تم جتنے میسر ہو جاناں
میں اُسی میں راضی ہوں!
کبھی خاموش راتوں میں
سہانی برساتوں میں
تیری دیوانگی پہ ماں !
میں ہنس پڑتی ہوں
میرا اندازِ تغافل
اور مستانگی تیری
میری یہ بے وفائیاں
اور دیوانگی تیری
میری اِک اِک نگاہ کا طلب گاررہنا تیرا
بات بات پہ میری قسمیں کھا لینا تیرا
تیرے ساتھ ہو رہی اِن نا انصافیوں کو
تیرے حضور میں ہو رہی اِ ن گستاخیوں کو
میں جب جب یاد کرتی ہوں
تو شرمندہ بھی ہوتی ہوں
تب تم میرے بالوںکو سہلا کے کہتی ہو
ہاتھوں کی چوڑیوں کو کھنکا کے کہتی ہو
ذرا سا سر ہلا کے ذرا سامسکرا کے کہتی ہو
کسی طفل کی مانند جھلملا کے کہتی ہو
تم جتنے میسر ہو جاناں
میں اُسی میں راضی ہوں!
عذرا ـؔحکاک
گوجوارہ ،سرینگر، کشمیر
[email protected]
قلم
قلم سے ہی زندہ ہے ہر اک کہانی
قلم سے ہی روشن ہے یہ زندگانی
قلم ہے محافظ، قلم پاسباں ہے
قلم بے زباں کی کرے ترجمانی
قلم علم دیتا ہے نورِ حقیقت
قلم کی قسم، ہے یہ رب کی نشانی
قلم ظلم کے سامنے بھی کھڑا ہے
قلم لکھ رہا ہے ستم کی کہانی
قلم سے ہی بنتی ہے تہذیبِ دنیا
قلم سے ہے قائم محبت کے معنی
قلم ہے چراغِ دل و جانِ عالم
قلم ہے صداقت کی پہلی نشانی
تمہیں حق بتائوں تو اے جانِ جاناں
یہ تحریر ہے شوقؔ کی داستانی
شوق ارشدؔ
<[email protected]>
یہ حیاتِ
بعدِ مرگ تو نہیں؟
بعدِ مرگ تو نہیں؟
سانسوں کا ہے شور اُفق پہ
اور سب روگ آدمی کے ہیں
دن رات کا وہ ماجرہ بھی ہے
خواہش، آرزو، حوس ہے اب تلک
اور منزلوں کی جستجو بھی ہے
کس دل کا سنائیں ہم ماجرہ
اور بتائیں کس روح کی خبر
ایک خاموش سناٹا ہے ہر عمل
گویا موت کے بعد کا ہو کوئی گھر
یہ حیاتِ بعدِ مرگ تو نہیں ؟
شہزادہ فیصل
[email protected]
ماں
وہ جسے دیکھ کر حج کا ثواب ملتا ہے
کیوں نہ زندگی بھر اُسے دیکھتی رہوں
مجھے دیکھنے سے جسکے آنسوں نکل آتے ہیں
میری کامیابی پر خوشی میں ڈوب جاتی ہے
میرے دُکھ پر اُسکا دل روتا ہے
میں سوتی ہوں وہ جاگتی رہتی ہے
جسکے گلَے لگ جانے سے
گِلے شکوے دور ہوتے ہیں
اُسکاہاتھ تھام لینے سے
نہ جُدائی ہے نہ بے وفائی ہے
اُس رب کا کیسے نہ شکر کروں
جس نے مجھے دنیا میں ہی جنت دیدی ہے
جو اس نعمت سے محروم رہا ہے
اُس سے اسکی قدر پوچھو دوستو
آئو آخر پر یہ راز بتا ڈالوں
اسم ِ اعظم اور مرشد کا سراغ دے ڈالوں
یوضاؔاس کِردگار کا شکر بجا لاؤ
جس نے ماں کی دولت سے نوازا ہے
یوضا ؔ وسیم بٹ
کشتواڑ، جموں
نظم
مدت ہوئی ہمیں آپ کے انتظار میں
کب آوگے مہدی رہی ہے آرزو ہر دور میں؟
تڑ پتی ہیں آنکھیں آپ کے ظہور کی خاطر
نجات دکھائی دیتی ہے آپ کے نورانی چہرے میں۔
آنسوؤں ٹپکتے ہیں دعائیں کرتے کرتے
زبانیں بھی تھک چکی ہیں آپ کی پکار میں۔
ظلم وستم بڑھ رہا ہے اس دنیا میں
گونجتی ہے صدا صرف آپ کی ہی اس جہاں میں۔
معصوموں کا لہو بہہ چکا ہے گلی گلی
کب آئے گا اصلی حاکم اس ویرانے میں؟
دشوار ہوچکی ہے زندگی یہاں آپ کے بغیر
بھروسہ ہے ہر فرد کو آپ کے عدل و انصاف میں۔
اک آس کے ہی سہارے میں زندہ ہوں
تیری دید کی خاطر ہوں اس پرآشوب دنیا میں۔
بلال احمد صوفی
خوشی پورہ، ایچ ایم ٹی، سرینگر ،کشمیر
موبائل نمبر؛6006012310