کون راہ دے گا اب
رستہ کوئی دیتا نہیں،ہمت ہے تو چلو
ہر سمت میں اک بھیڑ ہے، قوت ہے تو چلو
ہیں ناتواں سب لوگ یاں اور کچھ بھی نہیںہے
اے جانِ جاں گر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو چلو
ہے جان بچانا ہی مقدم اس گُھٹن میں
گر سانس کچھ لینا ہی غنیمت ہے تو چلو
جو کھو گیا ہے راہ میں تو اس پرصبر کر
اللہ کی گر اس میں ہی رحمت ہے تو چلو
سوئے ہوئے ہیں دن میں تو گھبرائیں بھلا کیوں
خوابوں میں غرق رہنا جو فطرت ہے تو چلو
رستوں کا پتہ مانگ تُو راہیں تو ملینگی
منزل سے دوری گر نہیں زحمت ہے چلو
سید مصطفی احمد
حاجی باغ، زینہ کوٹ
ذکرو فکر
پلائے مجھے گر مئی سوز و ساز
کْھلے گا جہانِ نہفتہ کا راز
مکافات میں ہے یہ زنّار پوش
فلک سے پکارے نوائے سروش
ترے دم سے مٹتے ہیں نقشِ کْہن
ہرے تجھ سے ہوتے ہیں اْجڑے چمن
تری رحمتوں کا شمارہ نہیں
سمندر توْ جس کا کنارا نہیں
ترا ذکر و اذکار عالم میں ہے
کلی کونپلوں کے ترنّم میں ہے
اشارورں پہ تیرے ہیں ندیاں رواں
یہ کمسن، یہ اڈیل، یہ بوڑھے جواں
یہ جنگل، یہ پربت، یہ صحرا، یہ دشت
زمیں پر اْگایا ہے توْ نے بہشت
صفاتِ الٰہی ہے رازِ ازل
تب و تابِ گردش میں سازِ ازل
کریں نیکیاں ہم تو کارِ ثواب
یہی جاں سپر ہے نزولِ عذاب
بنا ہے جبھی رازِ نقشِ کْہن
چھپی رازِ ہستی میں کارِ فتن
تو یاورؔ ہوا صاحبِ حق کلام
زمانے کو دینا ہے حق کا پیام
یاورؔ حبیب ڈار
بڈکوٹ ہندوارہ راجوار