! نسل نو کی تعلیم و ترتیب اور حسن معاشرت لڑکی تعلیم یافتہ ہوگی تو پورا معاشرہ مستفید ہوگا

مفتی سید معصوم ثاقب

دین اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کی تعلیمات ہر موڑ پر فرد کی تربیت اور معاشرے کے حسن کے اہتمام پر زور دیتی ہیں۔ نبی کریمؐ کی مبارک تعلیمات اور آپ کے کردار سے حسن معاشرت کے عظیم اصول ملتے ہیں۔ حسن معاشرت صرف انسان ہی نہیں بلکہ روئے زمین کے ہر ذی روح کو مطلوب ہے۔ حسن معاشرت کے بغیر بےسکونی، اضطراب، مسلسل تنزلی اور اپنے کریم خالق کی رضا سے دوری بڑھتی جاتی ہے۔ مدارس جو نہ صرف ایک تعلیم گاہ ہیں بلکہ تربیت کی بھی آماج گاہ ہیں۔ بلاشبہ دینی مدارس کا کردار تعمیر معاشرہ میں بہت اہم ہے اور یہاں سے پڑھ کر نکلے والے فارغین ہی اسکو انجام دیتے ہیں، لہٰذا تعلیم و ترتیب کسی بھی قوم و صالح معاشرے کی تشکیل اور ترقی کا ضامن ہے اور تربیت ہی سے در حقیقت ایک صالح معاشرہ تیار ہوتا ہے۔

کسی بھی قوم کا معاشرہ بنانے، بگاڑنے میں بچوں کی تعلیم و تربیت بے حد موثر اور بہت بڑا ذریعہ ہے، بچے میں چند عادات کا بچپنے میں پایا جانا ضروری ہے: (۱) معاشرت (۲) مسابقت (۳) متابعت (۴) خوف ملامت وغیرہ۔

معاشرت:۔کیفیت معاشرت ۔ یہ بچے کے ہمجولیوں کا ماحول ہے، بچہ ہمیشہ خواہش مند رہتا ہے کہ اس کے ماحول میں اسکی کوئی سبکی نہ ہو اور اسکا وزن اپنے ہم جنسوں میں بھاری رہے، اس لئے وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ میری حوصلہ افزائی کی جائے۔

مسابقت :۔کیفیت مسابقت – بچوں کو شوق ہوتا ہے کہ میں اپنے تمام دوستوں میں ہر قابل تعریف کام میں سب سے آگے رہوں، اس شوق میں وہ نئے نئے کام کرتا ہے، نئی تحقیقات کو پسند کرتا ہے، اپنے دوستوں سے زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے، بکثرت سوالات کرنا بھی اسی وجہ سے ہوتا ہے۔

متابعت :۔کیفیت متابعت ۔ بڑوں کی نقل کرنا بچے کی مشہور عادت ہے، اسکو جذبۂ تقلید بھی کہتے ہیں۔ مدرس اور مربی کو اس طرح رہنا چاہئے کہ بچے کیلئے ان کی شخصیت ہر اعتبار سے عملی نمونہ اور قابل اتباع ہو۔ جن اساتذہ میں اعتدال نہیں ہے وہ نفسیاتی امراض میں مبتلاء ہیں، وہ طلبہ پر کوئی اچھا نقش ثبت نہیں کر پاتے، صرف ملازمت کی حد تک ان کی روزی حلال ہو سکتی ہے، مگر قوم کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔

خوفِ ملامت :۔کیفیت خوف ملامت۔ اگر ماحول کی وجہ سے بچہ بے شرم نہیں ہوا ہے تو بچہ کی کردار سازی میں خوف ملامت کا جذ بہ بہت ہی اہمیت رکھتا ہے، بچے فطرۃً بڑوں کو راضی رکھنے اور خوشنودی کے خوگر ہوتے ہیں؛ اس لئے حوصلہ افزائی کر کے ان سے بڑے سے بڑا کام لینا آسان ہوتا ہے اور عموماً بڑے بچوں سے اسی طرح اپنی باتیں منوایا بھی کرتے ہیں، بچوں کو اپنے بزرگوں کی ناراضگی کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے۔ جس طرح بچے تعریف اور انعام کی خواہش میں اچھے کام کرتے ہیں، اسی طرح خوف ملامت سے وہ بری اور کندی خرافات سے باز رہتے ہیں۔ یہ اخلاقی قدریں بڑوں میں بھی پائی جاتی ہیں، مگر ان کو کام میں لانا کچھ آسان نہیں، بر خلاف کمسن بچوں کے جن کی عمر دس برس کے قریب قریب ہے، ان میں اقدار و طبعیات کے ذریعہ بہت بڑا تربیتی انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔

ان امور میں طالب علم کو جب خوشی ہوتی ہے جب کہ اس کے متعلقین میں جو لوگ اس سے واقف ہیں وہ اسکی حوصلہ افزائی اور پذیرائی کریں، اس لئے استاذ کو اسکے تینوں دائروں کو سمجھنا چاہئے یعنی عصبات، ذوی القربات، پسندیدہ تعلقات- تعلیمی ادارے معاشرہ کا بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کے تین میدان جس کا مختلف علوم و فنون میں اہتمام کیا جاتا ہے یعنی وہی تہذیب اخلاق، و تدبیر منزل اور سیاست مدنیہ جس کی ضرورت کا کسی دور میں کسی معاشرہ میں انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کما حقہ تنیوں میں کامیابی کا راز اصلاح ذات پر ہی ہے، تدبیر منزل یا سیاست مدنیہ ہو یا آج کے الفاظ میں معاشرے کی اصلاح ہو، یہ سب نتیجہ ہے اصلاح ذات کا یا کہہ لیجئے کہ اصلاح فرد، اصلاح جماعت اور اصلاح عالم کے لئے شرط یا اس کی تاثیر ہے۔

غیر متعارف ماحول میں طالب علم کے جذبات کو بالکل تسکین نہیں ہوتی، اسی طرح صرف اسے اول قرار دئے جانے سے وقتی خوشی حاصل ہوتی ہے، اس لئے بطور انعام کے کچھ مادی چیزیں بھی اس کے ساتھ ملحق کر دی جائیں تو طالب علم کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور وہ چیزیں اگر ایسی ہوں جو راست اس کے استعمال میں آرہی ہوں تو طالب علم اس پر اپنا مالکانہ حق سمجھنے لگتا ہے اور اس کی پوری نگہداشت کرتا ہے۔ اس لئے تعلیم و تربیت ، مقابلہ جات اور انعامات میں ان کے فطری جذبات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

(١) بچوں کی دلچسپی کے مطابق تعلیم دینا اور طرز ایسا اختیار کرنا کہ بچے خوشی محسوس کریں اپنے کو پابند سمجھنے کے بجائے استاذ کا شریکِ کار تصور کریں، اور یہ سمجھیں کہ استاذ کی رہبری میں فلاں چیز ہم نے اپنی کوشش سے سیکھی ہے۔
(۲) بچوں کے جذبات کو ٹھیس پہونچائے بغیر ان کی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھی جائیں، جذبات سے مثبت فائدے اٹھائے جائیں یعنی ان کو تعلیم کی حسن قبولیت اور حسن تاثیر کے لئے استعمال کیا جائے۔
(۳) مختلف عمر میں بچوں کے جذبات مختلف ہوتے ہیں، اس کی رعایت رکھی جائے۔
(۴) تعلیم کے ساتھ عمل کا اہتمام بھی کرایا جائے مثلاً اخلاقیات کی تعلیم صرف کتابوں میں پڑھانا کافی نہیں، اس پر عمل بھی کرایا جائے اور بچے کو اخلاقی قدروں کا بچپن سے پابند بنایا جائے، ہر کام کے آداب سکھا کر سلیقہ مند بنایا جائے۔

(۵) اسباق کی تیاری، عبارت خوانی اور حل عبارت کی ذمہ داری طلبہ کو دی جائے، استاذ بلا شدید رد و قدح کے ان کی غلطیاں انگیز کر لیں اور پھر بذات خود صحیح حل پیش کریں ، دوران سبق انکی فرو گذاشت اور بھول چوک کی نشاندہی کرتے رہیں۔ اگر سبق کا تعلق مشق سے ہے تو تمرین کیلئے صرف اعادہ کافی نہیں؛ بلکہ الفاظ مکر رسہ کر رکہلا دے یا کوئی خلیفہ متعین کر دے جو ان طلبہ کی مدد کر سکے تا کہ اعادہ سے نقصان کی تلافی کا فائدہ حاصل ہو سکے۔ اس کے بغیر اعادہ و ترقی بے معنی ہے۔
(٦) ہر سبق اپنے اوپر سبق سے کچھ مناسبت رکھتا ہے۔ سب سے بڑی مناسبت یہ ہے کہ دوسرے سبق بلکہ بہت سے اسباق کی بنیاد ہے۔ لہٰذا کمزوری باقی رہتے ہوئے اسباق کی ترقی، نظام تعلیم کی بدخواہی اور طلبہ و مدرسہ کے ساتھ خیانت ہے، جو استاذ کے منصب کے سراسر خلاف ہے۔ اس طرح کرنے سے عملی کار کردگی مجروح ہوگی اور گنہ گار بھی ہوں گے۔
(۷) تعلیم کیلئے جماعت بندی تجربہ سے مفید ثابت ہو چکی ہے اور تمام تعلیمی اداروں میں اس کا رواج بھی ہے ؟ مگر کسی کمزور طالب علم کی رعایت میں جماعت کا نصاب نامکمل رکھنا اچھا نہیں۔ نیز معیاری طلبہ کے اسباق و نصاب بھی معیاری ہونے چاہئیں، برخلاف غبی، سست اور کمزور کے کہ ان کی مقدار خواندگی بھی انھیں کے معیار کی ہوئی چاہئے۔
(۸) درجہ میں ایسے مواقع فراہم کرنا استاذ کی اور اسکول و مدرسہ میں ناظم تعلیمات وصدر مدرسین کی اور معاشرہ و قوم میں عمائدین کی ذمہ داری ہے۔ جہاں طلبہ کی تعلیمی و اخلاقی صلاحیت اجاگر ہو سکے، طلبہ میں اس کا رجحان پیدا کرنا اور شوق دلانا چاہئے کہ درجہ، مکتب، مدرسہ، گھر اور سماج میں تعلیمی مظاہرے کرتے رہیں۔ ہمارا دین تعلیمی اور سماجی ہے تعلیم اور سماج کا گہرا تعلق ہے، اس کو ہمیشہ مد نظر رکھا جائے۔

(۹) تمام ماہرین تعلیم و ماہرین نفسیات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تعلیم کی طرح تعطیل و رخصت بھی تعلیمی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ ہر مکتب، مدرسہ و اسکول میں کچھ دن تعطیلات کے ہوتے ہیں تو کچھ روز صرف تعلیم موقوف کر کے طلبہ کسی مشغلے میں مصروف کر دیا جاتا ہے۔ اس قسم کا جدول اور کن کن ایام میں کیا کیا مواد طلبہ کو فراہم کرنا ہے اور ان سے کیا کیا کام لینا ہے، سب پہلے سے تیار رکھنا چاہئے اور ایسے تمام ایام و مواقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس سے تعلیم وتربیت میں پختگی ہوتی ہے اور ادارے کی نیک نامی اور پذیرائی بھی بڑھ جاتی ہے اور طلبہ کی استعداد و صلاحیت ابھر جاتی ہے۔

طلبہ کی تربیت میں مثبت انداز اپنانا چاہئے اور منفی انداز سے گریز کرنا چاہئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ شاندار تعمیری خدمات وہی لوگ انجام دے سکے جن کا ذہن ہر بات کو مثبت انداز سے سوچنے کا عادی تھا منفی انداز فکر کبھی کبھی تخریب کا باعث ہو جاتا ہے۔

تہذیب الاخلاق :۔تعلیم گاہ اور اس سے متعلق ماحول کا صاف ستھرا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ طلبہ کو بار بار توجہ دلائی جائے اور ادب، سلیقہ سکھایا جائے، ہر موقع کی مسنون دعاؤں کا اہتمام کرائیں، صبح سویرے اٹھنے کی عادت بنائیں، مسواک کا استعمال کریں، بشری تقاضے پیشاب، پیخانہ وغیرہ سے وقت پر فارغ ہو جایا کریں۔ غرض ہر چیز میں صفائی ستھرائی اور سنت طریقہ کو اپنانے کی کوشش کریں، اچھی عادت اپنائیں اور بری عادتوں اور صحبتوں سے بچیں، سلام کرنے اور جواب دینے، اسی طرح اپنا تعارف کرانے میں شرمایا نہ کریں۔ کپڑے پہنے سے پہلے دیکھ لیجئے کہ کہیں پھٹا اور سلائی اکھڑی ہوئی نہ ہو، اپنے کپڑے اور بدن صاف ستھرا رکھئے، کپڑے اگر پھٹے ہوں تو سل کر پہنے، اس کو عیب نہ سمجھئے، اپنا سامان ان کی مقررہ جگہ پر سلیقے سے رکھئے، کپڑے صندوق سے باہر ادھر ادھر نہ رکھیں اور بستر بھی بے ترتیب نہ رکھیں، جو چیز جہاں سے اٹھائیں وہیں رکھیں، دوسری جگہ رکھنے سے دوسروں کو تکلیف ہوگی۔ ٹوپی، رومال وغیرہ صاف رکھیں، گندے نہ رکھیں۔ ناک کی ریزش صاف کرتے رہے، اندر نہ نگلئے یہ بہت گندی اوربُری بات ہے۔ چڈی انڈرویئر ایسی جگہ سکھائیں جہاں لوگوں کی نظر نہ پڑتی ہو۔ پائجامہ پر صرف بنیائن پہن کر مت رہئے، اس سے بے پردگی ہوتی ہے، اگر ضرورت ہو تو لنگی بنیائن پہن سکتے ہیں۔ ساتھیوں کے درمیان ہی کھنکھار کر مت تھو کئے، بلکہ باہر جا کر کھنکھا ریئے اور وہیں تھو گئے۔ استنجا خانہ و بیت الخلاء میں بات نہ کیجئے۔ دروازوں اور دیواروں پر ہرگز کچھ نہ لکھئے۔ بڑوں کی گفتگو کو خاموشی سے سنئے، بیچ بیچ میں نہ بولئے۔ ایسی جگہ نہ بیٹھئے جہاں سے اٹھا دیا جائے۔ راستوں میں ایسی چیز نہ ڈالئے جس سے کسی کو تکلیف ہو، اندر باہر صحن میں جہاں کہیں بھی کا غذ نظر آئے اس کو فوراً اٹھا کر ڈبے میں ڈالدیں، یاد رکھیں کہ کاغذ علم کا ذریعہ ہے، اس کے ادب سے علم میں برکت ہوگی۔ جوتے چپل ترتیب سے رکھیں، کسی کی چپل پر چپل نہ چھوڑیں، اور نہ ہی پیر سے دوسروں کی چپل ہٹا کر اپنے چپل چھوڑیں۔ مجلسوں اور مسجدوں میں شور نہ مچائیں۔ پانی کفایت سے خرچ کریں، اسراف نہ کریں۔ گھر کے باہر گلیوں اور بازاروں میں گھومتے پھرتے کچھ نہ کھایا کریں۔ اپنی اپنی کتابیں بستہ میں ہی رکھیں، اسی طرح قرآن پاک جزدان میں رکھیں۔

خلاصۂ کلام:۔ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی دینی اور اخلاقی تربیت ایک ایسا بنیادی اور حساس موضوع ہے کہ جس کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے نہ صرف اہلِ علم کو بلکہ امت کے کسی باشعور فرد کو انکار نہیں ہوسکتا، بلکہ فتنوں کے ایسے دور میں جب کہ اخلاقیات میں زوال وانحطاط کے نِت نئے ذرائع اور طریقے تیز رفتاری سے ایجاد ہوتے جارہے ہیں، پورا مسلم معاشرہ اس کی زد میں ہے، ایسے نازک وقت میں اپنے ماتحتوں کی اسلامی تربیت کی ذمہ داری یقیناً بڑھ جاتی ہے، مدارس کے طلبہ کے تعلیمی معیار کی بلندی اور ترقی کے لیے عموماً مختلف کوششیں اور طریقے اختیار کیے جاتے ہیں، تاہم ان طلبہ کی اخلاقی تربیت کا نظام مقرر کرنا اور صرف زبانی یا کاغذی نہیں، بلکہ اس کو نافذ العمل کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ امید ہے کہ اہل مدارس اس جانب ضرور توجہ فرمائیں گے۔
918495087865
mdfurqan7865@gmail