سُن اے بنتِ حوا
سُن اے بنتِ حوا
تو ہے کتنی ناداں
کہ ریت پر بناتی
ہے آشیاں
یہ ابنِ آدم بُنتا ہے
جال لفظوں کا
اور تو لے آتی ہے ایماں
تو ہے کتنی ناداں
سُن اے بنتِ حوا
تو جسے سمجھتی ہے فرشتہ
ہوسکتا ہے وہ ہو کوئی درندہ
قدم قدم پر درندگی یہاں
قدم قدم پر یہاں بہروپیے
ملتے ہیں
جو نئی نئی چال یہاں
چلتے ہیں
سُن اے بنتِ حوا
نہ لفظوں کے سحر میں مبتلا ہونا
نہ اپنوں کا کبھی تم بھروسہ کھونا
سُن اے بنتِ حوا
کچھ لوگ تجھے
جنت کی حور کہیں گے
کچھ تو تجھے دل کا
سرور کہیں گے
کچھ تو تیری چشم کو
چشمِ غزال کہیں گے
اور کچھ لوگ تجھے
کسی شاعر کا
حسیں خیال کہیں گے
کچھ لوگ تیرے لب و رخسار کی
تعریف کریں گے
کچھ لفظوں کے سحر سے
نئی چال چلیں گے
سُن اے بنتِ حوا
لفظوں کے سحر میں
نہ آنا
نہ لفظوں کی ہوکے قائل
مٹ جانا
سنو یہ ساری باتیں
جھوٹی ہیں
یہ سارے وعدے
جھوٹے ہیں
یہ ساری قسمیں
جھوٹی ہیں
سُن اے بنتِ حوا
جب تم ابنِ آدم کی
باتوں پر اعتبار کرے گی
اِسے دل کے تخت پر بٹھا کر
بہت پیار کرے گی
تب یہی ابنِ آدم
تیرے دل کی بستی کو
لہولہان کرے گا
تاریک تیرا سارا
جہان کرے گا
تیری سچی محبت کے جذبے کو
نہ جانے کیا نام دے گا
تجھے سارے جہاں میں
پھر بدنام کرے گا
تجھ سے اپنی توجہ کی
اِک نظر کی
بھیک منگوائے گا
تیرا دامن جلائے گا
سُن اے بنتِ حوا
جب ابنِ آدم کا
دل بھر جائے گا
پھر تیری چاہت بُھلا کر
دل سے تیرا تصور مٹاکر
پھر نئے شکار کی
تلاش کرے گا
پھر کسی معصوم کو
زندہ لاش کرے گا
سُن اے بنتِ حوا
چاہتوں کے
محبتوں کے
فریب میں نہ آنا
نہ اپنا مقام بھول جانا
نہ گرنا اپنی نظروں میں
نہ خود کو اپنوں کی
نظروں میں گرانا
سنو نہ کبھی محبت کی
بھیک مانگنا
نہ توجہ کی کبھی تم
بھیک مانگنا
سُن اے بنتِ حوا
جو دل کے سچے ہوتے ہیں
جو سچ میں اچھے ہوتے ہیں
وہ محبت کو رب سمجھتے ہیں
تجھے کھلونا کب سمجھتے ہیں
وہ محبت کو روح کی
پاکیزگی سمجھتے ہیں
حوا کی بیٹی کو
شہزادی سمجھتے ہیں
مگر اے بنتِ حوا
ایسے لوگ اب کہاں ہیں ؟
سن اے بنتِ حوا
لفظوں کی قائل نہ ہونا
روح تک پھر گھائل نہ ہونا
سُن اپنوں کا نہ تم مان کھونا
نہ پچھتاؤں کا تم بوجھ ڈھونا
سنو اپنوں کےلئے فخر بن کر
رہنا سدا
اپنوں سے کرنا ہمیشہ وفا
شمیمہ صدیق شمیؔ
چک سید پورہ شوپیان
نظم
لا کے یاں رات کو خورشید ہے چمکایا کدھر
دُکھ فلک کو ہے ہوا،افسردہ ہوئی میری سحر
میری ہستی کا تھا جو ذوق نمود، ناپید ہوا
روح یہ کہتی ہے کہ دل تیرا بھی اب قید ہوا
ہر طرف چل کہ تیرا ملتا تھا سراغ مجھے
بلبلیں ملتیں نہیں، ملتے ہیں اب زاغ مجھے
سو فسانے ہیں دلوں میں تیری آمد کے مگر
کس کو معلوم کہ کس دل کو تیری پوری خبر
ہم ستاروں سے کبھی اُلجھ کے رہتے بھی تھے
پھول کی خوشبو کے لیے خار کو سہتے بھی تھے
لے اُڑاکون خدا جانے میری آنکھ کی لَو
اور سانسوں سے میری درد، تیری یاد کی ہو
بجران ادریسؔ
وانگت، کنگن کشمیر
موبائل نمبر؛6006432116