سُخن کا پمپوش نہیں مَیں
بیٹھا کبھی جہان میں خاموش نہیں مَیں
دیتا ہوں خود کو اس لئے ہی دوش نہیں مَیں
کرنے کو یوں تو کر گیا کارِ حیات سب
قلب حزیں کو دے سکا سنتوش نہیں مَیں
پیتا ہوں روز عرق میں دیوانِ داغؔ کا
لیکن ہنوز تشنہ ہوں، مدہوش نہیں مَیں
رہتا ہوں غرق رات دن اپنے خیال میں
میخوار گو ہوں رندِ بلا نوش نہیں مَیں
ہنگامہ ہائے زیست کے آتش کدے میں دوست
شعلوں سے ہم کنار ہوں روپوش نہیں مَیں
یاں صحبتِ آزادؔ و عابدؔ ہوئی نصیب
صد حیف مگر ان کا ابھی ہم دوش نہیں مَیں
پھِر بھی کئے دیوان در دیوان مرتّب
عُشاقؔ سُخن کا بھلے پمپوش نہیں مَیں
عشاق کشتواڑی
کشتواڑ، حال (جموں)موبائل نمبر؛9697524469
اجنبی رات
رات پگھلتی رہی تيری آغوش ميں،
سرد آہوں ميں تُم ميرا
نام ليتی رہی،
چاند چمکتا رہا،
بادل ہٹ گئے اور ٹھنڈ بڑھتی رہی-
آگ جو رات بھر جلی تھی،
صُباح ہوتے ہی تيری زُلفوں کے جھونکے نے بُجھا دی،
ميرے ہاتھ تُمہيں بستر ميں تلاشتے رہے،
چلّايا بھی بہت دير مگر ميری آواز بس ميں ہی سُنتا رہا-
دھيان ديا تو لگا شايد وہ صُباح کا اُڑتا بادل
جو ديودار کے پيچھے چھُپ گيا
کہہ رہا تھا کہ وہ بھُوری آنکھوں والا مُسافر تُم تھی۔
اجنبی کی طرح آنا اور اجنبی کر کے چلے جانا-
اس رات پہ تُمہاری چھانپ ہے-
صُباح ميں پر کُچھ سُراغ ملے،
سوچ ميں ڈوبے،
راکھ ٹٹولتی ميری اُنگليوں نے ايک پائل کھوج نکالی،
اُسے دفنا کے آج گھر لوٹا ہوں-
عارف حیات نیرنگ
پی ایچ ڈی اُمیدوار
شعبہ انتھراپولوجی، یونیورسٹی آف مینی سوٹا، امریکہ