شالیمار کی گود میں
تیری آغوش میں میرا بدن کیوں کسمساتا ہے
مگر یاروںکا میٹھا غم رگوں میں دوڑ جاتا ہے
تیری روشوں پہ چلتا ہوں، تفکُر جاگ جاتا ہے
تمنا جھلملاتی ہے، تخیل گُنگناتا ہے
���
ہرے لانوں پہ جب میری نگاہیں دوڑ جاتی ہیں
خِرد مسحور ہوتی ہے،تصور مُسکراتا ہے
تیرے پھولوں کی خوشبو میں خُمارِ خود فراموشی
چناروں کا گھنا سایہ تردُد کو سُلاتا ہے
گھنیری جھاڑیاں، سبزہ، عنادِل، تتلیاں، جھرنے
عَدن کو رشک آتا ہے، اِرم آنسو بہاتا ہے!
���
یہ برقی قُمقمے تیرے، صدا اور نُور کا جادُو
گھڑی بھر کے لئے بُھولا فسانہ یاد آتا ہے
یہ کھنڈر، ٹوٹی دیواریں تجسُس کو جگاتی ہیں
مناظر کتنی صدیوں کے تسلسل سے دِکھاتی ہیں
���
جہانگیری زمانے کے حقائق اور افسانے
میری یاداشت کے پردے پہ تصویروں کی صورت میں
محو ہوکر بکھرتے ہیں، اُبھرتے ہیں، نکھرتے ہیں۔
تیرے ہموار خِطوں پر تِھرکنا یاد آتا ہے
پلانا اور پی لینا، بہکنا، یاد آتا ہے
سرور و رقص کے رنگوں میں ڈھلنا یاد آتا ہے۔
شہنشاہ کا کبھی ناراض ملکہ کے سِرہانے پر
وہ سرگوشی میں کُچھ کہہ کر منانا یاد آتا ہے
���
میرے رشکِ جَناں تُم سے ذرا اِک بات تو پوچھوں
ہو اپنے حال میں تُم خوش کہ ماضی جی لُبھاتا ہے؟
بُجھا رہتا ہے دل تیرا، کہ نغمے گُنگناتا ہے؟
یہ تُو جانے مگر میرے لئے یہ شادمانی ہے
کہ تیرا جسم نرمل ہے، تمہارا حُسن دل کش ہے
مگر دامن میں سُکڑی جھیل ڈل کو اِک نظر دیکھو
کبھی تھی تیرا آئینہ مگر اب مُنہ چُھپاتی ہے
��
یہ مانا یادِ ماضی سے تمہاراجی بہلتا ہے
ہے بہتر حال میں جی لو، گئی حشمت کو رہنے دو
��
شہناہ سوگئے ہیں خاک میں، اب آنہیں سکتے
جو تُونے کھو دیا ہے اب وہ ہرگز پا نہیں سکتے
یہ کیا کم اب تیرے در پر ہزاروں لوگ جب چاہیں
بِلا خوف و تردُد شوق اور آشاسے آتے ہیں
گدا ہو، بادشاہ، تسکیں کا تحفہ لے کے جاتے ہیں
یوسف نیرنگؔ
بوگنڈ کولگام، کشمیر،موبائل نمبر؛9419105051
چارہ گر کوئی نہیں
اب پڑے ہم سب ہیں غافل، اب تو ڈر کوئی نہیں
یوں بھی اپنی موت سے آگاہ بشر کوئی نہیں
ہم نے مانا پی چکے ہو، تم سمندر عِلم کا
بات میں تیری مگر، واعظ اثر کوئی نہیں
کلفتوں نے اپنی ہم کو ہرطرف رُسوا کیا
ہر کوئی ناصح بنا ہے، چارہ گر کوئی نہیں
دُور منزل ہے بہت اور راستہ دُشوار ہے
کاٹنا تنہا سفر ہے، ہمسفر کوئی نہیں
رکھ کسی کا دل، سہارا بن کسی کے واسطے
کام آٗے گا وہاں پر مال و زر کوئی نہیں
تُو پلٹ کر دیکھتا صیاّد کیاہے بار بار
اب چمن میں گُل کسی بھی شاخ پر کوئی نہیں
چھوڑ اے دل تُو بھی اب اُس صبح روشن کا خیال
لگ رہاہے اِس شبِ غم کی صحر کوئی نہیں
ہم سے یا ربّ سارے اپنوں نے کنارا کرلیا
تُو جو ہے پھر غم ہے کیا اپنا اگر کوئی نہیں
اے مجید وانی
احمد نگر، سرینگر،موبائل نمبر؛9697334305
کووڈ کی مار
صورتیں کیسی بھی ہوں، پل میں مٹا دیتا ہے
کیا سے کیا آن میں بندے کو بنا دیتا ہے
شعلہ کووڈ کا ہے کیا ؟ آیا کہاں سے اُڑ کر؟
آگ ہر سوچ کے پردے میں لگا دیتا ہے
گھر اُجاڑے ہے ہر اِک اور جہاں بھی جائے
چاروں اطراف جدائی کی صدا دیتا ہے
ماہر ِ طب نہ دوائی کوئی روکے اِسکو
ہے یہ کیا مرض؟ طبیبوں کو ہرا دیتا ہے
ہے رضا رب کی یہاں، حکم ہے ہر کوئی اُس کا
سحرؔ، بندہ ہے بشر سر کو جھکا دیتا ہے
ثمینہ سحرؔ مرزا
بڈھون راجوری
زوال ہی زوال تھا
جو اب بھی تھا ایک ہی، ایک ہی سوال تھا
کس کو دوں جواب میں سوال ہی زوال تھا
وہم تھا کہ ہم کہاں کے رہ گیے نصاب میں
ایک ہی تھی کہکشاںـ، زوال ہی زوال تھا
خون تھا کہ ہر طرف اندھیرا اور شگاف تھے
میرے دل میں وہم تھا جو، وہ بھی اِک مثال تھا
کہاں کا رہ گیا تھا،میں کس سے لو لگاتا اب
وہاں کا ذرہ ذرہ اب اندھیرے کی مثال تھا
شاہد محی الدین ،وانپورہ، کولگام
استاد کے نام
رہنما دوست معمار اُستاد ہے
قوم و ملت کو در کار اُستاد ہے
منزلوں سے کیا جس نے ہے آشنا
در حقیقت وہ سالار اُستاد ہے
زندگی کو نکالا ہے ظلمات سے
ماہ ہ انجم سے ضوبار اُستاد ہے
ماں سے بڑھ کر دیا پیار اطفال کو
شفقتوں کا وہ گلزار اُستاد ہے
توڑ ڈالا جہالت کی زنجیر کو
علم کی ڈھال تلوار اُستاد ہے
خوابِ غفلت سے بیدار کرتا رہا
نورِ باطن کا مینار اُستاد ہے
درسِ اخلاص اب مکتبوں میں نہیں
قوم سے آج بیزار اُستاد ہے
جاوید عارف
پہانو شوپیان کشمیر
موبائل نمبر؛7006800298