استدعا
پرندوں کو یہاں
پرواز کی طاقت عطا کر
انہیں پھر
آسمانوں کا سفر دے
شکستہ گھونسلوں کی پیاس کب تک
پہاڑوں سے پرے بھی آشیاں دے
کہ جس مٹی سے ان کا واسطہ ہے
نمو اس کو عطا کر
یہ خود جوتیں زمینِ دل کو نیزے کی انی سے
اُگائیں فصل پھر اپنی اَنا کی
انہیں دے حوصلہ
گزرے دنوں کا
کہ فتح و کامرانی
سرخ روئی
ملا کرتی تھی جب
زخمی پروں سے
احمد کلیم فیض پوری
گرین پارک، بہوسوال، مہاراشٹرا
موبائل نمبر؛8208111109
لخطِ جگر
ابراہیم لنکن کا خط اپنے بیٹے کے استاد کے نام
سیکھناہوگا اسے کہ لوگ سارے
ہوتے نہیں عدل و صداقت کے فرشتے
سکھاؤ اسے کہ ہر غنڈے کے مد مقابل
ہوتا ہے اک نجات دہندہ
ہر خود غرض سیاست داں کے مد مقابل
ہوتا ہے اک پر خلو ص ر ہنما
ہر نئے دشمن کے ساتھ ساتھ
ملتا ہے آدمی کو اک پیارا دوست
گرچہ مدت دراز چاہیئے یہ سکھانے کیلئے
سکھاؤ اسے مگر، گر سکھا سکو!
اک پیسہ کمایا جائے جو مشقت سے
ہوتا ہے پانچ سو سے بہتر
سکھاؤ نہ صرف اسے عزت سے ہارنا
بلکہ محنت سے شادماں ہو کر جیتنا بھی
سیکھنے دو اسے کہ طاقتور سانڈوں کو گرانا
ہوتا ہے سب سے آساں
سکھاؤ اسے، گر سکھا سکو!
کتابوں کی پُر اسرار دنیا میں مگن ہونا
فطرت کی رنگا رنگی میں مست ہونا
پرندوں کا فلک پہ لہرا کے اڑنا
مدھو مکھیوں کا اجالوں میں پھڑ پھڑانا
پھولوں کا دامنِ کوہ میں مسکرانا
سکھاؤ سبق اسے مکتبِ حیات میں
اچھا ہے ہارنادھوکے کی جیت سے
سکھاؤ سبق اسے اپنے اصولوں پہ اعتماد کا
گرچہ لوگ کہدیں غلط راہ پہ ہے اس کا چلن
سکھاؤ اسے حلقۂ یاراں میں رہنا ابریشم کی طرح نرم
دشمنوں میں فولاد سے بھی سخت تر
سکھاؤ اسے، گر سکھا سکو!
غموں کے بھنور میں مسکرانا
کہ اشک بہانے میں عار نہیں
کم ہمت ناقدوں ہنسی میں اُڑانا
زیادہ مٹھاس سے باز رہنا۔
سکھاؤ اسے اپنے جوہرِ عمل کو
بہتر بولی لگانے والے کو بیچنا
اپنے ضمیر کو مگرکسی قیمت پہ نہ بیچنا۔
سکھاؤ اسے نادانوں کے شورسے
گوش عمل کو بند رکھنا
اپنے عزائم کی خاطراُٹھنا اور جہاد کرنا
گر راہ صداقت پہ ہیں اسکے قدم۔
سکھاؤاسے شفقت و پیار سے
دور رکھنا مگر لاڈپیار سے
کہ دہکتی بھٹی کی کوکھ سے ہی
جنم لیتا ہے بہترین فولاد۔
گرماؤ اسے ہمتِ پیہم سے
لیس کروصبر واستقلال سے
سکھاؤ اسے خود شناسی و خود اعتمادی
کہ ہے یہی آدمیت کی معراج۔
جانتا ہوں کہ مشکل ہے
جو اُمیدیں لگائے بیٹھا ہوں
کوشش مگر کرتے رہو
کہ قایم دنیا اُمید پہ ہے
دھیان مگر رکھنا کہ یہ پھولوں سے نازک
ماہتاب سےروشن
میرا ننھا پیارالخت جگرہے۔
آزاد ترجمہ:میر امتیاز آفریں
وقت کا بس گُزرنا
وقت کا بس گُزرنا
ميں خاموشی ميں
طاق پہ رکھی کتاب کی مانند دن گُزارتا ہوں،
حرف حرف پڑھتا ہوں،
پنا پنا گِنتا ہوں، ہر پنے کے آخر ميں
اپنے کھادی رُمال ميں کس کے ايک گرہ باندھ ليتا ہوں۔
يہ وقت جو بس گُزرتا ہے اس کا حساب رکھتا ہوں
عذاب کا وقت بھی کُچھ ايسا ہی ہوتا ہے،
خاموشی سے گُز جاتا ہے،
سيلاب کے پانی جيسا جو رات ميں دھيمے دھيمے بڑھ جاتا ہے۔
ميںخاموش پانی کی سطح پہ
ايک چھوٹی سی لہر بنانا چاہتا ہوں،
ايسی لہر جو طوفان نہ لائے بس يہ خاموشی آپکو دِکھا دے،
اِس کا آئينہ بن جائے۔
ميرے رُمال کی گرہيں
وقت کے دامن ميں دوڈتی ايک ايسی لہر ہيں
جو وقت کا بس گُزرنا گِنتی ہيں۔
عارف حیات نیرنگؔ
ریسرچ سکالر شعبہ انتھرویالوجی
یونیورسٹی آف مینی سوٹا، امریکہ
موبائل نمبر: +1 6129793356