ڈاکٹر عریف جامعی
تعلیم کے بارے میں ہر ایک طالب علم کی افتاد طبع مختلف ہوتی ہے۔ کسی کا لگاؤ پیشہ ورانہ تعلیم کے ساتھ ہوتا ہے تو کوئی تعلیم کی روایتی طرز پر تحصیل کرکے تعلیم و تعلم کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے۔ تاہم تعلیم کے تدریجی درجات (گریجویشن) کی تکمیل تک کئی ایک طلباء اس بات کا فیصلہ نہیں کرپاتے کہ آیا وہ پیشہ ورانہ تعلیم کو گلے لگائیں گے یا پھر تعلیم و تعلم کی عام روایت کے ساتھ منسلک ہوجائیں گے؟ اس الجھن کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اکثر طلباء اپنا تعلیمی ذوق (ایپٹٹیوڈ) پہچان نہیں پاتے اور اپنے فیصلے میں غلطی کے ڈر سے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ یہ ڈر طلبہ کو اس لئے بھی ہلکان کرتا ہے کہ زندگی کے اس موڑ پر ’’غم روز گار‘‘ تمام غموں پر حاوی ہوتا ہے۔
شش و پنج کے انہی لمحات میں پرودرگار عالم کسی طالب علم کے لئے کسی رہبر یا استاد کو کچھ اس طرح بھیجتا ہے کہ نہ صرف اس کی الجھن دور ہوجاتی ہے بلکہ اس کی کچھ اس طرح سے رہنمائی ہوتی ہے کہ یہ لمحہ اس کی زندگی کا اہم ترین موڑ (ٹرننگ پوائنٹ) ثابت ہوتا ہے۔ اس رہنمائی کے بعد طالب علم کا اٹھنے والا پہلا قدم اس کی زندگی کی عمارت کو ایک نئی بنیاد فراہم کرتا ہے اور یہی قدم اس کے لئے سمت سفر کا تعین کرتا ہے۔ اب طالب علم کے مُرجھے ہوئے جذبۂ عمل کو جلا ملتی ہے اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ میدان علم میں جدوجہد کرنے لگتا ہے۔ اس جدوجہد اور کشمکش کا نتیجہ کچھ اس طرح نکلتا ہے کہ طالب علم میں علم کی ہمہ جہت طلب پیدا ہوتی ہے اور وہ راہ علم کا سچا مسافر ثابت ہوتا ہے۔ یعنی طالب علم کے لئے رہبر کی نگاہ کچھ اس طرح کام کرتی ہے:
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زور بازو کا نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
راقم اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتا ہے کہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ہی اپنے ایک قابل قدر استاد کا تعارف ہوا، جو تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر پر بھی ملکہ رکھتے ہیں۔ راقم اگرچہ اس وقت ان کی تقریر سے متاثر ہوئے تھے، لیکن ان کے سامنے زانوئے تلمذ دراز کرنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ میدان تحریر کے شہسوار ہیں۔ تاہم طالب علمی کے دو برسوں میں محسوس ہوا کہ:
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
استاد محترم سے متعارف ہونے کے ساتھ ہی راقم نے تہیہ کرلیا کہ ان کے آستانۂ علم کی نہ صرف زیارت کرنی ہے بلکہ اس کا ’’مجاور‘‘ بھی بننا ہے۔ چند ماہ بعد (دو دہائی قبل) راقم ان کے سامنے دانش گاہ کشمیر کے نسیم باغ میں کچھ اس طرح حاضر ہوا کہ استاد محترم نے راقم کو جماعت میں تعارف دینے کو کہا۔ راقم نے چونکہ ’’لا‘‘ (ایل۔ایل۔بی۔) کے لئے بھی امتحان (انٹرانس) کوالیفائی کیا تھا، اس لئے استاد محترم کا پہلا سوال یہ تھا کہ ’’میں لا (ایل۔ایل۔بی۔) سے الااللہ (اسلامک اسٹڈیز) کی طرف کیسے آیا؟‘‘میرا جواب یہی تھا کہ اپنے شوق کے ساتھ ساتھ انہی کی ترغیب سے میں نے یہ انتخاب کیا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دانش گاہ کشمیر راقم کا شہر آرزو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کے گاؤں دیہات میں اعلی تعلیم کے تصور میں دانش گاہ کشمیر کی تصویر طالب علم کے دماغ میں ابھرنا ایک بدیہی امر ہے۔ تاہم علم کی اس بستی میں نسیم باغ کے چناروں کے گھنے سایے میں سبز رنگ کا علم کا ایک ایسا آستانہ بھی موجود ہے جہاں طلوع سحر کے ساتھ ہی باد صبا نسیم بن کر علم کی خوشبو سے ماحول کو معطر کرتی ہے اور آفتاب غروب ہوتے ہوئے شفق چھوڑ کر آنے والی صبح کے لئے علم کے اس آشیانے پر پھر سے ضیا پاشی کرنے کی نوید چھوڑ جاتا ہے۔
تاہم سبز چناروں کے درمیان سبزے کے مخملی فرش پر سجا ہوا یہ شعبہ (اسلامک اسٹڈیز) کچھ اس طرح سبز رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے ہے کہ ہر آنے والے طالب علم کے تصور میں اسلامی تہذیب و ثقافت آجاتی ،جس میں سبز رنگ کا اپنا ایک مقام ہے۔ اسی ماحول میں بالکل پہلے دن راقم کے ساتھ کچھ ایسا واقعہ پیش آیا جو ایک خاص انداز میں لوح ذہن پر منقش ہوا اور صفحہ قرطاس دل پر تحریر ہوا۔ یعنی اس سبز ماحول میں ’’وہ ‘‘بھی سبز لباس میں ملبوس راقم کے سامنے کچھ اس طرح سے آموجود ہوئے تھے کہ راقم کی ہر تحریر پر سبز رنگ چڑھ گیا۔ واضح رہے کہ راقم کو متاثر کرنے والا یہ صرف ایک رنگ نہیں تھا بلکہ یہ دراصل ’’نزاکت ‘‘اور ’’نفاست‘‘و ’’پاکیزگی ‘‘سے مزین ایک تصویر تھی۔ وہ دراصل آداب و اخلاق کا ایک مجسمہ تھا۔
راقم کے لئے تو پورا شعبہ اسی اخلاق کی تشریح اور توضیح ثابت ہوا۔ اخلاق کا ایک مجسمہ شعبے کے ڈائریکٹر خود تھے۔ ان کا یہ اصول تھا کہ کوئی بھی شخص، مہمان ہو یا ملازم یا پھر طالب علم، ہر کوئی ان کے کمرے میں بغیر روایتی اجازت کے داخل ہوسکتا تھا۔ علم، عالم اور عالم اسلام ان کے پسندیدہ مضامین تھے۔ عربی سے ان کو شغف تھا۔ اکثر کہا کرتے تھے: ’’جس نے بھی عربی میں بات کی، وہ عرب ہے۔‘‘ مادری زبان کے بارے میں کہا کرتے تھے: ’’چونکہ ہماری ماؤں (امہات المؤمنین) کی زبان عربی تھی، اس لئے ہماری مادری زبان عربی ہے۔‘‘ عاجزی اور انکساری سکھانے کے لئے فلسفے کی ایک اصطلاح ’’من کیستم ‘‘کا استعمال تکیہ کلام کے طور پر کرتے تھے۔ اپنی بات طالب علم پر کبھی ٹھونسنے کی کوشش نہیں کرتے۔ غور و فکر اور تدبر و تفکر کے لئے ہمیشہ گنجائش موجود رکھتے۔ اکثر اپنا کلام اس طرح ختم کرتے: ’’گر خلوت ملے، اپنے دل سے پوچھئے۔‘‘ اجتہاد کی اہمیت اور افادیت پر زور دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے کہ ’’روز مرہ کے جدید مسائل میں جس طرح رسول اللہؐ حل پیش فرماتے، اجتہاد اسی پیمانے کی کوشش (جہد، سعی یا کوشش) کا نام ہے۔‘‘ان کے میز پر لگی تختی کے یہ الفاظ ’’غیبت فری زون‘‘ نہ صرف قابل دید ہوا کرتے تھے بلکہ یہ قابل رشک بھی تھے۔
یقین مانیں کہ ہمارے فلسفے کے استاد نسیم باغ کی شان تھے۔ چونکہ فلسفے کے ساتھ ساتھ تقابل ادیان اور قرآنیات ان کے پسندیدہ موضوعات تھے، اس لئے قرآن مقدس پر تفکر و تدبر کے رموز سکھانا ان کا خاص مشغلہ تھا۔ تقابل ادیان کی باریکیوں کو سمجھنے کے لئے ان کے پاس ملکی اور غیر ملکی تشنگان علم آتے جاتے رہتے تھے۔ اگرچہ فلسفے اور مذہب میں الکندی اور الفارابی کی طرح مفاہمت کے قائل تھے، تاہم الغزالی اور ابن تیمیہ کی فکر ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اس لئے امام غزالی کی ’’تہافت الفلاسفہ‘‘ اور امام ابن تیمیہ کی ’’الرد علی المنطقیین‘‘ کے ذریعے مذہب کے دفاع میں دلائل پیش کرتے رہتے تھے۔ حدیث کے ساتھ اتنا شغف تھا کہ طلباء کے سامنے امام غزالی کے بارے میں مشہور واقعہ پیش کرتے رہتے تھے کہ ’’مات الغزالی والبخاری علی صدرہ ‘‘یعنی ’’جب امام غزالی کی وفات ہوئی تو ان کے سینے پر بخاری تھی۔‘‘ چونکہ فلسفے میں بحث کے لئے اصطلاحات کا واضح ہونا بہت ضروری ہے، اس لئے والٹیئر کی اس بات کو اکثر پیش کرتے تھے کہ ’’اگر آپ مجھ سے بحث کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے اپنی اصطلاحات کو واضح کریں۔‘‘اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کہ الفاظ کے سرسری (لفظی، لغوی) معنی علمی فضا کو انتشار کا شکار کرسکتے ہیں، ان الفاظ کو اکثر دہراتے کہ ’’ورڈز کل انٹرپرٹیشنز سیو‘‘ یعنی ’’الفاظ مار ڈالتے ہیں، جبکہ تاویلات محفوظ رکھتی ہیں!‘‘ چونکہ آپ ایک شاعر بھی تھے (بلکہ ہیں)، اس لئے اکثر اس تمنا کا برملا اظہار کرتے تھے کہ ان کی پہچان ایک محب رسول صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نعت گو شاعر کے طور پر ہو۔ آپ کی نعت ’’ہمارے شوق و محبت کی انتہا وہ ذاتؐ‘‘ اس تمنا کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
ہمارے تاریخ کے استاد اس بات کے قائل نہیں تھے کہ تاریخی واقعات کو کہانی کے طور پر سنایا جائے۔ آپ کا واقعات بیان کرنے کا انداز اتنا نرالا تھا کہ طلباء تصورات کی دنیا میں تاریخ کے ہر سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی میدان میں پہنچ جاتے تھے اور تاریخ کے جیسے عینی شاہد بن جاتے تھے۔ معروضی انداز میں تاریخ پڑھانا آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ یہ انداز کسی بھی واقعے سے بے غرض طور پر سبق حاصل کرنا سکھاتا ہے۔ اسی سے تاریخ کے کسی کردار کو بلاوجہ معیوب سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی مطعون کیا جاتا ہے۔ آپ کو چونکہ ترکوں کی تاریخ پر اختصاص حاصل تھا، اس لئے ان کے عروج اور زوال میں چھپے اسرار کو طلباء کے ذہن نشین کرانے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ مطلب یہ کہ آپ تاریخ کو ویسے ہی دیکھتے تھے جیسی کہ وہ وقوع پذیر ہوئی ہے نہ کہ ایسے جیسے قارئین اس کو تعصب کی عینک پہن کر پڑھنا چاہیں۔
فکریات پڑھانے والے ہمارے استاد مختلف النوع مفکرین کو پڑھاتے ہوئے اپنے اوپر اسی طرح کی کیفیت طاری کرتے تھے جس میں وہ مفکرین رہے ہوں۔ فکر شاہ ولی اللہی چونکہ آپ کا خاص مضمون تھا، اس لئے مسلمانان ہند اور بر صغیر پاک و ہند پر اس فکر کے اثرات کو نہایت گیرائی اور گیرائی کے ساتھ پیش کرتے تھے۔ ان کے دروس سے ہم اس حقیقت سے روشناس ہوئے کہ فکر قرآن و حدیث کو خواص و عوام تک پہنچانے میں شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کا کتنا بڑا کردار رہا ہے۔ یہیں سے ہم اس بات سے واقف ہوئے کہ فکر شاہ ولی اللہی کس طرح قرآن، حدیث، فقہ، تصوف اور فلسفے کا امتزاج ہے۔ انہی سے ہم ’’حجت اللہ البالغہ‘‘، ’’البدور البازغہ‘‘، ’’الطاف القدس‘‘، ’’الفوز الکبیر‘‘، وغیرہ جیسی شاہکار تصانیف سے متعارف ہوئے۔
تصوف پڑھانے والے ہمارے استاد نپے تلے تعلیمی منہج کے مطابق شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت کے رموز سکھاتے تھے۔ آپ کا درس تصوف اور فلسفے کا امتزاج ہوا کرتا تھا۔ آپ تصوف کے مدارج کچھ اس طرح ذہن نشین کراتے تھے کہ تصوف ایک نامیاتی اکائی (آرگینک ہول) معلوم ہوتا تھا۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بنیادی نظریات کی جانکاری آپ نے حسن اور خوبی کے ساتھ فراہم کی۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ آپ نے اہل تصوف کی تشریح کچھ اس طرح کی کہ ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ سچے صوفی فقط ’’عباد الرحمٰن‘‘(رحمٰن کے بندے) ہوتے ہیں جن کی صفات کا تذکرہ سورہ الفرقان کے آخری رکوع میں تصریح کے ساتھ کیا گیا ہے۔غرض نسیم باغ علم کی ایک ایسی بستی ہے جہاں علم کے ساتھ ساتھ ادب بھی سکھایا جاتا تھا۔ یعنی وہاں کا استاد معلم ہی نہیں بلکہ مؤدب بھی ہوا کرتا تھا۔ وہاں پر نہ صرف فکر کو جلا ملتی تھی بلکہ عمل میں بھی حسن پیدا ہوتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وہاں فکروعمل کا تزکیہ ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ راقم علم کی اس بستی کو ’’شہر آرزو‘‘(کشمیر یونیورسٹی) ’’دیار شوق‘‘ تصور کرتا ہے۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
9858471965 [email protected]