جموں و کشمیر میں منشیات کی خریدو فروخت اور اس کے استعمال کی وباء پر قدغن لگانے یا قابو پانے کے لئےریاستی انتظامیہ کی طرف سے جتنے بھی اقدامات کئے جارہے ہیں اور جوکاروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں،اُس کی خبریں روزانہ اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیںلیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں منشیات کی تجارت اوراستعمال میںآج تک کوئی مثبت کمی واقع نہیںہورہی ہے۔جس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں ایمانی جذبات کمزور اور سرد پڑگئے ہیں وہیں بے خوفی اور جرأت بڑھ گئی ہے۔ظاہر ہے کہ جب لوگوں میں اللہ کا خوف رخصت ہورہا ہے، موت کی یاد سے غفلت عام ہے، آخرت کی فکر اور بارگاہ رب العزت میں حاضری اور جواب دہی کا استحضار باقی نہیں رہتاہےتولوگ گناہوں کی طرف لوگ سر پٹ دوڑتے چلے جاتےہیںاور ان کے لگام اُن کے نفس کے قبضے میں ہی رہتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دورِ حاضر میں منشیات کے رواج عام ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ معاشرہ ایمان قوت سے محروم اور بارگاہِ الٰہی میں باز پرُس کی حقیقت سے بے فکری اور بے خوفی میںمبتلا ہیں۔سچ یہ بھی ہے کہ اولاًکہنے کوتو ہمارے یہاںمنشیات کا کاروبار کرنا حکومت کی طرف سے ممنوع ہے لیکن اسی حکومت کی سرپرستی میں شراب اور دیگر نشے کا کاروبار ناسور کی طرح معاشرے میں رائج ہے۔دوم، اولاد کو بنانے یا بگاڑنے میںسب سے نمایا کردار گھر کی اخلاقی تعلیم وتربیت کا ہوتا ہے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ زندگی کے ہنگاموں اور مشغولیات میں والدین کو اپنے بچوں کی دینی واخلاقی تربیت کے لئے فرصت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ضروری ہونے کا انہیں احساس ہے۔ اولاد بے حیائی کی راہ پر کس طرح جارہی ہے اور منشیات کی لعنت میں کس طرح مبتلا ہورہی ہے، اس کی کوئی خبروالدین کو نہیں رہتی ہے۔ سیوم ،بے کاری اور کسی مثبت ، صحت مند اور مفید مشغولیت کا نہ ہونا انسان کو بگاڑ کی راہ پر لے جانے کا بہت طاقتور ذریعہ ہوتا ہے۔موجودہ حالات میں جب معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے، ایک بہت بڑا طبقہ بے روزگاری کی زندگی گذار رہا ہے اور مایوسی ، نفسیاتی کرب اور اضطراب کا شکار ہے اور یہ کرب بسا اوقات اسے اپنے غم غلط کرنے کیلئے شراب و نشہ کے مہلک راستے پر لے جاتا ہے، یہ بھی سماج میں نشے کے عموم کا ایک سبب ہے۔ اس کے علاوہ نوجوانوں میں نشے کی لت کا ایک محرک نشے باز ساتھیوں کی صحبت ورفاقت بھی ہے۔ ہمارے معاشرے میں منشیات اور دیگر فواحش کے عام ہونے کے پیچھے بنیادی کردار ہماری اندھی نقالی اور غلامی کے مزاج کا ہے۔ نوجوانوں میںایک طبقہ وہ بھی ہے جو بگاڑ پھیلانے والوں کی طرف سے رائج نشہ آور گولیوں کے جھانسے میں آکر انہیںمقوی دواسمجھ کر استعمال کرلیتا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس طرح اس نے نشے کا زہر اپنے وجود میں اُتار لیا ہے، پھر رفتہ رفتہ وہ ان دوائوں کا عادی ہوجاتا ہے اورپھر یہ عادت اُسے برباد کرڈالتی ہے۔ اس ساری صورت حال کے پیشِ نظر معاشرے پر لازم ہے کہ ہر وہ تدبیر اپنائیں،جس سے نوجوان نسل اس وباء سے بچ جائے۔ لہٰذا معاشرے سے منشیات کی لعنت ختم کرنے کیلئے معاشرےکے مصلحین کی طرف سے مسلسل منصوبہ بند مہم چلائی جائے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ سماجی اصلاح کا علم اٹھانے والے افراد اور تحریکات کی طرف سے منشیات سے پاک سماج تشکیل دینے کی سمت میں کوئی ٹھوس اور موثر اقدام نہیں ہورہا ہے، جبکہ بنیادی ضرورت ہے کہ ایک ہمہ گیر تحریک کے انداز میں اس پر کام کیا جائے۔ سماج کے تمام طبقات پر یہ پیغام پہنچایا جائے، نشے کے نقصانات سے ہر سطح پر لوگوں کو باخبر کیا جائے، ان تمام اسباب وعوامل پر بند ھ باندھنے کی کوشش کی جائے جو منشیات کے فروغ میں معاون ہوسکتے ہیں۔ اگر والدین چاہتے ہیں کہ اُن کا بچہ کسی بھی قسم کے نشے سے پاک رہے تو انہیں ہمیشہ اپنی نگرانی میں رکھیںتاکہ نشے سے پاک ایک نسل پروان چڑھ سکے۔