خلش
چلو مانا کہ آساں ہے کسی کو بھول کر جینا
چلو مانا کہ اچھا ہے کسی کے بن میرا جانا
چلو مانا کہ بہتر ہے اکیلا پن، اکیلا من
چلو مانا کہ لوگوں کو نظر انداز ہے کرنا
چلو مانا کہ اچھی ہے کسی حد تک یہ دنیا بھی
مگر مجھ کو فقط اتنا بتا دے ناصح پھر بھی
کہ جب ہم چھوڑ کر ماضی کا سب کچھ بھول جاتے ہیں
بہت آگے کو بڑھتے ہیں بہت ہی دور جاتے ہیں
چمن میں پھول کھلتے ہیں تو گُل بھی مسکراتے ہیں
گزر جاتی ہے پھر خوشیوں میں اپنی زندگی پیہم
مگر جب بھی اچانک سے کبھی ہو سامنا اس کا
یا پھر یادوں کے کچھ اوراق بھی اپنے پلٹ جائیں
دریچے جو ہیں ماضی کے اگر وہ پھر سے کُھل جائیں
سبھی دیرینہ راستے بھی ہمیں پھر سے پکاریں تو
بہت دشوار ہوتا ہے کسی کو الوداع کہنا
بہت دشوار ہوتا ہے کسی کو الوداع کہنا
عقیل فاروق
طالب علم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
شوپیان،موبائل نمبر؛8491994633
نظم
میں شمع کی صورت پگھلتا رہا ہوں
میں اپنے ہی شعلوں میں جلتا رہا ہوں
کڑے امتحاں سے گذرتے گذرتے
میں پیتل سے سونے میں ڈھلتا رہا ہوں
زمانے کے سارے ستم سہتے سہتے
غموں کے نوالے نِگلتا رہا ہوں
حوادث کے طوفان سے آنکھیں لڑا کر
میں تو مسکرا کر مچلتا رہا ہوں
رہِ حق میں مجھ کو ملے زخم اتنے
کہ میں گرتے گرتے سنبھلتا رہا ہوں
میں شوقِ سفر میں مگن اسقدر تھا
کہ کانٹوں پہ بھی میں ٹہلتا رہا ہوں
رُکا کب، رواں تھا میں تو مثلِ دریا
میں چشموں کی مانند اُبلتا رہا ہوں
میں تو مثلِ سورج رہا گردشوں میں
کہ میں ڈوب کر بھی نکلتا رہا ہوں
کبھی تھا ہلالی، کبھی ماہِ کامل
حِجازیؔ یوں صورت بدلتا رہا ہوں
وسیم حِجازی
پٹن بارہمولہ،موبائل نمبر . 9797068044