محمد مطاہر خان
(گذشتہ سے پیوستہ)
ہمارا سولر سسٹم آج سے تقریبا 4.571 بلین سال پہلے بنا اور ہماری زمین 4.54 بلین سال پہلے بنی اور 3.9 بلین سال پہلے اسٹرائڈ(asteroid) کی بارش ہوئی۔ جسے لونر کیٹالسم کہتے ہیں۔ اور ساتھ ہی کوپر بیلٹ ( kuiper belt) سے کمٹس (comets) بھی زمین پر آئیں ،جس کی وجہ سے ہماری زمین پر پانی آیا۔ 3.9 بلین سال پہلےہمارے سولر سسٹم کے دو بڑے سیارے زحل اور مشتری دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے ،جس کی وجہ سے دونوں نے ایک دوسرے کو ری پیل کیا اور اس کی وجہ سے پورا سولر سسٹم متاثر ہوا اور دو سیاروں نیپچون اور یورینس نےاپنے مدار بھی بدل لیے اور ساتھ ہی اسٹیرائڈ بھی اندر والے سیاروں کی طرف گرنا شروع ہوگئے جن میں مارس، وینس، مرکری اور ہماری زمین بھی شامل تھی۔
جب ناسا نے اسٹیرائڈ کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کے اسٹرائیڈ بہت سے منرلز، ایلیمنٹس اور پانی کے مالیکیولز سے بنا ہوا ہے لیکن یہ پانی اتنا نہیں ہے جتنا ہماری زمین پر ہے تو باقی پانی کہاں سے آیا؟ تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ کلیئر ہوا کہ باقی پانی کوپر بیلٹ سے آیا ،جس میں کمنٹ ہوتی ہیں جو کہ گیسز اور پانی سے مل کر بنتی ہیں لیکن یہ برف کی فارم میں ہوتی ہیں اور یہ بھی اسی ایونٹ کے دوران جب مشتری اور زحل ایک دوسرے کے قریب آئے تھے تو یہ بھی زمین کی طرف آئیں اور اپنا پانی زمین کو ٹرانسفر کیا ،اس وقت زمین کا درجہ ٔحرارت دو ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تھا، پھر بارشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس کی وجہ سے زمین ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی۔
خلا سے زمین کیسی دِکھتی ہے؟ دیکھنے والے کہتے ہیں بہت خوبصورت نیلے ماربل جیسی۔ اس گول سے ماربل میں سفید رنگ بادلوں کا ہے جو فضا میں تہہ در تہہ اُڑتے پھرتے ہیں اور نیلا رنگ سمندروں کا سمندروں اور بادلوں کا رشتہ گہرا ہے۔ جب سورج کی روشنی اس سیارے پر پڑتی ہے تو یہاں حرارت کے باعث سمندروں سے بخارات اُٹھتے ہیں جو اوپر فضا میں بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ یہ بادل دور کے علاقوں میں برستے ہیں۔ میدانوں میںکھیت کھلیانوں میں، صحراؤں میں، پہاڑوں پر۔
پہاڑوں پر بادل برس کر برف بنتے ہیں۔ پہاڑ صدیوں سے سمندروں کے پانی کو گلیشئیرز کی صورت محفوظ کیے رکھتے ہیں۔ یہ برف جب پگھلتی ہے تو پہاڑوں میں راستہ بناتی دریاؤں کو سیراب کرتی ہے۔ دریا بہہ کر پھر سے سمندر میں جا ملتے ہیں۔ یوں پانی جہاں سے اُٹھتا ہے پھر وہیں کو جاتا ہے۔ یہ سلسلہ زمین پر شاید اربوں سالوں سے چلا آ رہا ہے، مگر زمین پر پہلی بارش کب ہوئی؟ اس سوال کا جواب ابھی تک کوئی حاصل نہیں کرسکا۔ شاید اربوں سالوں سے۔
آج جو پانی آسمان سے برستا ہے، جو پانی ہم پیتے ہیں، جو پانی ندی، نالوں اور دریاؤں میں بہتا ہے؟ اور جو پانی سمندروں میں لہروں کی صورت اُٹھتا ہے۔ یہ زمین پر کہاں سے آیا ہے؟ یہ سوال اتنا ہی اہم ہے جتنا یہ جاننا کہ زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔ کیونکہ پانی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ پانی زندگی کا اہم جُز ہے۔ یہاں تک کہ ہم دوسرے سیاروں پر بھی پانی ڈھونڈتے ہیں کہ اگر وہ مل جائے تو شاید زندگی بھی وہاں ہو۔ زمین پر زندگی کی ابتدا پانی سے بھرے سمندروں میں 3.8 ارب سال پہلے ہوئی۔
نظامِ شمسی میں پانی کہاں سے آیا۔ ہم جانتے ہیں کہ نظامِ شمسی آج سے 4.6 ارب سال پہلے ایک نبیولا سے وجود میں آیا۔ نبیولا دراصل ماضی میں اپنے انجام کو پہنچتے ستاروں کے پھٹنے سے خلا میں بکھری گرد اور گیس کا مجموعہ ہوتا ہے جو وقت کیساتھ ساتھ گریوٹی کے زیر اثر جڑ کر ستاروں اور سیاروں کو جنم دیتا ہے۔ تو گویا پانی اس نبیولا میں ہائیڈروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے آکسیجن رکھنے والے مالیکول کے کیمیائی تامل سے وجود میں آیا ہو گا۔ نظامِ شمسی کے بننے کے عمل میں کئی بڑے بڑے برف کے ٹکڑے سیارچے کی صورت ایسے ہی بنے ہونگے، مگر ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟
ایسے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نظامِ شمسی میں کئی ایسے برف کے بنے سیارچے موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر اب بھی مریخ اور مشتری کے بیچ کے علاقے میں موجود ہیں۔ اور بہت سے دمدار ستاروں کی صورت سورج کے گرد طویل مداروں میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ کئی سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایسے ہی کئی برف کے سیارچے ماضی میں زمین سے ٹکرائے، اُس وقت جب زمین ابھی بننے کے عمل سے گزر رہی تھی اور اس کاحصہ بن گئے۔ بعد میں آتش فشاؤں کے پھٹنے سے جمع ہونے والا پانی زمین کی سطح پر آیا، مگر ایک اور خیال یہ ہے کہ زمین بننے کے عمل میں برفیلی چٹانیں پہلے سے ہی زمین کا حصہ تھیں جو بعد میں اس کی سطح پر آ کر اور دوبار سے سطح میں جا کر زمین کو ٹھنڈا کرتی رہیں۔
تیسرا خیال یہ ہے کہ زمین پر پانی پہلے سے بھی موجود تھا اور سیارچوں کے گرنے سے بھی آیا۔ وجہ جو بھی ہو ایک بات تو طے ہے کہ آج جو پانی ہم اور آپ پیتے اور استعمال کرتے ہیں یہ زمین کی عمر یعنی 4.5 ارب سال سے بھی پرانا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ پانی نظامِ شمسی میں کئی جگہوں پر پایا جاتا ہے۔ جیسے مریخ کے جنوبی قطب پر یا چاند کی چٹانوں میں یا مشتری کے چاند یوروپا کی برفیلی تہہ کے نیچے سمندروں میں۔ بارش دوسرے سیاروں پر بھی ہوتی ہے، مگر پانی کی نہیں۔ سیارہ زہرہ جو نظامِ شمسی کا دوسرا سیارہ ہے، اس پر گندھگ کے تیزاب کی بارش ہوتی ہے۔ اسی طرح سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ نیپچون اور یورینس پر ہیرے برستے ہیں، مگر کیا اس کائنات میں کسی اور سیارے پر زمین کی طرح پانی کی بارش ہوتی ہے؟
زمین سے 110 نوری سال کے فاصلے پر ماہرینِ فلکیات کو خلا میں موجود ناسا کی کیپلر ٹیلی اسکوپ کے حاصل کردی ڈیٹا کی چھان بین پر ایک سیارہ ملا ہے، یہ سیارہ زمین جیسا ہے، ایک چٹانی سیارہ۔ یعنی وہ سیارہ جس کی ٹھوس سطح بھی ہو، گیس جائنٹ نہیں جیسے کہ مشتری یا نیپچون ہیں جو مکمل گیس سے بنے ہیں اور اُن کی کوئی ٹھوس سطح نہیں۔ اس سیارے کوK2-18b کا نام دیا گیا، جس طرح زمین سورج کے گرد گھومتی ہے بالکل ویسے ہی یہ سیارہ بھی اپنے ستارے کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس سیارے پر پڑنے والی اس کےستارے کی روشنی ، کم و بیش اُتنی ہی ہے جتنی زمین پر سورج سے پڑتی ہے۔
اس سیارے کی فضا کا حساس سائنسی آلات جیسے کہ اسپیکٹرومیٹر سے جائزہ لینے پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہاں پانی کے بخارات ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ بخارات دراصل پانی کے بادل ہیں جن سے ممکنہ طور پر سیارے پر بارش ہوتی ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہماری زمین پر پانی برستا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ممکن ہے یہاں بھی زندگی ہو۔ اب سے کھربوں سالوں بعد ہماری کائنات اپنے انجام سے دوچار ہوجائے گی تمام ستارے ختم ہوجائیں گے اور ٹمٹمانا بند کردیں گے کائنات بے انتہا وسیع اور بے انتہا سرد ہوجائے گی۔ طبیعیات کے قوانین اس بات کے ضامن ہیں کہ اس وقت تمام ذہین مخلوقات فنا ہوجائیں گی۔(۷۴)