گمشدہ پڑاؤ ۔۔۔
دہلیز سے اترنے کی دیر تھی
پگڈنڈی نے دامن پکڑ لیا
عشق کی کچی ڈگر تک لے آئی
خوبصورت کچی ڈگر
دونوں اطراف کاسنی پھولوں کی رنگت
خوشبؤں کی معصومیت
کچی ڈگر کے معدوم آخری سرے تک کا لایعنی احساس
پختہ سڑک تک کھینچتا لے آیا
دھوپ کی تمازت سے سنگ مرمر
سا بدن پگھلنے لگا
آرزؤں کی تتلیاں اُڑان بھرنے لگیں
وصل کےبھونرے ہوش کھو بیٹھے
میں خود سے بچھڑتا گیا
فنا کی وادیوں سے گزرتا ہوا نکلا
آدمیت کے دشت میں خاک اُڑاتے ہوئے
ہجر کے موسم کی زردیاں سمیٹے
فرشتوں کے جزیرے پہ آکے ٹھہر گیا
ایک رومی چھایا سے مدھ بھرے گیت کے حروفِ ناز کی شبنمی بوندیں ٹپکی
خرقہ ء تبریزی سے دستِ گماں نکلا
اور میری بیعت لے لی گئی
حیرتی کے وشال سمندر کے کنارے
لفظوں کے بے حس فلک بوس پہاڑ کے
عقب میں
جذبات کے گھنے جنگل کے بیچ
معطر چشمے سے تازہ نہائی پریوں کا کہکشاں آکے مجھے اُٹھا لے گیا
کچی ڈگر کے کنارے چھوڑ آیا
میرا اگلا سفر ۔۔۔
پچھلی کہانی کا سِرا پکڑ کے
گمشدہ پڑاؤ کی تلاش میں ہے
تم اپنے پرانے گھنے جنگل سے ابر کی
چادر اٹھا
بالوں پہ اُتری چاندی نگاہوں کو دھندلارہی ہے!
علی شیدا ؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد،موبائل نمبر؛9419045087
چراغ
قطرہ قطرہ
جو اُتر گیا مجھ میں
گیان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے ساتھ ہی اگیان کے بگولے بھی
چھوڑ دیئے گئے فضا میںآوارہ
مجبوری تھی
میں نے سانس لی
سارا سینہ دھویں سے بھر گیا
شریانوں میں دوڑنے لگا
اِک سیاہ مار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے چاروں سمت قدم بڑھائے
دھوپ کو نگلنے کی بھرپورسعی کی۔۔۔
کہ سارا کمرہ تاریکی میں ڈوب جائے
کچھ نظر نہ آئے
اندھیرا گھنا ہو جائے اور بس۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ جو
پہلے سے موجود ہے وہاں
جس کا چراغ سَدا روشن رہے گا
اُسے موت نہیں
وہ زندہ ہے
یہاں بھی اور وہاں بھی
مشتاق مہدی
ملہ باغ،سرینگر،موبائل نمبر9419072053
ہوتا نہیں ہے ہضم
اے عرش والے فرش کا یہ حال دیکھ لے
ہم بندے ترے، غم سے ہیں نڈھال دیکھ لے
ہیں اپنی خطائوں پہ شرمسار ہم سبھی
اے رحم والے رَبِ ذوالجلال دیکھ لے
آرام سے حرّام اُترتا ہے گلے سے
ہوتا نہیں ہے ہضم اب حلال دیکھ لے
شرم و حیا کو کس طرح رکھے ہیں یرغمال
قدموں تلے یہ وقت کے دَجّال دیکھ لے
ہوکے سوار رسموں کے گھوڑے پہ ہم چلے
روکے ہمیں یہ کس کی ہے مجال دیکھ لے
اُلجھا نہ ہوتا اِس قدر ہمارا مسئلہ
خود غرض ہیں سب بیچ کے دلال دیکھ لے
اے مجید وانی
احمد نگر، سرینگر موبائل نمبر؛9697334305
بدلنا پڑے گا۔۔۔۔
نویدِ ظفر کے ہو طالب اگر تُم
حقیقت میں خود کو بدلنا پڑے گا
مراتب مناصب، پہ شیخی ہے کیسی
سُنو! اہلِ تُربت میں بسنا پڑے گا
گُماں ہے تُمہیں گر کہ جنت ملے گی
قَبل اس کے پُل سے گُزرنا پڑے گا
مُسخر یہ ا رض و سما تُم پہ ہوگا
نبیؐ کی شرائط پہ چلنا پڑے گا
عُفونت عداوت کی خود دو‘ر ہوگی
گُلوں کی روش یہ پر مہکنا پڑے گا
دفع عُسرتوں کا بھی یہ حال ہوگا
صنم بُزدلی کا ڈُبونا پڑے گا
عزیمت کی راہیں بڑی پُر خطر ہیں
یہاں تو لہو کو بہانا پڑے گا
رسولِ خداؐ سے جو وعدہ کیا ہے
اُسے صدقِ دل سے نبھانا پڑے گا
حصولِ الٰہی کا زینہ ملے گا
مگر دل میں احمدؐ بسانا پڑے گا
طُفیلؔ شفیع
گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر،6006081653
گمشدہ پڑاؤ ۔۔۔
دہلیز سے اترنے کی دیر تھی
پگڈنڈی نے دامن پکڑ لیا
عشق کی کچی ڈگر تک لے آئی
خوبصورت کچی ڈگر
دونوں اطراف کاسنی پھولوں کی رنگت
خوشبؤں کی معصومیت
کچی ڈگر کے معدوم آخری سرے تک کا لایعنی احساس
پختہ سڑک تک کھینچتا لے آیا
دھوپ کی تمازت سے سنگ مرمر
سا بدن پگھلنے لگا
آرزؤں کی تتلیاں اُڑان بھرنے لگیں
وصل کےبھونرے ہوش کھو بیٹھے
میں خود سے بچھڑتا گیا
فنا کی وادیوں سے گزرتا ہوا نکلا
آدمیت کے دشت میں خاک اُڑاتے ہوئے
ہجر کے موسم کی زردیاں سمیٹے
فرشتوں کے جزیرے پہ آکے ٹھہر گیا
ایک رومی چھایا سے مدھ بھرے گیت کے حروفِ ناز کی شبنمی بوندیں ٹپکی
خرقہ ء تبریزی سے دستِ گماں نکلا
اور میری بیعت لے لی گئی
حیرتی کے وشال سمندر کے کنارے
لفظوں کے بے حس فلک بوس پہاڑ کے
عقب میں
جذبات کے گھنے جنگل کے بیچ
معطر چشمے سے تازہ نہائی پریوں کا کہکشاں آکے مجھے اُٹھا لے گیا
کچی ڈگر کے کنارے چھوڑ آیا
میرا اگلا سفر ۔۔۔
پچھلی کہانی کا سِرا پکڑ کے
گمشدہ پڑاؤ کی تلاش میں ہے
تم اپنے پرانے گھنے جنگل سے ابر کی
چادر اٹھا
بالوں پہ اُتری چاندی نگاہوں کو دھندلارہی ہے!
علی شیدا ؔ
نجدون نیپورہ اسلام ا?باد،موبائل نمبر؛9419045087