زمیں پہ دو دو ہلال دیکھوں
فلک پہ واحد ہلال ہے اِک، مَیں جِس کا حُسن و جمال دیکھوُں
مگر ہَے قُدرت کا مُعجزہ یہ، زمیں پہ دو دو ہِلال دیکھوُں
مَیں توڑ لائوں فلک سے تارے، نہیں یہ میری ہَے دسترس میں
مگر اِجازت نظر کو ہَے یہ، مَیں اِن کا جی بھر جمال دیکھوُں
سیارگاں کی زمیں الگ ہَے، مکاں الگ، واں مکیٖں الگ ہَیں
مَیں ڈو‘ب جائوں طلب میں اِن کی، یہی مَیں اَپنا کمال دیکھوُں
ثباتِ حاصِل نہ ہَے کِسی کو، جہاں کی ہر شے ہَے آنی جانی
مگر جو منظر بدید ہَے اَب، مَیں اُس کا حُسنِ کمال دیکھوُں
بوقتِ پیٖری خیال آیا، چلو حرم میں قیام کر لیں
تلاشِ راحت میں واں جو پہُنچے، وہاں بھی دنیا سا حال دیکھوُں
یہ آزمائش نہیں تو کیا ہَے، جو نبض تھم تھم کے چل رہی ہَے
کبھی یہ سوچُوں کہ مر گیا ہوُں، کبھی کہ سانسیں بحال دیکھوُں
فِگار سر کے وُجُود پر اب، علیل سوچوں کا سائباں ہَے
نہیں ہَے قلب و نظر پہ قابو، کہ مُنتشر اب خیال دیکھوُں
ایّامِ گردِش سے مت گِلہ کر، یہ خُود اسیرِ فلک ہَے عُشاقؔ
گُزر نشیب و فراز سے تُو، اِسی میں تیرا کمال دیکھوُں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ،رابطہ ـ: 9697524469
فراق
میں کب اور کیسے وہ کشمیر دیکھوں
تصوّرمیں جس کی میں تصویر دیکھوں
مُجلاتِ عالم میں کیا ذکر اس کا
کِتابوں میں اسکی میں تفسیر دیکھوں
سنا ہے وہاں پر ہیں آبی ذخائیر
میں وہ ڈلؔ و ولرؔ کی جاگیر دیکھوں
سنا یہ بھی ہے ،باغِ جنّت ہے کشمیر
گُلوں کی میں کب بوئے اکثیر دیکھوں
وہاں احد زرگرؔ و مہجورؔ ہیں دفن
وہیں پر مزارِ رسول میرؔ دیکھوں
سنا ہے وہ رشیوں کی آماجگاہ ہے
وہیں شیخ العالمؔ سا میں پیر دیکھوں
منی ؔ وائے ناداں و کمتر ابھی ہوں
میںہر گام پہ خودکو باپیر دیکھوں
تمنّا یہی، آرزو ہے خداوند
رقم اپنی عظمیٰؔ میں تحریر دیکھوں
ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
رابطہ؛9596888463
ہجرت کا پانچواں موسم
مرے بچپن میں آج بھی اک چھوٹا کمرہ ہے
جسمیں پڑی کچھ چیزیں روز مرے ساتھ باتیں کرتی رہتی ہیں
اک ٹوٹا قلم اک سوکھی دوات اک میلی تختی۔۔
کچھ بے جان کھلونے بھی ہیں
بابا نے لائے تھے
جب جب گاؤں میں میلہ لگتا تھا
ماں نے سنبھال کے رکھے ہیں
وقت کی پوٹلی میں
درد کی انمول نشانیاں بنا کر
جن کی خامشی میں آج بھی چاروں پہر میلے لگتے ہیں
کئی کھلونے مرے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ بھی گئے
کرچیاں سمیٹتا گیا
آنسؤں سے نہلاتا گیا
چوری چھپے دفن کرتا رہا
اپنے دکھ کے قبرستاں میں..
کچھ زندہ کھلونے بھی آتے جاتے تھے
آکر رہتے تھے مرے ساتھ
رہ کر جاتے تھے مجھ سے دور
ہجرتوں کے موسموں میں…
آتے تھے تو……
نئی دھوپ کے موسم میں
برقی تاروں پہ جھنڈ در جھنڈ
کہکشاں ابابیلوں کے
کہکشاں سے نکلی جوڑی
بنا دستک دئے بچپن کے چھوٹے کمرے میں آتی تھی
پٹ باہیں کھول کے ہوتے تھے
چھت سے چمٹا ٹوٹا گھونسلہ
سانس لینے لگتا تھا
تنکے اور کیچڑ اک دوسرے سے ہمکنار ہوتے تھے
گھونسلے میں میلہ لگتا تھا
نئے کھلونے چوں چوں کرتے تھے
میرا بچپن جاگ جاتا تھا ،اچھلتا تھا ،کودتا تھا
قلم دوات اور تختی کھلکھلانے لگتے تھے
ہجرت کے اگلے موسم تک…
جاتے تھے تو…..
بچپن میں ٹھہرے کمرے کو سنسان چھوڑ کر
دور مرے ہونے سے بہت دور
مری نگاہیں ان کا تعاقب کرتیں تھی
کھڑکی کے پٹ تک
تاروں کے کہکشاں تک
ہمالہ کے اوپر تیرتے بادلوں تک
نیل گگن کی ان دیکھی پہنائیوں تک…
پھر پانچواں موسم آگیا
ہجرت کا آخری موسم
میرے بچپن میں ٹھہرا کمرہ بدل گیا
رنگ سے روغن سے
نئی سوچ سے
چھت سے چمٹا ابابیلوں کا گھونسلہ ڈھہ گیا
کھڑکی کا پٹ بدل گیا
جالی کے چھیدوں نے آنے جانے کے رستے چھلنی کردئے
چھیدوں کی دیوار اْٹھی
نظریں آر پار چھلنی
بدن دھرے کے دھرے رہ گئے
ابابیلیں آیئں ہونگی
دستکیں سنی نہیں گئیں
کھلونوں کی مجبوریاں خاموش ہوئیں ہونگی
پانچواں موسم تھا
آخری ہجرتوں کا
آیا تو آ کر ہی رہ گیا
آج تک جانے کا نام نہیں لیتا
میں بچپن کے چھوٹے کمرے میں اب دکھ کے کھلونے توڑتے توڑتے تھک چکا ہوں
مرے سینے میں کرچیوں کا قبرستان بھر چکا ہے
کھڑکیوں کے جالی دار پٹ کھول دو
مرے ابابیلوں کو رستہ دو
آنے دو جانے دو
جاکر پھر آنے دو
وقت کو گھٹن ہورہی ہے
کمرے میں دفن کھلونے سسک رہے ہیں
بلک رہے ہیں کراہ رہے ہیں..
زندگی ہجرت سے چھٹکارا چاہتی ہے
جالی دار پٹ کھول دو
ہجرتوں کا پانچواں موسم اب بھی نہ گیا
تو پھرکبھی نہیں جائے گا…!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد، فون نمبر9419045087