ماں
کبھی گر بیٹھے بیٹھے میں
بہت مایوس ہوتا ہوں
آنکھیں نم سی ہوتی ہیں
دل بے چین ہوتا ہے
خزاں کا سا تصوّر مجھ کو
فصلِ گُل میں ہوتا ہے
محفل میں بھی گر خود کو
مُستثنٰی ہی پاتا ہوں
چَناروں کے سائے میں
جُھلستا ہوں ، تڑپتا ہوں
خوابوں میں بھٹکتا ہوں
راہیں بھول جاتا ہوں
تبھی لَا تَقنَطُو کہہ کر
کوئی مانوس سی آواز
شیریں سی ، مُترنّم سی
سماعت سے ہے ٹکراتی
ہوائیں مہک سے لبریز
ٹھنڈے آنچل سے آتی ہیں
کسی کے دستِ نازک کا
لمس محسوس کرتا ہوں
میں اپنے آپ کو قدموں میں
اپنی ماں کے پاتا ہوں
جہاں جنّت بھی ہوتی ہے
وہیں میں خود کو پاتا ہوں
نہ میں مایوس ہوتا ہوں
نہ آنکھیں نم ہی ہوتی ہیں
جاوِید یوسف تمنّاؔ
شعبئہ اُردو، یونیورسٹی آف حیدرآباد
موبائل نمبر؛8491871106
عشق کیا ھے؟
تجھ پہ مرنا
یا تیرا ہو جانا
تجھ کو پانا
یا تجھ میں کھو جانا۔
ہے جادو کسی گماں کا
یا دل پہ اثر عیاں کا
ہے تیرا کوئی کمال یہ
یا قصور میری جان کا۔
میرے ستم کے جانِ جاں
میری سمجھ نہ آ سکا
ہے میری طلب کا نور یہ
یا تیرے کرم کا طور یہ۔
ہے میرا کوئی سوال یہ
یا تیرے جواب کا امتحاں
ہے یہ دشتِ بے نشاں
یا تیرا وصل ہے جانِ جاں؟
شہزادہ فیصل
ڈوگری پورہ، پلوامہ
موبائل نمبر؛8492838989
Contents