برف دِل
میری شاعری میں برف کا ذِکر
کئی سوالوں کو جنم دیتا رہا ہے
یاد ہے، ایک روز تم نے کہا تھا
میں بتاؤں، برف تمھیں کیوں اَچھی لگتی ہے
اِس لیے کہ میں تمھیں اَچھی لگتی ہوں
سچ ہے
جب کوئی اَچھا لگتا ہے
اُس کے شہر کا موسم، چرند و پرند
مِٹی، پتھر اَور لوگ
سب اَچھے لگتے ہیں
تم نے یہ بھی کہا تھا
موسم بدلنے پر برف اَپنا رُوپ اَور مسکن
بدل لیتی ہے
وقت بھی کیا شے ہے
اَب کسی سے کہہ بھی نہیں پا رہا ہوں
برف مجھے اَچھی نہیں لگتی!
محمد تسلیم مُنتظِرؔ
محلہ دَلپتیاں، جموں
موبائل نمبر؛9906082989
کام آنا سیکھ
دلوں میں گھر بنانا سیکھ
سبھی کے کام آنا سیکھ
جو روٹھے ہیں تیرے اپنے
انہیں پھر سے منانا سیکھ
ذرا لوگوں کے عیبوں کو
اچھالو مت! چھپانا سیکھ
غموں کے لاکھ طوفاں ہوں
تو پھر بھی مسکرانا سیکھ
اُجاڑا جن کو غربت نے
انھیں پھر سے بسانا سیکھ
لہوں سے سینچ لے مالی
جلا گلشن سجانا سیکھ
ہٹا آنگن کی دیواریں
دلوں کو پھر ملانا سیکھ
فلکؔ جی مسخرہ بن کے
تو روتوں کو ہنسانا سیکھ
فلک ؔؔریاض
حسینی کالونی چھتر گام بڈگام
موبائل نمبر۔9596414645