خوابِ شیریں کبھی پاس آیا نہیں
سُخنِ عمدہ کا واقعی دفینہ ہوں میں، ذہنِ کم تر نے اب تک کُچھ دکھایا نہیں
جائے حیرت کہ اب بھی مقفّل ہیں در، ہاتھ اپنے ابھی کُچھ بھی آیا نہیں
قصرِ صورت بھی عُریاں بدن ہو گیا، عصرِ حاضر نے اِس کی رِدا نوچ لی
ایسا منظر ہے ماتھے پہ جھُرّیوں کا اب، جو تھا دیکھا کبھی ہم نے بھالا نہیں
یاد رکھنے کا جذبہ نہ ہی جوش ہے، کِتنا ظالم ہے دِل اور سِتم کوش ہے
حافظہ تو مگر اب بھی شاداب ہے، ہم نے ماضی کو اپنے بھلایا نہیں
کتنے ویراں خیالوں کا مدفن ہے دل، جوئے یاداشت اِس کی روانی میں ہے
اپنا ماضی ابھی تک اسے یاد ہے، فرق یادوں کا پیری میں آیا نہیں
میری صحبت میں آکر ذرا سیکھ لو، شب کو بیدار کیسے رہا جائے ہے
چشم رہتی ہے محوِ سُخن رات بھر، خوابِ شیریں کبھی پاس آیا نہیں
گو فضائے ذہن میں ہے آلودگی، کوئی خواہش رکھے اِس کو پھر تازہ دم
بہکی سانسوں میں ہے بوئے آتش مگر، ہم نے اِس کو بھی خاطر میں لایا نہیں
شوخ اپنا ابھی بے نیازی میں ہے، پھر وہ مصروف کیا حیلہ سازی میں ہے
اُس نے ہم سے ہمیشہ کنارا کِیا، ہم نے لیکن اُسے دور پایا نہیں
دوشِ احباب پر تھا جنازہ مِرا، اُس نے چلمن ہٹائی تو دیکھا ہمیں
سرد خانے کی وحشت کے ماحول میں، اشک آنکھوں تلک اُس کے آیا نہیں
بعد میرے کمالِ غضب ہوگا یہ، میرے اُفکار جاوید رہ جائیں گے
کِتنے عشاقؔ آئے، فنا ہو گئے، نامِ میرا کِسی نے بُھلایا نہیں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469
ساون
اب کے کیسا ساون آیا
پیاس بُجھی نا دل بہلایا
روٹھا پریتم لوٹ نہ آیا
نا کوئی پیغام ہی پایا
پوچھا بادل سے وہ دہاڑا
دیکھ کے مجھ کو پلّو جھاڑا
اُجلے دن کو خوب ستایا
بہتے جھرنوں کو بھی رُلایا
دل جو تڑپا آنکھیں برسیں
تیرے اک درشن کو ترسیں
سوچا ہر سُو تم کو پایا
من کے آنگن میں درشایا
مست نظارے چاند ستارے
ایسے میں وہ مجھ کو پکارے
کیا پریوں نے گیت ہے گایا
میں نے سارے جگ کو پایا
خوشبو بکھری ہر سُو اُسکی
ہر ذرے میں خوشبو اُسکی
شوخی نے ہر دل برمایا
کیا پتھر کیا پیڑ کیا سایا
نثار ؔسیکہ ڈافری
سرینگر،موبائل نمبر؛9419000012