وادی کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران صحافت اور صحافیوں کا رول کیا رہا ہے، اس سے نہ صرف ساری دنیا واقف ہے بلکہ ہر مرحلے پر اس کے رول اور خدمات کا کھلے بندوں اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔ جمہوریت کے چوتھے ستون کی حفاظت کےلئے صحافت کے پیشے سے تعلق رکھنے والے طبقے نےکیسی کیسی قربانیاں پیش کی ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں اور کسی بے ضمیر ، بدعنوان اور بد دماغ شخص یا ایسے حلقوں کی ہر زہ سرائی سے دن کی روشنی کو جھٹلا کر رات کی تاریکی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اختلاف کرنا ہر بنی نوع انسان کا حق ہے لیکن اگر اسے دھونس، دبائو اور دھمکیوں کی صورت دے دی جائے تو یہ انسانیت اور جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کی بیخ کُنی کا عمل بن جاتا ہے۔ سابق وزیر اور بھاجپا قائد لال سنگھ نے گزشتہ دنوں سرکردہ صحافی شجاعت بخاری کے بیدردانہ قتل کی روشنی میں پیدا شدہ ابتذالی منظر نامے میں کشمیر کی صحافتی برداری کےخلاف جو دھمکی آمیز لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ نہ صرف جمہوریت اور سیاست کے بنیادی اصولوں کے خلاف ایک اعلان جنگ ہے بلکہ اُن قوانین کی دھجیاں اُڑانے کے مترادف ہے، جو آئین ہند کا حصہ ہیں اور جنکی رو سے تحریر و تقریر کی آزادی ہر شہری کا حق ہے۔ مذکورہ بھاجپا رکن، جو اپنی سیاسی زندگی کے ہر مرحلے پر متنازعہ یا وہ گوئی کےلئے بدنام رہے ہیں، کو غالباً اس بات کا خیال نہیںکہ ریاست کے اندر ایک منتخب سرکار ہو یا بلاواسطہ مرکز کے زیر انتظام گورنر راج ہو ، بہر حال اسکی جڑیں آئین کے اندر پیوست ہیں اور وہ معاملات کو من مرضی کی تاویلات عطا نہیں کرسکتے۔ جس طرح انہوں نے کشمیر کی صحافتی برادری کو دھمکی دی ہے وہ کُھلم کُھلا ایک مجرمانہ فعل ہے اور فوجداری قوانین کے تحت قابل مواخزہ بھی ۔ جس لہجے میں لال سنگھ نے شجاعت بخاری کے قتل کا حوالہ دے کر صحافیوں کو ایسی حالت سے بچنے کےلئے اپنی راہیں اور خطوط متعین کرنے کا انتباہ دیا ہے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بیدردانہ قتل کی وجوہات اور کیفیات کا کسی نہ کسی صورت میں علم ہے اور حکومت کی جانب سے اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے اداروں پر یہ فرض عائید ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ شخص سے اس معاملے پر تفتیش کرکے تفصیلات طلب کرے۔ آج کے دور میں حقائق سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کرنے والے صحافیوں کو اگر چہ تشدد، ہراسانی ، دھونس ،دبائو اور دھمکیوں کا سامنا ہےلیکن مذکورہ بھاجپا لیڈر، جو رسانہ آبروریزی و قتل معاملے پر کھلُم کُھلا مجرموں کی پشت پناہی کرکے جموں خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنے میں پیش پیش رہے ہیں، نے کشمیر کی صحافتی برادری کو ہراساں کرنے کےلے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ ایک صریحی مجرمانہ فعل ہے اور ایسا جرم ہے جو اُن تمام جرائم سے برتر ہے،جنکے حوالے سے اُنکا نام آج تک خبروں میںآتا رہا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ سابق سرکار میں وزارت کی کرسی پر براجمان ہونے کے دوران بھی اُنہوں نے نہ صرف کھلم کُھلا فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا بلکہ فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھمکیاں دینے سے بھی احتراز نہ کیا۔ ایسا ہی ایک واقع اُس وقت سامنے آیا تھا جب گجربرادری کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران اس شخص نے اُنہیں 1947ء میں جمو ں میں پیش آیا مسلمانوں کا قتل عام یاد دلاکر ہراساں کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اُس وقت کے عمائیدین حکومت نے اس معاملے پر وزارت کی ذمہ دار کرسی پر براجمان لےاس شخص سے کوئی جواب طلب نہیں کیا، جس کی وجہ سے اس کے مجرمانہ حوصلے اس قدر بلند ہوگئے ہیں کہ آج وہ صحافی برادری کو کھُلم کُھلا دھمکیاں دینے کی جرأت کرنے پر اُتر آیا ہے۔ اس وقت چونکہ ریاست میں میں ایک غیر سیاسی حکومتی نظام قائم ہے اور جسکی کمان ریاستی گورنر ، جو اپنے عہدے کے فطری تقاضوں کی رو سے غیر سیاسی ہیں، کے ہاتھوں میں ہے، لہٰذا اُن کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لال سنگھ کے اس مجرمانہ رویئے کے خطرات کو محسوس کرے اور بلا تاخیر اس کےخلاف کاروائی کرے۔یہ کاروائی نہ صرف ریاست کے سیاسی منظر نامے میں مجرمانہ زہنیت کے فروغ پر قدغن لگانے کا سبب بن سکتی ہے بلکہ صحافت کے پیشے کی تقدیس کے اعتراف کا ماحول قائم کرنے میںبھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ جمہوریت کو کرہّ ارض میں طریقہ حکمرانی کے ایک مسلمہ اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کےلئے بنی نوع انسان نے صدیوں تک بے بہا قربانیاں دی ہیں اور آج لال سنگھ جیسے انتہا پسند سوچ رکھنے والے عناصر کی طرف سے اسی جمہوریت کے ایک اہم ستون کو خطرات لاحق ہوئے ہیں، لہٰذا ان خطرات کو محسوس کرکے ایسا ماحول پیدا کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنا ناگزیر ہے۔ یہی جمہوریت کا تقاضا ہے!۔