تکیہ کلام جس کی تھیں تنویر کی باتیں
ہوتی بہشت میں اب بھی ہیں کشمیر کی باتیں
مہجورؔ کبھی حبہؔ کبھی رسول میرؔ کی باتیں
پژمردہ مگر عصر میں وادی کے ہیں نقوش
کرے ہیں سب ان کی اب تقدیر کی باتیں
اس خطۂ فردوس کے جوگانِ عام میں
عصرِ رواں میں عام ہیں شمشیر کی باتیں
آماجگاہ یہ سرزمیں رشیوں کی رہی ہے
چلتی مگر ہیں اب بھی یاں بے پیر کی باتیں
تہذیب کا تھا یاں بھی کبھی مہر منوّر
تکیہ کلام جس کی تھیں تنویر کی باتیں
حسنِ جمیل اس کا تھا یکتائے زماں آپ
اعجازِ بیاں تھیں کبھی توقیر کی باتیں
تاحدِّ نظر تھی یہی عالم میں سیر گاہ
کرتے تھے سیّاح جاکے گھر تصویر کی باتیں
سر چشمہِ فیضان کبھی اس کی فضا تھی
راحت نواز جس کی تھیں تاثیر کی باتیں
صد حیف مگر گردشِ دوراں کے سبب آج
ہوتی ہیں کم و بیش ہی کشمیر کی باتیں
عُشّاق ؔکِشتواڑی
صدر انجُمن ترقٔی اُردو (ہند) شاخ کِشتواڑ
موبائل نمبر؛ 9697524469
سب خاڪ
پڑا رہ جائےگا
جب راہ گزر پہ ٹھہرو گے
پھر پاس ہمیں بلواؤ گے
ہم جان کو اپنی واریں گے
جب شعر تمہیں سنوائیں گے
ہم حال پریشاں بھائیں گے
احوال ہمارے جانو گے
تو درد کا مارا مانو گے
اس جان گُسل کا کیا کہنا
جو زندہ رزم سا لگتا ہے
سب نقش مٹاتے چلتے ہیں
اک روز جنھیں مٹ جانا ہے
یہ عشق کی باتیں چھوڑو اب
یہ رشک قمر اک دھوکہ ہے
اے فرد بشر اب سمجھو تم
پھر کون تمہیں سمجھائے گا
جب شورِ قیامت سن لو گے
کیا دُم دَبا کر،تم بھاگو گے
یہ عالمِ آب و گل ہے کیا؟
جب صور کو پھونکا جائے گا
سب خاک پڑا رہ جائے گا
ہے عرشِ مکاں کا وعدہ یہ
اک روز کا جھٹکا ہونا ہے
یہ چاند ستارے اور سورج
سب نقش زمیں ہو جائے گا!
اے شہر غنیمت کے لوگو
سب رنگ نگر تب چیخیں گے
یہ موت، ہر شے کو آنی ہے
گو زندگی آنی و فانی ہے
اس موجِ نفس میں کیا دم ہے؟
اک موج ہوا ہے، اور کیا ہے
جب دم دَمَا دم چلتی ہے یہ
آغوش کشا پھر ہوتی ہے
اور سنگ دلوں کو بانہوں میں
جب لیتی ہے تو لگتا ہے کہ
یہ موم کی مورت جیسے ہیں
سب ایک ہی ماتھے کی جانب
یہ ڈوب کے مر ہی جاتے ہیں
ان نقشِ قدم پہ چلتے ہیں
وہ لوگ جنہیں مر جانا ہے
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ
موبائل نمبر؛ 6005929160