وقت خاموش مسافر ہے
وقت خاموش مسافر ہے
بولتا نہیں ہے سنتا بھی نہیں
کوئی آہٹ نہیں اسکے قدموں میں
کوئی سرگوشی نہیں اترتی اس کے کانوں سے
وقت کے چہرے پہ کائنات کی جنتری ہے
ابجد کے تہہ خانے ہیں
تقویم کی گونگی ٹک ٹک ہے
ہم نے جو ہچکیوں کی خامشی لٹکائی ہے
بینائی کی دیوار کی سولی پہ
یہ ہماری شکست و ریخت ہے
گمشدہ فریب کی باز یافتہ چیخ ہے
کسی آنکھ سے گرے آنسو کی صدا ہے
یا کسی ہنسی پہ مزاق کے تھپڑ کی گونج
کہاں سے آئے کہاں چلا جائے
وقت کو خود بھی نہیں معلوم
احساس کے پُل سے گزرتا ہوا
ان دیکھا، ان سُنا
ہوا کا جھونکا
وقت خاموش مسافر ہے ۔۔۔۔!
علی شیداؔ
نجدون نیپورہ اننت ناگ، کشمیر
موبائل نمبر؛7889677765
بچپن
سہانے دن لڑکپن کے کہاں اب لوٹ آینگے
گزارے دن جو بچپن کے کہاں اب لوٹ آینگے
وہ کاغذ کے کھلونے اور ماچس کےمحل پیارے
کہ وہ بٹوارے برتن کے کہاں اب لوٹ آینگے
وہ جب گوندھا تھا مٹی کو وہ جب کنچے بھی کھیلے تھے
وہ لمحے پیارے اَن بَن کے کہاں اب لوٹ آینگے
سسکتے اور گرتے تھے مگر پھر گر کے اٹھتے تھے
وہ نغمے دل کی دھڑکن کے کہاں اب لوٹ آینگے
بنا کارن ہی آپس میں جھگڑ کر پھر سے اک ہونا
عجب رشتے وہ بندھن کے کہاں اب لوٹ آینگے
نہیں ممکن ہے ننگے پاؤں چلنا پتھروں پر اب
بِتائے دن جو گن گن کے کہاں اب لوٹ آینگے
کہاں ملتی ہے شیتل سی وہ ماں کی چھاؤں دوبارہ
گنوائے موقعے درشن کے کہاں اب لوٹ آینگے
سفر انجان میں ناحق ہے خود کو بھول کر پرواز
وہ دن بے خوف بچپن کےکہاں اب لوٹ آینگے
جگدیش ٹھاکر پروازؔ
لوپارہ دچھن،کشتواڑ
موبائل نمبر؛9596644568
عُشاقؔ آج ہے کشمیرمیں
کِشت دل آذرؔ ہے میری حالتِ دلگیر میں
مختصر رُوداد جسکی ضبط ہے تحریر میں
پھر رہا ہوں جابجا اِک خواہش بیجا لئے
وائے کب جائوں میں عُشاقؔ وادیٔ کشمیر میں
پھر خیال و خواب کو منظر کوئی اُکساگیا
رنگ دیکھے دیدنی جب خُوب رُو تصویرمیں
گوشہ گوشہ دیکھ کر یکسر گماں ہونے لگا
آپ خود قدرت مکیں ہیں جائے حبہؔ و میرؔ میں
جانچ کر دیکھا جو میں نے فردِ واحد کا مزاج
کیا حلاوت شیریں مزاجی پائی پھر اکثیر میں
سرسبز دیودارؔ، کائلؔ اور پھر برگِ چنارؔ
دے رہے تھے مجھ کو دعوت آئو میاں کشمیر میں
چشمِ بر راہ نورشاہؔ قبلہ ہیں بیٹھے دیر سے
اور ہیں بے چین محسن مہرباں اکثیر میں
حسرتا اعضائے جاں اپنے ہیں کچھ حرماں نصیب
اور ہیں پایۂ طلب جکڑے ہوئے زنجیر میں
کمر باندھے پھر بھی بیٹھی ہے عُروسِ خواہشات
دیکھتا رہتا ہوں اسکی صورتِ گھمبیر میں
کوستا ہے پل بہ پل تجھ کو مرا پندارِ عزم
لاکھ بہتر ہے کہ سوچوں اب کوئی تدبیر میں
پاہی لُونگا آخرش میں ایک دن اپنا مقام
اور پہنچوں جائے حبہؔ اور جائے میر ؔ میں
اِک دُعائے خیر کی طالب ہے عُشاقؔ آرزو
کیوں نہ تُرکش سے نکالوں کاوشوں کے تیر میں
اور پھر آذرؔ کہے گا بابلند صد شکریہ
شاعرِ بیباک عُشاقؔ آج ہے کشمیر میں
عُشاقؔ کشتواڑی
حال جموں
موبائل نمبر؛9697524469