معمول کے مطابق وہ آج بھی صبح سویرے نہانے کے لئے گاؤں کی ندی کی طرف نکلا۔ کاندھے پرتولہ لٹکائے، لوٹا ایک ہاتھ میں لئے ، بْرش سے دانتوں کی صفائی کرتے خیالوں کی دنیا میں مست مگن کوئی نغمہ گنگنا رہا تھا۔ منہ میں چونکہ صابن اور برش کا مساج چل رہا تھا جسکی وجہ سے نغمے کی آواز مدھم ہو کر فقط ' ہمم ہمم ' کی آرہی تھی۔ زید سرستی کے اسی عالم میں کب ندی کنارے پہنچا، کب اْس نے کپڑے اْتار کر پانی میں غوطے لگانے بھی شروع کئے اُسے اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ وہ مد مست ہوکر " اے مری زہرا جبیں، تجھے معلوم نہیں۔۔ ہہاں ہاں ہہ ہاں" گنگنا رہا تھاکہ اچانک اُسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے کوئی دوسرا بھی اسکے ساتھ گنگنا رہا ھو۔ یہ احساس دھیرے دھیرے بڑھنے لگا اور پھر اچانک جب اسکی نظر کنارے پر کھڑے وردی پوش پر پڑی یکدم اسکے چہرے کا رنگ اْڑ گیا۔
" یہاں خود آے گا کہ میں لے آوں"
وردی پوش کے تنند لہجے کو بھانپ کر زید فوراً کنارے پہ آکھڑا ہوا اور ہکا بکا وردی پوش کے چہرے کو تکتا رہا
" چل کارڈ دکھا"
زید نے تار پر لٹکے اپنے کپڑوں کی طرف سنسان نگاہ ڈال کر خوفزدہ لہجے میں کہا
"صاحب کارڈ ساتھ نہیں۔۔۔"
زید اس قدر ڈرا ہوا تھا کہ اسکی سانس ہی اٹک گئی۔
وردی پوش نے بنا کچھ کہے وائر لیس سیٹ نکالا اور کسی انجان زبان میں کسی سے بات کرنے لگا۔ زید اسکے بات کرنے کے لہجے کو بھانپ گیا ، شاید کوئی اور مصیبت آن پڑنے والی تھی۔
" چلو ہمارے ساتھ ، صاحب سے بات کرنی ہے"
وردی پوش کا اتنا ہی کہنا تھا کہ ڈر کے مارے زید کی آنکھوں سے آنسوں نکل آے، وہ ہاتھ جوڑ کر جانے کی بھیک مانگنے لگا۔ لیکن اس سب سے بے پرواہ وردی پوش نے اسکا ننگا بازو پکڑا اور کھینچتے ہوئے اپنے ساتھ لے کر تھوڑی دور کھڑی گاڑی میں بٹھا دیا ، گاڑی کے ارد گرد سے سینکڑوں وردی پوش اچانک نمودار ہوکر دوڑتے ہوے اسطرح گاڑی میں چھلانگے مارتے سوار ہوے گویا انھیں جسکی تلاش تھی وہ مل گیا ہو۔ دہشت سے کانپتے زید کو دیکھ کر بیچ میں سے کسی وردی پوش نے فرش پر پڑا کالا پردہ اٹھا کر دور سے ہی اْسکی طرف پھینکا۔ زید کی بغل میں بیٹھے دوسرے وردی پوش نے اٹھا کر اس پردے سے زید کے سر اور چہرے کو ڈھانک دیا۔ زید زوروں سے چیخنے چلانے لگا لیکن اسکی چیخیں پردے کے اندر دب کر رہ گئیں۔ گھر میں اسکی امّی افراد خانہ میں روٹیاں تقسیم کر رہی تھی، زید کے حصّے کی دو روٹیاں اسکے آنے کا انتظار کر رہی تھیں۔ دن رفتہ رفتہ اپنے شباب پر آرہا تھا، موسم گرما کا سورج اور چہچہاتے پرندوں کا شور اپنے جوبن پر تھا۔ زید کے ابّو عبدالسلام باہر برآمدے میں حقہ پینے میں محو تھے کہ اچانک انکو زید کا خیال آیا، فوراً آنگن کی صفائی کرتی حنا کو آواز دی۔
"بیٹا حنا! زید احمد آے کیا؟"
"نہیں ابّو ! کسی دوست کے ساتھ گئے ہونگے، آپ کیوں فکرمند ہورہے ہیں "
عبدالسلام نے ہلکا سا سر ہلایا اور حقے سے دھنواں اڑانے میں محو ہوگئے۔ جیسے حنا کے آخری جملے نے انہیں بے فکر کردیا ہو۔ دن ڈھل رہا تھا ، پیڑ پر لٹکے زید کے کپڑے ہوا کے جھونکوں سے کانٹوں میں پھنسے جارہے تھے، کنارے پر رکھے مگ میں وہ سفید صابن کا پانی گرم ہورہا تھا، زید سے وابستہ ہر شے نے اپنی حالت بدل رہی تھی، لیکن ندی کنارے اسکے ننگے پیروں کے نشاں ابھی باقی تھے۔
شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی،موبائل9596712062