ہیں بیٹھے خوار گرمی میں
فضائے پُر تمازت کی لِئے دستارگرمی میں
بڑی مُدّت سے بیٹھے ہیں بہُت لاچارگرمی میں
یہ سامانِ اذیّت کی فراوانی ارے توبہ
بلکتے شیر خواروں پہ اماں یہ مارگرمی میں
کہ بحرِ زیست کا اب کے طلاطم خیز منظر ہے
نہ زیبِ تن ہے کُرتا اب، نہ ہی شلوارگرمی میں
مزاجِ وقت کا اپنا وطیرہ بے بضاعت ہے
کہیں سردی کے متلاشی ہیں بیٹھے خوارگرمی میں
الٰہی محوِ حیرت ہوں تِری اس کبریائی پر
ہے کوئی قصرِ شاہی میں کوئی نادارگرمی میں
دفینے برق پاروں کے چنابؔ و رودِ جہلمؔ ہیں
نکالو یہ متاع ان سے مِری سرکارگرمی میں
کبھی عُشّاقؔ ممکن تھا ملن مہ وش سے گلیوں میں
نظر آتا نہیں اب کے کوئی گُلنارگرمی میں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
رابطہ ـ: 9697524469
سلامت باد
اک حرف ِ شکایت ہے یا کفر خدا جانے
یاں کس کی کوئی منزل، یاںکس کو نشیمن یاد؟
منزل کی کشاکش میں اک جاں بہ دہن بلبل
دنیا کی اسیری سے یہ کہتے ہوئی آزاد
چند اور بچی سانسیں اے جانِ کمر بستہ
اے سوزِ جگر ممنوں ، اے عزم سلامت باد
خود سوزی بسمل تو اک ہیچ تماشا ہے
یاں آگ کے شعلوں پر ہے بزم ِ چمن آباد
ہے سیلِِ محبت اور دریا ئے لہو باہم
دامن میںپرو تی ہیں مائوں کے غمِ اولاد
اس باغ کے مالی نے لکھا ہے قوائد میں !
یا روح و بدن عاری یا جاں بہ قفس آباد
بلبل کے ترانوں سے عاری ہے میرا گلشن
ہر شاخ ہوئی ساؔغر اب خانۂ ظلمت زاد
وسیم ساغرؔؔ
ہردوشیواہ، سوپور
رابطہ: 7006452075
کیا تو اپنے جسم کی ہیت سے تھی واقف ابھی؟
تو ہے عورت کیا تجھے یہ علم تھا ننھی پری
کس طرح تو نے سہا ہوگا و ہ عالم در د کا؟
کیا تجھے معلوم تھا یہ روپ بھی ہے مرد کا
آہ! اے وحشی درندے کیا تجھے سُوجھا نہیں
ہے ہوس کا تو پجاری کیا مگر دیکھا نہیں
کیا تری آنکھیں تھیں پتھرائی جو تو نے یہ کیا
ڈھاپنا تھا جس بدن کو تم نے عریاں کر دیا
کیا سنائی بھی نہ دی اس پھو ل کی چیخ و پکار
کیا کبھی تو اپنی بیٹی کا کرے گا یوں شکار
کیا کلیجہ پھٹ نہیں تیرا گیا اے جانور
کیا تیرے اعصاب پر طاری تھی شہوت اس قدر
مر رہی تھی وہ مگر دل تیر ا بھر آیا نہیں
کیا تر س بھی تجھ کو اس معصوم پر آیا نہیں
ملک وسیم سیفیؔ
میمندر شوپیان ،7006530659
انجام زندگی
آئو قبرستان چلیں
زندگی کا انجام دیکھیں
قبریں شکستہ پڑی ہیں
کوئی پرسان حال نہیں
اس رنگین دنیا کے درمیان
یہ شہر خموشاں ہے
چھوٹے تھے چلے گئے
بڑے تھے چلے گئے
خواہ کوئی دولت میں قارون
تکبر میں فرعون
جب وقت اجل آتا ہے
سب یہیں چھوٹ جاتا ہے
نا اپنی خوشی سے آئے تھے
نا اپنی خوشی سے چلے چلے
آصف پلاسٹک والا
ربانی ٹاور، مدنپورہعرب مسجد۔ممبئی ۱۱
موبائل۔9323793996
تنہائی
آج پھر یہ اشک گر پڑتے ہیں آنکھوں سے میری
آج پھر آئی ہیں ماضی کی مجھے یادیں بہت
آج پھر دل کے تڑپنے کی صدا آتی ہے ہائے!
آج پھر کرتا ہے فریادیں میرا زخم ِجگر
آج بھی پنہاں ہو میرے دل کے شیشے میں کہیں
آج بھی رقصاں ہو میرے ذہن کے پردے پہ تم
آج بھی وہ خلوتیں جب یاد آتی ہیں کبھی
ہم اُلجھتے ہیں خیالوں کے سہانے جال میں
زندگی کچھ تو بامجھ کو کہا تو لائی ہے
کتنی ظالم یہ سُسکتی ہوئی تنہائی ہے!!!
شاہین ؔمقبول
بچھواراہ سرینگر
موبائل نمبر ،9797236518