوں نے آنگن میں
دلہن بھی سجھائی تھی
کچھ بچے تھے مستی میں
مگن ایسے کہ مت پوچھو
اچانک سے گرج ایسی
سنائی دی کہ کانپ اٹھے
سبھی بچے جواں، بوڑھے
سہم کے رہ گئے سارے
فضائیں ہو گئیں غمگین
ہواؤں نے بھی رخ بدلا
ہواؤں میں تھی سرگوشی
کہیں گولی چلی ہوگی
کسی ماں کا کوئی بیٹا تو
پھر سے چھن گیا ہوگا
کسی بوڑھے کی لاٹھی
ٹوٹ کر ٹکڑے ہوئی ہوگی
کسی معصوم کے سر سے
یقیناً چھن گیا سایہ
یہی سب روز ہوتا ہے
تبھی تو فلک روتا ہے
تبھی تو فلک روتا ہے
سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد، کولگام
غم
غم کیا چیز ہے۔
اس کی حیثیت کیا ہے۔
خوشی کی کوئی بنیاد نہیں
تو غم کیا چیز ہے۔
کتنی حسین جوانی نہ رہی،
کتنے پیارے بچھڑ گئے،
کتنوں کو زمین کے حوالے کیا،
تو یہ غم کیا چیز ہے۔
خوشی کو پوجا مگر پھر بھی نہ رہی،
خوشی کی خاطر سب کچھ گنوایا،
خوشی رہی اور نہ وہ دن،
تو پھر غم کیا چیز ہے۔
غم دائمی دکھتا ہے،
کھبی نہ جانے کی ضد کرتا ہے،
مگر آخر غم ہی تو۔
غم کو پالنا سیکھو،
یہ اک دن جائیگا،
اسلئے غم کیا چیز ہے۔
آج غم کے آنسوؤں سے تن کو تر کرو،
آج رو لو،
کل کا کیا پتا،
تو غم کو پالو اور پھر غم کیا چیز ہے۔
کچھ نہیں رہتا ہے، غم بھی نہیں رہے گا۔
تو پھر غم کیا چیز ہے!
سید مصطفےٰ احمد
حاجی باغ، زینہ کوٹ، سرینگر
استدعائے سحر بنامِ حاجیاں
جُھک کے کرتی ہوں سب کو سلام حاجیو
مرا لے جانا واں پر سلام حاجیو
کِھل اُٹھیں گی دل میں خوشیوں کی کلیاں
آنکھ بھر بھر کے دیکھنا مدینے کی گلیاں
مل جائے گا روح کو اب آرام حاجیو
جُھک کے کرتی ہوں سب کو سلام حاجیو
سُنا ہے مدینہ ہے خوبصورت بہت
دید کی آنکھوں کو ہے ضرورت بہت
پینا زم زم کے جی بھر کے جام حاجیو
جُھک کے کرتی ہوں سب کو سلام حاجیو
پہنچنا سب مل کے عرفات میں
نور ہی نور وہاں کے مقامات میں
سحرؔ کو یاد رکھنا صبح و شام حاجیو
جُھک کے کرتی ہوں آپ کو سلام حاجیو
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون راجوری
منافقوں کی قبیح صورت
مُنافقوں کو میں کیسے میرے رسولِؐ رحمت جہاں میں جانوں
اگر چہ میری نہیں ہے وقعتِ سوال پھر بھی میں پوچھتا ہوں!
ہوئی مخاطب یقین جانو صحیح بخاری، صحیح مُسلم
حدیثِ پاکِ رسولؐ لے کر بکھیرنے کو وہ لعل و جوہر
سُنا بہت ہی ادب سے میں نے یہ اپنی پلکیں جُھکا جُھکا کر
علامتیں تین ہیں بتائی منافقوں کی میرے نبیؐ نے
کہ جب کبھی بھی زُبان کھولے بس اک سراپا وہ جھوٹ بولے
وہ جب بھی وعدہ کرے گا تو بس خلافِ وعدہ کرے گا آخر
اور ہاں، امانت میں جان رکھو فقط خیانت کرے خیانت
اے ربّ ِ ارحم مُنافقت سے بچائیں تا دمِ قیامت
عطا وہ کر تو ہمیں بصیرت کہ جان پائیں نگاہِ دل سے
حقیقتاً ہم یہاں پر ہم دم منافقوں کی قبیح صورت
طفیل شفیع
حیدر پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛ 6006081653
قطعات
اے عشق ! تونے بے خانماں کر دیا
کہوں کیا مکاں سے لا مکاں کر دیا
رگ جان سے زیادہ قریب تر ہے تو
تیرے ہجر نے کیا جاوداں کر دیا
جو شریک سفر نہ رہا
انہیں کھونے کا ڈر نہ رہا
آج بھی تیری چاہ رکھتا ہوں
تیری زندگی سے بے خبر نہ رہا
نہ سکون ہے نہ قرار ہے
میری روح بھی مجھ سے فرار ہے
میں بکھر گیا مجھے سمیٹ لو
تیرا مدتوں سے انتظار ہے
خوشنویس میر مشتاق
ایسو اننت ناگ کشمیر