رئیس یاسین
ہمارا موجودہ تعلیمی نظام بچوں کو صرف کتابوں میں دفون کرتا ہے، جہاں حقیقت سے دور ایک بے جان رٹا سسٹم انہیں زندگی کی اصل حقیقتوں سے بے خبر رکھتا ہے۔ بچہ اپنی فطری صلاحیتوں کی پہچان کے بجائے ایک مشین کی طرح سکھایا جاتا ہے اور جب وہ عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھتا ہے تو وہ خود کو بے بس اور کمزور پاتا ہے۔ جب تک وہ اپنی حقیقی صلاحیتوں کو نہ جانے کیسے وہ معاشرتی تقاضوں کا مقابلہ کر سکے گا؟ ہم جس تعلیمی نظام کی بنا پر اپنے بچوں کو محدود کر دیتے ہیں، وہ نہ صرف ان کی شخصیت کی تباہی کا سبب بنتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بھی زوال کی طرف دھکیلتا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کامیاب ہوں تو ہمیں ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کی پہچان کرنی ہوگی، تاکہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کو جان سکیں اور ایک بہتر انسان بن کر معاشرتی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
ہر بچہ ایک منفرد دنیا ہے، جس میں خواب اور خواہشیں پروان چڑھتی ہیں۔ کوئی بچہ سائنس میں جذبہ رکھتا ہے تو کوئی فنونِ لطیفہ میں۔ کچھ بچے کمپیوٹر کی دنیا کے جادوگر بننا چاہتے ہیں تو کچھ کاروباری دنیا میں اپنے قدم جمانا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمارا تعلیمی نظام ان سب کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح بچہ اپنے خوابوں کو دفن کر دیتا ہے۔ہمیں ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جو بچوں کو اپنے شوق اور دلچسپی کے مطابق ترقی کی راہیں دکھائے۔سکولوں میں ہی ایسا تعلیمی نظام رائج ہونا چاہیے کہ بچہ پانچویں جماعت سے ہی اپنی خواہش اور کوسنگ کے مطابق اپنے پسندیدہ مضمون کا انتخاب کرسکے۔یہی وہ راہ ہے جو خوشی اور کامیابی کی جانب لے جائے گی۔
ہنر پر مبنی تعلیم: خود روزگاری کی طرف پہلا قدم
تعلیم محض ڈگریاں نہیں بلکہ ہنر ہے جو انسان کی زندگی کو نیا رنگ دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے صرف نوکری کی تلاش میں نہ رہیں بلکہ اپنی محنت سے دنیا کو بہتر بنائیں تو ہمیں اپنی تعلیم کے دائرے میں ان مہارتوں کو شامل کرنا ہوگا جو انہیں خود کفیل بنائیں۔گرافک ڈیزائن، کمپیوٹر پروگرامنگ، دستکاری، کاروباری مہارتیں اور قائدانہ صلاحیتیں بچوں کو وہ سیکھائیں گی ،جو انہیں دنیا میں کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہیں۔
ہنر سیکھنا صرف زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں بلکہ اپنے خوابوں کی تعبیر کا پہلا قدم ہے۔آج کے دور میں انسان کا ہنر مند ہونا نہایت اہم ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سبب یہ بھی ہے کہ جوانوں کے پاس ہنر نہیں ہے۔ اگر پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک بچہ کوئی ہنر سکھے گا تو اس کے لئے روزگار کے موقعے مزید بڑھے گے۔
جاپان سے سبق: کردار سازی اور معاشرتی تربیت
جاپان میں بچوں کو نہ صرف کتابیں پڑھائی جاتی ہیں بلکہ زندگی گزارنے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اسکول کی صفائی خود کرتے ہیں، نظم و ضبط میں رہ کر ایک دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اساتذہ کا احترام کرتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے دنیا میں مثبت اثر ڈالیں، تو ہمیں اپنی تعلیم میں ان قدروں کو شامل کرنا ہوگا جو انسانیت کے بلند ترین اصولوں پر مبنی ہوں۔
مشترکہ ذمہ داری: والدین، اساتذہ، حکومت اور معاشرہ
تعلیمی نظام کی اس تبدیلی کے لیے حکومت کے اقدامات کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے معاشرے کے ہر فرد کو اس میں شامل کرنا ہوگا۔ والدین، اساتذہ اور معاشرہ سب کو ایک سنگت کی مانند کام کرنا ہوگا تاکہ ہم بچوں کو نہ صرف اچھے طالب علم بلکہ اچھے انسان، باہنر کارکن اور ذمہ دار شہری بھی بنا سکیں۔یہ ایک اجتماعی کوشش ہے جس میں ہم سب کا کردار ہے۔
اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے تو ہمیں اپنے بچوں کو ایسے علم سے سرفراز کرنا ہوگا جو ان کی ذاتی اور معاشرتی فلاح کا باعث بنے۔ہمیں چاہیے کہ ایسے ادارہ قائم کیے جائیں،جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے۔ ایسے سکولز کشمیر میں ہونے چاہیے جہاں پر موجودہ دور کے نوعیت کے کورسز ابتدا سے ہی پڑھائیں جائیں ۔جن میں مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، گرافک ڈیزائننگ وغیرہ قابل ذکر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پرانے طرز سے نکل کر نئی تعلیمی پالیسی پر کام کرنا چاہیے۔ اسے طرح ہر ایک بچہ میں منفرد خاصیت ہوتی ہے بہترین استاد یا بہترین ادارہ وہ ہے جو ہر بچہ پر غور کرے ۔
آئیے! ہم سب مل کر ایک ایسا تعلیمی نظام تشکیل دیں جو بچوں کو نہ صرف رٹا سکھائے، بلکہ انہیں سوچنے کی آزادی دے، انہیں سنوارے نہیں بلکہ نکھارے اور انہیں کتابوں کے قیدی نہ بنائے بلکہ عملی انسان بنائے ۔رابطہ۔7006760695
[email protected]