’’لکھے گا وقت کا مورخ ‘‘
تیری قدرت تو ہے پنہاں، فلک کے چاند تاروں میں
عیاں عظمت تو ہے تیری زمیں کے سب نظاروں میں
ہیں طالب تیری رحمت کے، تیرے دربار میں آکر
کھڑے ہیںسامنے تیرے، ترے بندے قطاروں میں
یہ بِن چَرواہے کا ریوڑ، چَلا یُوں جارہا جیسے
نکل کر وہ چمن سے، آگیا ہو ریگزاروں میں
دَبے نیچے چٹانوں کے ہیں نالے بیگناہوں کے
چُھپی چھینٹیں لہو کی ہیں یہاں کے آبشاروں میں
جو برسوں سے ہوئے ہیں لاپتہ اپنے گھروں سے وہ
نہیں معلوم زندہ ہیں کہ سوئے ہیں مزاروں میں
صفوں میں اپنی ہیں موجود ابھی کچھ کالی بھیڑیں جو
سدھائیں اپنے الّو کو اِشاروں ہی اِشاروں میں
اگر اَب بھی قیادت میں ہماری یُوں رہی دوری
لکھے گا وقت کا مورخ، انہیں بھی اشتہاروں میں
اے مجید وانی
احمد نگر ،سرینگر،موبائل نمبر؛9697334305
مبارک ہو
مبارک ہو یہ جنگوں اور دنگوں کی عجب دْنیا
اے بچے!
مبارک ہو یہ روز و شب کے فتنے
یہ ذلت ، آبرو ریزی، یہ رشوت کی عدالت
یہ گولی ، مار دھاڑ اور دھمکی
یہ لالچ ،ہوس ،حسد اور چاپلوسی
مبارک ہو یہ سودی کاروبار کہ جس کی بدولت
غریبوں کی رگوں کا خون چوسا جا رہا ہے
مبارک ہو یہ سائنس کی سحر انگیز ایجادیں
کہ جن کی مار سے
شاہین بچوں کی ذہانت چھینی جاتی ہے
مبارک ہو یہ توپوں کی گرج
یہ سنگین و سلاسل کی سزائیں
مبارک ہو یہ عجب دنیا
جہاں انسان انسانوں کو اب جینے نہیں دیتا
جہاں مذہب کے ٹھیکے دار اب انسانیت کا
سرِ بازار قتلِ عام کرتے ہیں
جہاں عورت کی عریانی کو ہر اک شے پہ چپکا کر
بازاروں میں بیچا جا رہا ہے
جہاں بیٹی کے حصے کی زمینیں بیٹوں میں تقسیم ہوتی ہیں
جہاں کرسی کے چکر میں جواں سر روز کٹتے ہیں
جہاں مسکین کو روٹی کے بدلے اب
فقط وعدے کھلائے جا رہے ہیں
جہاں ماؤں کی گودیں روز لٹتی ہیں
جہاں غربت کے ماروں کا ہے لمحہ بھر گزر مشکل
جہاں چوروں کو دھرنے ولے ہی چوری میں الجھے ہیں
جہاں سرکار کے کھاتوں سے نجی جیبیں ہیں آسودہ
جہاں دوا سے زیادہ دارو کی فراوانی ہے
جہاں ماں باپ کو اب بوجھ سمجھا جارہا ہے
جہاں بیٹی کے سْونے ہاتھ
مہندی کی سجاوٹ کو ترستے ہیں
جہاں دولھے نشے میں چور
گندی نالیوں میں ہی پڑے رہتے ہیں
مبارک ہو یہ جنگوں اور دنگوں کی عجیب دنیا
اے بچے! مبارک ہو
آفاق ؔدلنوی
دلنہ بارہمولہ کشمیر،موبائل نمبر؛7006087267
مستقبل
یہ اپنے گھر کی
ویرانی بھی کیسی ہے؟
در و دیوار کا
سبزہ
یہ ہریالی بھی آنگن کی
اچانک کیا ہوئی پاپا!
مویشی کون تھے؟
جن کا یہ لقمہ بن گئے پاپا!
کبوتر
جو کبھی پیپل سے آکر
بیٹھ جاتے تھے
فصیل شہر کے اوپر
غٹرغوں کرتے رہتے تھے
کہ اپنی شام تنہائی مین
کوئی رنگ بھرتے تھے
کہاں غائب ہوئے ہین؟
کوئی ظالم شکاری کیا
درون شہر آکر
کام اپنا کرگیا پاپا!
یہ اپنے کھیت کی
پھولی ہوئی سرسوں
گیہوں کی بالیوں کوبھی
جلایا جس نے وہ نمرود
آخر کون تھا پاپا!
وہ بستے جو رہا کرتے تھے
اک ٹوٹی ہوئی محراب مین اپنی
کہ جن مین بند تھے
گھر کے سبھی بچوں کے مستقبل
اٹھاکر لے گیا جن کو
وہ فرزانہ بھی آخر کون تھا پاپا!
ارے او سورجوں والو ا
ہماری چھاوں لے لو تم
ہمارا سائباں لے لو
مگر اتنا کہ مستقبل ہمارا
ہم کو لوٹا دو !!
احمد کلیم فیض پوری
شفق پیلس، گرین پارک،بہوسوال،موبائل نمبر8208111109