ہلال بخاری
مسلسل ارتقاء زندگی کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ زندگی کے تقاضے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور دانشوروں کے خیال میں جو زندگی عروج کی طرف گامزن نہیں رہتی، اسکا زوال اٹل ہے۔زندگی کے نقوش ہر دم بدلتے رہتے ہیں ، یہ ایک صورت میں قرار نہیں کرتی۔ اگر آپ کا آج گزرے ہوئے کل کی صورت ہے تو آپ مردہ مٹی کی طرح ہیں اور آپ میں زندگی کی تپش ختم ہو چکی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے تصورات اور خیالات کا بدلنا لازمی ہے۔ اگر ہمارے خیالات دقیانوسی ہوں تو ہم انقلابی نتیجوں کی توقع نہیں کر سکتے ہیں جو سوچ اور خیال اپنے وقت سے میل نہیں کھاتا، اُس سے ہم یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ اس کے بطن سے ایک بہتر فردا کا جنم ہوگا۔
کچھ لوگ اپنے سوچ کو لیکر بہت سخت ہوتے ہیں اور ان میں اپنے تصورات کے خلاف کسی اور تصور کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ اپنے خیالات اور اپنے تصورات کو حتمی مانتے ہیں اور ان کے خلاف کسی تنقید یا تردید کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ اس سوچ کے برخلاف برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کہتے ہیں:’’میں اپنے خیالات کے لیے مرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کیونکہ وہ بدل جاتے ہیں۔‘‘ یہ ہر صورت ممکن ہے کہ ہمارے خیالات میں نقص یا کمی ہو، لہٰذا ان کے لئے جان دینا یا انکو اٹل سمجھنا بے وقوفی کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ ہر نئے دور کے ساتھ خیالات کا بدلنا بھی ضروری ہے۔ عراقی مفکر علی الوردی کہتے ہیں:’’خیالات ہتھیاروں کی طرح ہوتے ہیں، وہ دن گزرنے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔‘‘ دانا انسان وقت کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات اور سوچ میں جدت لانے کا فن جانتا ہےاور بے وقوف وہ ہے جو ہمیشہ ایک جیسا رہتا ہے۔جاہل اپنی جہالت کے کنویں کو ہی دنیا سمجھ لیتا ہے، اس کی سوچ محدود ہوتی ہے ،اس لئے اس کا دماغ کسی قسم کے عظیم اور اعلیٰ خیال کو اپنے اندر جذب کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ ہماری ترقی، خوشحالی اور بہتری کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے خیالات، ہماری سوچ اور ہمارے تصورات ہمیشہ عروج کی طرف گامزن رہیں۔
اپنے خیالات اور نظریات کے بنا پر ہم اپنی کہانیاں اپنے ذہنوں میں تحریر کرتے ہیں اور پھر ان کو عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ ہم میں اتنی ہمت ہو کہ ہم اپنے نظریات کو ہمیشہ وقت کی ترازو میں تولنے پر رضامند ہوں تاکہ ہماری کہانیاں ہر وقت مطابقت پذیری سے لبریز ہوں۔ ہمیں ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے تصورات میں خامیوں کا ہونا ممکن ہے اور ہمیں اس میں ہٹ دھرمی سے ہرگز کام نہیں لینا چاہیے۔ دانا لوگ وہی ہیں جو اپنے خیالات کے بارے میں ہمیشہ گمان میں رہتے ہیں اور ان کی بہتری کی مسلسل تگ ودو میں رہتے ہیں، اپنی سوچ کو ہر بہتری کے بعد بھی عروج کی طرف گامزن رکھنے میں مگن رہتے ہیں۔ اس دنیا کی ترقی اور خوشحالی کا ایک اہم راز انسان کے نظریات کی مسلسل ارتقاء رہی ہے۔ جن قوموں نے اپنے تصورات اور نظریات کی ارتقاء کو کامیابی سے اپنایا، وہی آج کل خوشحالی اور ترقی کی راہ پر باقی قوموں سے بہت آگے کھڑے ہیں۔
[email protected]