خوابوں کا موسم
خوابوں کا اپنا موسم ہوتا ہے
جب نیند کے جنگل میں کوئل کو کو کرتی ہے
مرے خواب کی آنکھ کھلتی ہے
پرانے گھر کے آنگن میں
یا کھڑکی پہ آکے
جہاں آسمان ایک ہاتھ دور ہے
انگلیوں سے تارے توڑ کے اپنی مٹھی کی خلا بھر لیتا ہوں
یا برسات کی چھن چھن کرتی بوندیں
ہتھیلی پہ لئے
تمہارے ساتھ بھیگے لمحات کی ڈور کھینچ لیتا ہوں
پلکوں پہ موسم کِھلتا ہے
تب جانے کس دھوپ کے ٹکڑے کمرے
میں آکر
مجھ سے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں
باہر سرسراتی ہوا کی دھن پہ
کمرے کی چھت سے ابابیل آشیاں ٹانگ دیتے ہیں
کہ ساون میں جھولاجھولیں
وہی دریا وہی کنارے وہی پگڈنڈی
جس پہ ہمارے ان گنت سائے گزرتے ہوئے
کہیں نہیں پہنچتے ہیں
وہی ابھرتی صبحیں، ڈھلتی شامیں
گہری خاموش راتیں
گنگناتی رس بھری صدائیں
جنہیں سننے کو اب سوکھی سماعتیں ترستی ہیں
کتابوں میں رکھے مور پنکھ ٹٹولتے ٹٹولتے انگلیاں تھک گئی ہیں
زندگی اپنی بے سود تلاش میں
خود کھو گئی ہے
تم بھی ہو میں بھی ہوں
محبت کے پُل پہ ہم دونوں کھڑے ہیں
دریا کی روانی پہ سوار بہتے چلے جاتے ہوئے
وصل کے بہاو کے ساتھ
جانے کس ہجرزار کی اور سفر کرتے ہوئے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
خوابوں کا اپنا موسم ہوتا ہے
علی شیداؔ نجدون نیپورہ اسلام آباد، کشمیرموبائل نمبر؛9419045087
گزرجائیگا
حسبِ معمول ستمبر بھی گُزر جائے گا
بارِ دل چشمِ پریشاں سے اُتر جائے گا
وہ کسی اور کی خاطِر جو سنور جائے گا
دِل یہ اندیشۂ خطرات سے مر جائے گا
آگ بن کر جو خِزاں آئے گی اکتوبر میں
پیرہن جل کے چِناروں کا اُتر جائے گا
میری ہر سانس ہے طوفان رسیدہ کشتی
کون جانے کہ کہاں تک یہ سفر جائے گا
ماہِ دُشوار نومبر تو نکل جائے گا
وقت بے وقت دسمبر میں ٹھہر جائے گا
موت سے پہلے بھرم دل کا بِکھر جائے گا
جو یقیں تک یہ مرا وہمِ نظر جائے گا
میں اگر جاؤں کبھی شہرِ رُسل مِیر خلِشؔ
یہ مرا زخمِ کُہن پھر سے اُبھر جائے گا
خلِشؔ
اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛7889506582