تنہائی کا گیت
صدیوں کا آزار پہن کر
کتنے سائے گھوم رہے ہیں
وحشت کے گلیاروں میں
کتنی تند و تیز ہوائیں
دستک دیں دروازوں پر
کتنی چیخیں دفن ہیں ہونی
راتوں کی تنہائی میں
امیدوں کی دھوپ کے ٹکڑے
کب تک روندھے جائیں گے
وصل کی دوشیزائیں کب تک
ہجر کا ماتم لے کر روئیں
خوابوں کی آنکھیں کب دھوئیں
کرب کا موسم کب ڈھل جائے
درد کی اس بستی میں آخر
کوئی مسیحا کب آئے گا
تنہائی کا گیت سنائے
زخموں کو سہلائے گا
یادوں کے پنگھٹ پہ ڈھلتے
آنسو کون سنبھالے گا۔۔۔۔!
علی شیداؔؔ
نجدون نیپورہ اسلام آباد،کشمیر
موبائل نمبر؛9419045087
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
روح میں لہو میں دل میں جگر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد ؐ۔۔۔۔۔
تصور میں خوابوں میں میری نظر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
خزاؤں کو اپنے میں گلزار کر لو ں
مکمل میں چھوٹا سا سنسار کر لوں
سفینے کو اپنے میں یوں پار کر لوں
تمنا ہے میں ان کا دیدار کر لوں
صبح شام و اللہ ہے میری فکر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
عشقِ نبی میں ہوا ہوں دوانہ
نہیں یاد مجھ کو بدلتا زمانہ
مدینہ ہو یا رب میرا بس ٹھکانہ
جبیں پہ غلامی کا مہکے نشانہ
میری ہر تمنا دعا کے اثر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
پنجتن کی بغیا کے سردار۔۔ احمد
دین خدا کے بھی سالار ۔۔۔احمد
شرافت کا دھرتی پہ کردار۔۔ احمدر
رحمت سراپا ہیں سرکار۔۔۔ احمد
میری آس ہے جو اجل کے سفر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
ہمیں ایک سیدھا سا رستہ دکھایا
شرافت سے انسان کو جینا سکھایا
خدا ایک ہے بس ہمیں یہ بتایا
لگی جن کو ٹھوکر انہیں پھر اٹھایا
رہیں ہر گھڑی میری شام و سحر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
تصور میں خوابوں میں میری نظر میں
محمدؐ محمد محمد ؐمحمد
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
فلک ریاض
حسینی کالونی چھترگام کشمیر
موبائل نمبر؛6005513109
آتی ہے مُشکِ ناف
مصروفِ عمل ہیں باغباں باغانِ سیب میں
سمٹی حیات اِن کی ہے اب کانِ سیب میں
رکھتے ہیں اکثر سال بھر پیڑوں کا رکھ رکھائو
کٹتے ہیں اِن کے شب و روز کھلیانِ سیب میں
اِن کے لئے یہ فصل کیا ہوتی ہے بے بہا
ملتے ہیں انہیں لعل و مرجان سیب میں
کہتے ہیں غیر دیکھ کر آنکھیں اَٹک گئیں
اوسان خطا ہوگئے ہیں دھیانِ سیب میں
شاخِ ثمر پہ ہوتا ہے ان کا نمود یوں
انمول جیسے لٹکے ہوں مرجانِ سیب میں
چہار جانب پھر سجی ہے یہ زمینِ زرفشاں
زر کے آنے کا ہے امکان اب دُکانِ سیب میں
ایک بار ہوتی ہے اسکی سال بھر میں فصلِ ناب
سال بھر رہتا ہے دہقان مصروف تانِ سیب میں
حیران ہیں یہ دیکھ کر ساون کی گھٹائیں
رنگِ حنا سا آتا ہے جب شانِ سیب میں
ہوتا ہے یہ ذائقہ میں اپنی مثال آپ
پوشیدہ اسکی سیرت ہے پہچان سیب میں
ضامن ہیں اِس وصف کے سومنؔ، سمنؔ، گلابؔ
آتی ہے مُشک ناف سی باغانِ سیب میں
دوشیزگی میں ہوتے ہیں جب اسکے شگوفے
ہوتی ہے پھر دل پذیر مُسکان سیب میں
ہو مبارک آپ کو آذرؔ زمین دُرفِشاں
ہشت وبود ازلناً تمہارا کیا کانِ سیب ہیں
صحنِ عُشاقؔ میں نہیں ہے گوکہ پودا سیب کا
پڑھ رہا ہوں میں قصیدے پھر بھی شانِ سیب کے
جگدیش راج عُشاق ؔکشتواڑی
کشتواڑ، جموں
موبائل نمبر؛9697524469
بھابی کے نام
روٹھ گیا باغ کا مالی
بکھر گئی ۔۔۔ڈالی ڈالی
گلستان اُجڑ گیا
یادوں کا موسم بچھڑ گیا
اجل ناگ ایسا پُھنکا
بکھر گیا تنکا تنکا
گُلاب کھلنا بھول گئے
سُنبل غم سے پھول گئے
چمن ماتم کدہ بن گیا
جس نے سُنا سن گیا
ہوش و حواس ہم کھو بیٹھے
اتنا ہم ۔۔۔رو بیٹھے
ہر رشتے سے بے نیاز
موند ڈالی آنکھیں نم باز
میرے محبوب کا بسیرا
اُس وادی میں اس کا ڈیرا
جہاں صدا تک نہیں جاتی
آہ و بکا تک نہیں جاتی
یادوں کی تڑپ دے کر
شہر خموشاں میں سو کر
غمِ مفارقت دے گئے وہ
کیا عجب خلوت دے گئے وہ
ہر بات کی شروعات اُس سے تھی
میرا وجود میری ذات اُس سے تھی
عجب سا رشتہ اُس سے تھا میرا
میری سانسوں میں تھا اُس کا بسیرا
میری ماں نہیں میری ساس تھی وہ
مگر ہر رشتے سے خاص تھی وہ
محفلؔ مظفر
پلہالن پٹن بارہمولہ ،کشمیر
[email protected]
انتظار
باربار وہ ہمیں ٹھکراتی ہے
باربار ہمیں وہ یاد آتی ہے
ہر لمحہ مُدتوں جیٔسا گذررہا ہے
انتظا ر کی بیقراری ستاتی ہے
چشمِ تر لیئے راہ اُسکی تک رہے ہیں
آنکھ بادلوں میں اُسکو ڈھونڈتی ہے
نیند بھی اب تو کوسوں دوُر ہے
کچھ نہیں بس عشق کی کہانی ہے
تنہاؔ یوں بھی کو ئی راہ نہیں سکتا
داؤ پر لگی اپنی جوانی ہے
قاضی عبدالرشید تنہاؔ
روز لین چھانہ پورہ سرینگر
موبائل نمبر؛7006194749