سید مصطفیٰ احمد ، بمنہ سرینگر
نظریاتی سرقہ کہیے یا پھر ادبی چوری، دونوں الفاظ اس وقت استعمال ہوتے ہیں جب ایک انسان دوسرے لوگوں کے نظریات کو بلا حوالہ اپنے مضمون یا کتاب میں شامل کرتاہے یا پھر دوسرے لوگوں کے نظریات کو اپنا بنا کر پیش کرتا ہے۔ وحیدالدین خان صاحب اپنی کتاب اظہار دین میں لکھتے ہیں کہ 2012 میں ٹائم میگزین کے ایڈیٹر فرید ذکریا کو نظریاتی سرقہ کا مرتکب پایا گیا۔ خان صاحب مزید لکھتے ہیں کہ جو مضمون ٹائم میگزین کے ایڈیٹر نے لکھا تھا، اس میں اس نے ایک امریکی خاتون پروفیسر کے مضمون سے ایک مکمل پیراگراف بلا حوالہ شامل کرکے ،اپنے نام سے منسوب کیا تھا۔ اس بنا پر فرید ذکریا کو اس کے صحافتی جاب سے کچھ وقت کے لئے معطل کر دیا گیا تھا۔ اس ادبی چوری سے یہ واضح ہوجاتی ہے کہ ایک مصنف کو اخلاقیات کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔ اس جیسے ہمارے اردگرد ہزاروں واقعات ہیں جو یہ واضح کرتے ہیں کہ plagiarism ہمارے سماج میں کتنا سرایت کر گیا ہے۔ کچھ سال پہلے جب میں نے بھی لکھنا شروع کیا تھا، تو کئی بار میں نے دوسروں کے الفاظ بلا حوالہ اپنے مضامین میں شامل کئے تھے۔ لیکن کچھ مخلص اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اس خیانت سے کوسوں دور رہنے کا وعدہ کیا اور آج خدا کے فضل سے اپنے اساتذہ کے مختلف مضامین پڑھ کر میں بھی لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ میں دوسروں پر انگلی اٹھانے کا اہل نہیں ہوں لیکن پھر بھی ان مصنفین پر ترس آتا ہے جو آئے روز اس خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایک محسن استاد کی بات مجھے یاد آرہی ہے جس نے میرے ایک مضمون کے ردعمل میں کہا تھا کہ مصطفیٰ! پہلے پڑھو،پھر پڑھو اور پھر پڑھو، تب جاکر قلم اٹھاؤاور لکھنا شروع کرو۔ آج چار سال کے بعد ان کی باتیں صحیح ثابت ہورہی ہیں۔ اب ان نام نہاد مصنفین کو کیسے سمجھایا جائے کہ لکھنے کے لیے آہنی چنے چبانے پڑتے ہیں۔ لیکن اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو ایک انسان کو ادبی چوری پر مجبور کرتے ہیں۔ کچھ کا ذکر آنے والی سطور میں کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے دکھاوا۔ دوسرے لوگوں پر اپنے قلم کا رعب جمانے کے لئے ایک ناخواندہ لکھاری ادبی سرقہ کا مرتکب ہوجاتا ہے۔ اس لکھاری کے خیالات اور الفاظ ابھی پختگی کے سخت مراحل سے گزرے بھی نہیں ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں کے خیالات کو من و عن لکھ کر خود کو بڑے بڑے القابات سے نوازتاہے۔ اس طرح دکھاوے کی گندی ہوس ایک جاہل اور اَن پڑھ انسان کو ادبی چور بناتی ہے۔
دوسری وجہ ہے حسد۔ ہمارے یہاں اگر کوئی محنت و مشقت کرکے کسی منصب پر پہنچتا ہے تو اس کی خامیاں نکالنے میں سارے جُٹ جاتے ہیں، یہی معاملہ لکھنے کے فن کے ساتھ بھی ہے۔ ایک لکھاری سالہا سال تک محنت کرکے اور لاکھوں روپے صرف کرکے جملوں کی نزاکت سے واقف ہوتا ہے اور تب جاکر لکھائی میں نکھار آتا ہے۔ ناروے کے جان فاسے جن کو نوبل پرائز 2023 برائے ادب دیا گیا، اپنی لکھائی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کیسے وہ ان سخت ترین مراحل سے گزرکر ایسا ناول لکھنے کے قابل ہوگیا جو صرف ایک جملے پر مشتمل ہیں۔ یعنی one-sentence ناول لکھنا وہ بھی لگ بھگ تیرہ سو صفحات پر، اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن ہمارے یہاں راتوں کی نیندیں اور اپنی خواہشات کو قربان کئے بغیر سارے کے سارے جان فاسے بننا چاہتے ہیں۔ دوسرے مصنفین کی ترقیاں ان کو ہضم نہیں ہوتی ہیں اور اس طرح یہ ناخواندہ لکھاری حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔
تیسری وجہ ہے جھوٹے مصنفین کی پذیرائی۔ ہمارے یہاں ان مصنفین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہیں جو مصنف کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کے خیالات کو اپنا مان کر ا یسی ایسی واہیات تحاریر لکھتے ہیں کہ انسان پریشان ہوجاتا ہے۔ ہمارے یہاں اگر کسی محفل میں دس پندرہ لوگ اور چند فوٹوگرافرفوٹوز اٹھاتے ہوں، تو ہر کوئی اس دوڑ میں لگ جاتا ہے کہ کب وہ بھی اس محفل کی رونق بنے۔ عام طور پر جن کتابوں کی رسم اجرائی ہوتی ہے ، ان میں صرف عشقیہ داستانیں اور دل ٹوٹنے کا غم ہوتا ہے، محبوب سے دوری اور پیار کی کمی کا درد لکھا ہوتا ہے۔وہ الفاظ کا رعب اور رموز اوقات کے کراتب ان کتابوں میں موجود ہوتے ہیں۔
اس لیے ہم سب کو چاہئے کہ ادبی سرقہ سے اجتناب کریں تاکہ ہم بھی کوئی قابل قدر کام انجام دے سکیں ۔ جتنا ہوسکے اپنے خیالات کو ہی قلم بند کریں۔ اگر دوسرے مصنفین کی کتابوں اور مضامین سے استفادہ کرنے کی ضرورت بھی پڑے، تو حوالے بھی ضرور دیں۔ اس سے ایک بااثر مصنف بننے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ جو حضرات ریسرچ کے کام میں مصروف ہیں، اُن کو ادبی چوری کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ اگر وہ بھی دوسروں کی طرح غیروں کی باتوں کو اپنے ناموں سے منسوب کرنے لگے تو اس کا نتیجہ صفر نکلے گا۔ اس سے ریسرچ پر سے بھروسہ اُٹھ جائے گا۔ اس کے علاوہ جو صحافت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو بھی چاہیے کہ خبریں اور مضامین لکھتے وقت نظریاتی سرقہ سے اجتناب کریں، ان کی باتوں کا لوگ اثر لیتے ہیں۔ اس لیے ان کو چاہیے کہ وہ شفافیت اور اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں۔ مزید برآں ایک انسان کو اپنے اندر بھی جھانکنا چاہیے کہ ادبی چوری کرنا ایک غیر اخلاقی کام ہے جو ایک مہذب معاشرے کے برعکس ہے۔ ہم سب کو جھوٹی شان چھوڑ کر محنت کو اپنا شیوہ بنانا چاہیے۔ تو آیئے، ادبی چوری سے اجتناب کرکے اور دنیا کے بڑے بڑے مصنفین اور اذہان کا حقیقی مطالعہ کرکے اصلی مصنف بن جائیں۔ یہی وقت کی ضرورت ہے۔
[email protected]
�������������������