اضطراب
کیا کیفیت تھی اُس طرف
اب یہاں یہ کیا خُمار ہے
پرستِشِ حق وہاں تھے دم بدم
باطل کی چاشنی میں یاں اٹھتے ہیں قدم
جس دم ہوے اس جا آکھڑے
سارے حالات ہی کیوں بگڑگئے
’نا‘ تھے ’کُن‘ سے مقابل ہوئے
’فیکون‘ ہیں! جانے کیوں بھول گئے
کشمکش ہی بڑی یہ عجیب ہے
کیوں بھول گئے کہ وہ رفیق ہے
رائیگاں زندگی ایسے ہی چلی
افسوس! کیوں نہ کی بندگی
خاموؔش اب نہ کر واویلا
رخِ موڈ ہے اب بھی رکھ حوصلہ
مدثر خاموش ؔ
موبائل نمبر؛9858451982
ڈرگس
ستاروں پر کمند ڈالنے والے
بن گئے نشے کے جینے والے
اک آندھی سی چلی ہے ایسی
ہر طرف ہیں نشہ کرنے والے
بامِ عروج پر ہے بازارِ منشیات
سر گرم ہے نشے کی تجارت پھیلانے والے
معصوم دلِوں کے ساتھ کھیلنے والو
نا جانے کتنے گھر ہو تم جلانے والے
عظم بلندی کا رکھتے تھے ہمارے نوجوان
زندہ لاش ہے اب عظم ِبلند رکھنے والے
ٹوٹ کے رہ گئے ہیں آج کے نوجوان
مد ہوش پڑ ے ہیں رات دن سونے والے
بچے کیا،جوان کیا، اب تو بچیاں بھی
منشیات کی لت میں رات دن تڑپنے والے
ارمان والدین کے چکنا چور ہوے ٔ ہیں
ہمت ہارے بیٹھے ہیں خواب سجانے والے
کتنے ہی آشیانے جل کے راکھ ہوگئے
ماں باپ ہیں جیسے کفن اُوڑھانے والے
اب جاگ جاؤو عزیزو میرے جوانوں
یہ ڈرگس ہیں تمہارا خون چوسنے والے
اکیلے پڑا ہے تو، بد حواس ہے تو چمن میں
گھر لوٹ آ ، بد حال ہیں تیرے گھرانے والے
یاربّ آزاد کر دیں اس خاموش وباءسے
تنہاؔ تو ہی ہے ، مصیبت سے نکالنے والے
عبدالرشید تنہاؔ
روزلین چھانہ پورہ، سرینگر، کشمیر
موبائل نمبر؛7006194749