رئیس یاسین
زمانہ جتنا آگے بڑھتا جائے گا نوجوانوں کی اہمیت، رول اور حیثیت بھی بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اقوام وملت کو چلانے، نظریات کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہمیشہ نسل نو نے ہی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ نوجوانی کی عمر صلاحیتوں کو پیدا کرنے اور اس میں نکھار پیدا کرنے کی ہوتی ہے۔ اسی عمر میں نوجوان علوم کے مختلف منازل طے کرتا ہے۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت اسامہ بن زیدؓ نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی۔ یہی وہ عمر ہے جس میں حضرت خالد بن ولیدؓنے بارگاہ نبوت سے سیف اللہ کا لقب حاصل کیا۔ دور شباب ہی میں حضرت علیؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت عماربن یاسرؓ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شانہ بشانہ عہد وپیمان باندھا۔ اسی عمر میں ابن تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور امام غزالی جیسے مجدد علوم کی گہرائیوں میں اترے۔ اسی دور شباب میں صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم نے اسلامی تاریخ کو اپنے کارناموں سے منور کیا۔ سید مودودی نے ۲۳ سال کی عمر میں ہی الجہاد فی الاسلام جیسی معرکتہ الآرا کتاب لکھ کر تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔
جبکہ ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو آنے والی نسل کی تباہی روز روشن کی طرح نظر آئے گا۔ سوشل میڈیا اور موبائل کا استعمال چھوٹے چھوٹے بچوں سے ان کی زندگی کی حقیقی خوشیاں چھین چکا ہے۔انٹرنیٹ پر ان گنت حیا سوز ویب سائٹس موجود ہیں جن تک ہر نوجوان کی رسائی باآسانی ہو جاتی ہے۔ گھر سے لے کر کالج تک اور کالج سے لے کر بازارتک بے حیائی پر منبی ماحول کا سامنا ہے۔ اس دجالی فتنہ میں جہاں پر موبائل فون کا استعمال چھوٹے چھوٹے بچے کرتے ہیں۔ اپنے بچے کے ہاتھ میں سماٹ فون دینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ جس سے ہمارے بچے اپنی صحت و صورت کو بھی بگاڑ دیتے ہیں کیونکہ ان کو کھیل گود کے لیے وقت نہیں ملتا ہے بلکہ ان میں بے حیائی اور فحاشی پھیل جاتی ہیں۔ آجکل کے بچے اپنی اسلامی تاریخ سے بہت زیادہ دور ہو چکے ہیں، وہ صرف ان ہی چیزوں میں گم ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں، انکے نظریات باطل پرست ہیں، وہ غیروں کے نقشے قدم پر چلتے ہیں کیونکہ وہ دینی تعلیم سے دور ہو چکے ہیں۔ اس وقت امت مسلمہ کی صورت حال یہ ہے کہ وہ اپنے اہم سرمایہ یعنی اپنی تاریخ سے بالکل ناواقف ہے۔ ملت کے نوجوانوں کو اسلامی فتوحات کا کچھ علم نہیں۔ وہ رسول اللہ ؐکے جانباز ساتھیوں کی زندگیوں سے بے خبرہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ امام غزالی، ابن خلدون، ابن تیمیہ جیسی نامور شخصیات کون تھیں۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ سیر قطب حسن البنا، علامہ اقبال، سید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد نے کیا کیا خدمات انجام دیں۔ دین سے دوری کی وجہ سے آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نوجوان برائیوں، پریشانیوں بے حیائی اور فحاشی اور رذائل ِاخلاق، دیمک کی طرح نوجوانوں کو کھائے جارہے ہیں۔ بچوں کےلئے ابتدائی پرورش گاہ اس کے والدین ہوتے ہیں۔ اسلام نے بچوں کی پرورش ،تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ماں باپ پر عائد کی ہے ۔ ماں باپ کو اس بات کے لیے مکلف ٹھہرایا ہے کہ سات سال سے ہی بچوں کو نماز کی تلقین کریں ۔ بچوں کی تربیت میں ماں کا نمایاں کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ جیسے اقبال کہتا ہے ’’ماوراں را اسوہ کامل بتولؓ‘‘ یعنی ماوں کے لیے کامل اسوہ حضرت فاطمہ زہرا ہے۔ حدیث شریف میں ماں کی حیثیت کو خوب واضح کی گئ ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو‘‘ ۔ اس حدیث شریف میں یہ لطیف اشارہ بھی ہے کہ ہر ماں کی گود ، بچوں کی بنیادی تعلیم و تربیت کا پہلا مدرسہ ہے۔ یقیناً ماں کی گود بچوں کی اولین درس گاہ ہے اور ماں ہی اپنے بچوں کے لیے حقیقی مربی و مرشد ہے ، اور ان کی طرف سے بچوں کو دی جانے والی تعلیم و تربیت کی بڑی اہمیت و افادیت ہے۔ بچوں کے تابناک مستقبل کا دارو مدار ماں کی تربیت پر ہی موقوف ہے ۔ اس لیے ہر ماں کی یہ اہم ترین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے جسمانی نشو و نما کے ساتھ ان کی روحانی و اخلاقی تربیت پر بھی پوری توجہ دے۔ اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار ، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت کا یقین ، محبت و طاعت کا شوق ، قرآن و حدیث کی عظمت و محبت ، نماز ، روزہ اور دوسری عبادات کی رغبت و شوق دلائیں اور ان کا پابند بنائیں، اخلاق و آداب کا خوگر بنائیں ، اسی کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ اُن کے اندر موجزن کرائیں اور تمام بُری اور نقصاندہ چیزوں سے بچوں کو بچائیں۔شاعر مشرق علاقہ اقبال کی یہی آرزوتھی کہ مسلمان نوجوان شاہین بنیں، کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہےجو خود دار اور غیرت مند ہے، دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا ، اپنا آشیانہ خود بناتا ہے، خلوت پسند اور تیزنگاہ ہے۔
(پدگام پورہ،اونتی پورہ۔رابطہ۔7006760695)