حال ہی میں ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی رپورٹ کے مطابق ہمارے یہاں منشیات کے خلاف بیداری مہم چلانے کے باوجود معتدبہ تعداد میں پڑھے لکھے نوجوان اس لت میں مبتلا ہیں، جب کہ قلیل التعداد اَن پڑھ بھی اس بیماری سے متاثر ہیں۔ نیشنل انسٹی چیوٹ آف مینٹل ہیلتھ و اینڈنیرو سائنس کے حوالے سے یہ حیران کن انکشاف بھی ہوا ہے کہ مختلف قسم کی نشیلی ادویات یا منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے ۔ دستیاب ا عدادوشمار سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ریاست میں منشیات کا کاروبار کرنے والوں کا خاص نشانہ پڑھے لکھے نوجوان بنے ہوئے ہیں۔ اس خبر سے کسی بھی باضمیر اور حساس دل انسان کی نیند غائب ہوسکتی ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر لازماً اُداس ہو نے چاہیے کہ آخر ہماری نوجوان نسل کہاں جارہی ہے؟ کون اسے اس زہر ناک ذلت کے دلدل میں دھکیل رہا ہے ؟ یہاں خیال ہی خیال میں ایک معصوم سی صورت میری نگاہوں کے سامنے رقصاں ہورہی ہے ۔یہ ایک اچھے خاندان کا لاڈلا معصوم سا نوجوان تھا ،جس کی پرورش بڑے ناز و نعم سے ہوئی تھی۔ا س کے جسم پر ہلکی سی خراش پر بھی اس کے گھر میں چیخیں نکلتی تھیں ،اپنے والدین کی وہ اکیلی اولاد تھا، وہ جو چاہتا ،اُسے وہ ملتا ۔یہ بچہ واقعی والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا ۔ شکل و صورت بھی دینے والے اللہ نے بہت اچھی دی تھی، اسی لئے ہر نگاہ اس پر پڑ کر دست ِقدرت کی صناعی پرعش عش کر تی ۔ اسے خود اپنے حسن و شباب پر ناز تھا۔آہستہ آہستہ اس کے قدم جوانی کی دہلیز پر پڑنے لگے تو اس کی شوخیاں اور بھی بڑھنے لگیں۔ اب اس کا حلقہ ٔیاراں بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ والدین نے کبھی دوستوں سے راہ ورسم پر کوئی روک نہ لگائی ، سوچا یہ محو پرواز ہے تو خوب اُڑے، ستاروں سے کھیلے۔ ایک روز انہی خوشیوں کے درمیان اس کے والد کسی حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ لاڈ پیار والے نوجوان شدید دُکھ اور صدمہ ہوا مگر دوستوں نے اس کے غم کا مداوا یہ بتا دیا کہ آؤ ہمارے دوست ہم تیرے غم کو غلط کرتے ہیں ، جام تُو چڑھا ،ہم بھر دیں گے۔پھر کیا تھا اسے غم کے رَفع کرنے کا ایک ایساہلاکت آفرین طریقہ ملا جو اس کی بربادیوں کی ایک دلخراش داستان بننے پر منتج ہوا۔ اب جام کے ساتھ نشہ آورانجکشن بھی ملنے لگے، پھر سفوف (پوڈر) کی صورت میں نشے کازہر ملا ۔ یوں اس کے لئے کربناک اذیتوں کا سلسلہ ٔ دراز چل پڑا ،نہ نیند نہ آرام ،نہ سکون، جسم کی ہیت بھی بدلنے لگی، اعضاء مضحمل، ہاتھ پاؤں میں مسلسل درد کی ٹیسیں ، جوانی میں ہی چہرے کی رونق غائب ،بے نور سی آنکھیں، ماتھے کی شکنیں وغیرہ، یہ اس کی بدحالی اور نامرادی کی چغلیاں کھانے کو کافی تھیں۔
چڑ چڑا پن، نفرت و کدورت بھرا جگر اپنے ہی خیالات میں ہمہ وقت مگن ،بال بکھرے ہوئے، دنیا کی ہر خوشی سے نالاں صرف کش پہ کش لگانا س کا مشغلہ بنا رہا ۔ نوجوان کی غم زدہ والدہ اس کی حالت کو دیکھ دیکھ کر خون کے آنسو روتی رہتی مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ بد نصیب ماں اپنے بیٹے کو کبھی کسی نالی سے اُٹھا لاتی ، کبھی کسی کیچڑ کے ڈھیر سے۔ بیوہ کے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ تھے ۔جو لوگ اسے کبھی جی بھر کر دیکھنے کے متمنی ہوا کرتے تھے وہ اب نفرت کے عالم میں ا س سے نگاہیں پھیرنے میں ہی عافیت سمجھتے تھے۔ اس کی رَگ و پے میں سرایت ہوئی نشے بازی کے اجزاءاسے تباہ کرگئے تھے، وہ دوست جن کا یہ کبھی اپنا جگری یارتھا ،سب اسے سرراہ بے یار و مددگار چھوڑ گئے ۔ والدہ کے بازو بھی کمزور ہورہے تھے۔ جب والدہ کے بازؤں میں اُسے مزیدسہارا دینے کی سکت نہ رہی تو اس کا لاڈلا بیٹا گندی نالیوں اور کیچڑ کے ڈھیروں کی زینت بنتا گیا ا ورپھر وہ دن بھی آیا کہ شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں کم نصیب ماں اس کے پیروں کو چوم چوم کر روتے ہوئے اسے جگا رہی تھی مگر اس کا نور نظر اور لخت جگر بے ہوش و بےحواس پڑا ہوا تھا ۔ چلتے چلتے وہ اپنی بیوہ ماں کے کمزور بازؤں کے سہارے ہی ایک روز مٹی کے ڈھیر تلے ہمیشہ کے لئے دب گیا۔
یہ کوئی فرضی داستان یا افسانہ نہیں بلکہ کچھ سال پہلے ایک نحیف و نزار بھیک مانگتی ایک خاتون کی حقیقی کہانی ہے۔ اپنے ہی درد میں ڈوبی یہ بھکارن جس کے ہاتھوں میں ہی نہیں اَنگ اَنگ میں غم کی پر چھائیاں ڈیرہ جمائے تھیں اور جسم پر رعشہ طاری تھا ، اس کی سانسیں اسے جینے کے لئے مجبورکر رہی تھیں ورنہ اس کے نشہ باز لخت جگر نے تو اسے کب کا مزار پہنچا کر زندہ درگور کر دیا تھا ۔ نشہ بازی کے انجامِ بد کی یہ حقیقت قبل از وقت سمجھتے ہوئے ملت کے پاک باز شاہین صفت نوجوانو ںکو چاہیے کہ منشیات کی ذِلت سے قطعی طور دور رہیں، اور چوکنا رہیں کہ کہیں کوئی دوست نما دشمن انہیں اس دلدل میں دھکیلنے کے لئے دوستی اور خیر خواہی کا ڈرامہ تو نہیں کر رہا ہے ۔
مولائے کریم جانتا ہے کہ منشیات کے بڑھتے ہوئے طوفان سے حساس دل اور باضمیروالدین اپنے عمر بھر کے سرمایے یعنی اپنی لاڈلے اولادوں کے لئے آج کل کس قدر پریشان ہیں۔ ان نوجوانوں سے دلی التجا ہے کہ خود کو نشہ بازی میں اُلجھا کر اپنے اور اپنے والدین کے حسین خوابوں کو چکنا چور کر نا چھوڑ دیں ، اس اُداس اوراُجاڑ بستی میں اجتماعی ماتم کا ایک اور محاذ نہ کھولیں ، ظلمت کی شکار ہوئی فضامیں اپنی تبا ہی کی سرگزشت خود اپنے ہاتھ نہ لکھیں ، برائی کے دلدل میں جانے والے تمام راستوں پر اپنے ضمیر،اپنے عقل ا ور اپنے دین واخلاق کا پہرہ بٹھادیں۔ نیز ا س کم نصیب قوم کے والدین کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی رہنماؤں ، داعیان ِ دین ، مصلحین اور اہل دانش و ارباب ِ حل وعقد سے دست بستہ عرض ہے کہ منشیات کی اس خوف ناک وبا کے خلاف انہیںاُٹھ کھڑا ہونے کی توفیق کب ملے گی ؟ ؎
دل تمہارے پرسکون ہیں کیونکر
ہائے تمہیں نیند کیسے آتی ہے
ہمارے معصوم بچے موت کے سوداگروں کے بھینٹ چڑھ رہے ہیں ، یہ اپنی جوانیاں برباد کر رہے ہیں اور کوئی نہیں جوانہیں گلے لگائے ،نہ کوئی مسیحا ئی کا کردار نبھانے کے لئے آگے آرہاہے ۔ محض بیانات اور اشتہارات سے معاملہ سنبھلنے والا نہیں ۔ ایک ہمہ گیر’’ منشیات مٹاؤ نوجوان بچاؤ‘‘ پُرامن اصلاحی تحریک کی ہر سطح پر ضرورت ہے ۔ اس آگ کو فوراً بجھایئے، ورنہ کیا پتہ کل کو یہ آگ گھر گھر پھیل کر ا س پیرواری کا سب کچھ بھسم کر کے رکھ دے ۔رب ِکعبہ کی قسم قوم اگراجتماعی طوراس بارے میں حقیقت حال اور اصلاح احوال سے غافل ہوکرخراٹے مارتی رہی تو خدانخواستہ ہم زوا ل کی اَتھاہ گہرائیوں میں گر کر رہیں گے۔ ا س سے قبل کہ وہ منحوس گھڑی آئے ، جاگ جایئے۔ آئیے! ایک نئی صبح کی نوید سننے چلتے ہیں، ایک ایسی صبح جس میں ہر نوجوان کی اخلاقی حس بیدا رہو ، اس کی صلاحیتوں ، قابلیتوں، نیک اوصاف اور دینی اقدار کا بہترین مصرف مقرر ہو ،اس کو نفسیاتی تحفظ ملے ،اس میں تعمیر ہی تعمیر کا جذبہ زندہ وپائندہ رہے ۔اسی میں ہماری دنیا وآخرت کی کامیابی اور روح کی تسکین کا سامان ہے ۔ ع
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں میری بات