شوق کے پنچھی کو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میںسوختہ جاں برصغیر کی ایک مشہورہستی نظر آئی۔۔۔ یہ شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ ہیں۔۔۔ والہانہ محبت النبی میںغرق، اسم محمدؐ سے د ہر میں اُجالے کا متمنی ، مدحت ِمحمدی ؐ میں رطب اللسان، اسوہ ٔ حسنہ کا شیدائی ، رحمتہ اللعالمینی کا خوشہ چین ، اتباعِ رسولؐ پر بصد جان فدا، جمالِ پیغمبرؐ کا مصور ، کمالِ دین کا پیام بر، اُمت کی غفلتوں پر دیدہ ٔ تر۔
علامہ کا منہج ومسلک ِعشق رسول ؐکا اجمالی تعارف ؎
صدقِ خلیل ؑ بھی ہے عشق ، صبر حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق
اقبال کو چہار سُو عشق ہی عشق نظرآتاہے ؎
عشق دم ِجبرئیلؑ ، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رسولؐ ، عشق خدا کاکلام
دو اہم واقعات علامہ اقبال کے اس مسلک ِعشق و وارفتگی پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ یہ سنہ1927ء ہے،اقبال اپنی شہرت و مقبولیت کے نصف النہار پرہیں ، اُن کی اقبال مندیاں عروج پر ہیں ۔ عین اُسی وقت آریہ سماج سے منسلک ایک بددماغ شخص مسمی پنڈت چمو تنی’’رنگیلا رسول‘‘ لکھ کر مسلمانوں کو سخت دل آزاری کر تاہے ۔ حسب ِتوقع ہندوستان بھرمیں اہل ِاسلام اس دریدہ دہنی پر بر افروختہ ہوجاتے ہیں۔ وقت کاجید عالم دین مولانا ثناء اللہ امر تسری اُسی طرح اپنے قلم کو جنبش دے کر’’مقدس رسول ؐ ‘‘ کے نام سے ایک مدلل و مفصل کتاب لکھ د یتے ہیں جیسے مولاناابوالاعلیٰ مودودی شدھی تحریک کے بانی سوامی شر دہا نند کے قتل ہو نے کے پس منظر میں ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ جیسی معر کتہ الآراء تصنیف قلم بند کر کے اسلام کے نظریہ ٔ جہاد کی توضیح وتشریح کر جاتے ہیں۔ لاہور کے علم الدین نامی ایک پر خلوص نوجوان کو اس دریدہ دہنی کا جواب قلم سے نہیں تلوار سے دینے کی سوجھتی ہے ۔اس سے ناموس ِ رسول ؐ کی اہانت برداشت نہ ہوتی اور دل آزار کتاب کے ہندو ناشر راجپال کا کام تمام کر جاتا ہے ۔ اس اقدام کی پاداش میں علم الدین کو عدالت سے صلیب ملتی ہے۔ پر وفیسر یوسف سلیم چستی کی روایت ہے کہ شہید علم الدین کو ان دنوں یاد کر کر کے علامہ اکثر پنجابی میں یہ جملہ دہراتے: اَسی گلاکردے رہے تے تر کھاناں دا منڈابازی لے گیا( یعنی ہم باتیںہی بناتے رہے اورنجار کا لڑکا بازی لے گیا ) ۔ اصل یہ ہے کہ فدا کارانہ عشق ِرسول ؐ میں مستغر ق علامہ کے قلب و نگاہ کودانش ِفرنگ حیرہ کر تی ہی نہیں کیونکہ ان کی آنکھ میں خاک ِ مدینہ ونجف کا سر مہ لگاہے۔ بنا بریںعشق ِ رسولؐ( یعنی ایمان ِ کامل اور حب ِصادق ) ان کا سر مایہ ، مزاج واُفتاد ِ طبع، اوڑھنا بچھونا، متاعِ فقیر اور پیغام و فلسفہ ہے۔ اس حقیقت کی گرہ کشائی ’’اسرار خودی ‘‘ میں یوں فرماتے ہیں ؎
دردلِ مسلم مقام مصطفیٰ ؐ است
آبروئے مازنامِ مصطفیٰؐ است
ماند شب ہا چشمِ او محروم ِنوم
تابہ تخت ِخسروی خوابیدہ قوم
وقتِ ہیجاتیغ او آہن گداز
دیدہ او اشک بار اندر نماز
از کلید ِدیں دردنیا کشاد
ہمچواُو بطنِ اُم گیتی بود
یعنی مسلمان کے دل وجگر میں مقامِ پیغمبر ؐ سب سے اعلیٰ وبالا ہوتا ہے۔ مسلمانوں کی عزت وتکریم صرف آپ ؐ کے نام پاک کے طفیل ہے۔ جب آقائے دوجہاں ؐ کی چشمانِ مازاغ راتوں کو عبادات ِ خداوندی اور غم ِانسانیت میں نیند سے محروم رہیں، تب کہیں جاکر آپ ؐ کی قوم خواب گراں سے جاگ کر ملکوں اور قوموں میں تخت وتاج کی مالک ہوئی۔ دوران ِ جنگ آپ ؐ شمشیر زن ہوتے تو تلوار لوہابھی پگھل جاتا مگر وقت ِنماز بارگاہ ِ ِخداوند میں آپؐ کی مبارک آنکھیں خشیت الہیٰ اور محبت ِخداوندی سے تر بہ تر رہتیں۔ آپؐ نے دنیا کا مقفل دروازہ دین کی کنجی سے کھولااور امر واقع یہ ہے کہ کرہ ٔ ارض پر آپ ؐکا کوئی ہمسر ہے نہ کوئی ثانی ہوا، نہ کبھی ہوگا۔
یہ ۱۹۳۴ء کا ذکر ہے کہ سندھ میں ایک آریہ سماجی عہدیدار نتھو رام نے ’’ ہسٹری آف اسلام‘‘ نامی اپنی واہیات کتاب میں دریدہ دہنی اور گستاخی ٔ رسول ؐ کا دوسرا ناقابل معافی جرم کیا۔ اس دل آزارکتاب سے مسلمان سیخ پاہوئے، انگریز حکمرانوں نے بروقت کتاب کو ضبط کیا اور مصنف پر مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت نے اس دریدہ دہنی پر نتھورام کو معمولی جرمانہ اور ایک سال قید کی سزاسنائی۔ اسی ضمن میں کراچی کی ایک عدالت میں مقدمہ کی کارروائی چل رہی تھی ، مصنف نتھو رام لوگوں سے کچھا کھچ بھرے کمرہ ٔ عدالت میں خودموجود تھا ، دو انگریز جج انصاف کی کرسی پر براجمان تھے ۔ مجمعے میں ایک نوجوان غازی عبدالقیوم ؒنہایت ہی پُر سکون انداز میں وکیلانہ جرح کا سارا گورکھ دھندا دیکھ رہاتھا، وہ جانتا تھا کہ کسی شاتم رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیوی سزا سوائے موت اور کچھ نہیں مگر انگریز سے اس بے لاگ انصاف کی کوئی اُمید نہ تھی ۔ وہ اپنی نشست سے بڑے اطمینان وسکون میں اُٹھا اور اہانت ِرسول ؐ کے مرتکب نتھورام کی گردن پر اپنے تیز دھار چاقو سے دو جان لیوا وار کئے ، مجرم وہیں کا وہیں ڈھیر ہوا۔ اپنا یہ کام پورے ا طمینان سے انجام دینے کے بعد غازی عبدالقیوم کہیں بھاگا نہ اپنے کئے پر ذرہ برابر پچھتاؤے کا اظہار کیا بلکہ بر سر موقع خوشی خوشی پولیس کے سامنے خود سپردگی کی ۔ وہ جانتا تھا کہ اب اس کا انجام کیا ہونے والا ہے۔ اسی اثناء میں انگریز جج نے کرسی سے نیچے آکر غازی سے پوچھا اس شخص کا قتل بھر ی عدالت میںکیوں کیا؟غازی نے کسی زبانی لڑ کھڑاہٹ کے بغیر مسکراکر فاضل جج کو کمرۂ عدالت کی دیوار پر آویزاں شاہ ِ برطانیہ جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یہ تصویر آپ کے بادشاہ کی ہے ، کیاآپ اس شخص کی گردن نہ مروڑو گے جو آپ کے بادشاہ کی توہین کرے ؟ اس مجرم نے میرے آقا وشہنشاہ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی ، یہ اسی سزا کامستحق تھا۔ غازی پر مقدمۂ قتل چلا توا س نے بغیر کسی ادنیٰ پس وپیش کے اعتراف کیا کہ میں نے نتھو رام کا قتل ِعمد کیا ۔ مجازعدالت نے غازی کو سزائے موت دی ۔ سزائے موت کا فیصلہ سن کر غازی نے جج صاحب سے مخاطب ہو کر بآواز بلند کہا: شکریہ جج صاحب کہ مجھے موت کی سز ادی ۔ یہ ایک جان کس گنتی میں ہے، اگر میرے پاس لاکھ جانیں ہوتیں تومیں ناموس ِ رسول ؐ پرانہیں بھی بخوشی نچھاور کرتا ۔
غازی کی سزائے موت پر کراچی کے مسلمان بہت مضطرب ہوئے ۔ا نہوں نے ا یک وفد کی صورت میں لا ہور جاکر اقبال سے بیچ بچاؤ کی اپیل کی کہ آپ اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے وائسرئے سے غازی کی سزا ئے موت عمر قید میں بدل دینے کی سفارش کریں ۔ علامہ نے وفد کی بات سن کر دس بارہ منٹ تک مکمل خاموشی اختیار کی اور گہرے سوچ بچار میں پڑگئے۔ اہل ِ وفد بے تابی سے منتظر تھے کہ اب آپ کیا فرماتے ہیں۔ یہ گویا ایک عاشق ِ رسول صلعم کا معاملہ دوسرے عاشق ِ رسول صلعم کے زیر سماعت آیا تھا۔ علامہ نے سکوت ِ لب توڑ کر وفد سے پوچھا : کیا عبدالقیوم کمزور پڑا ہے ؟ جواب ملا : قطعی نہیں ، اس نے ہر بار عدالت میں اعتراف کیا کہ میں نے دیدہ ودانستہ قتل کا ارتکاب کیا۔ غازی نے نہ بیان بدلا ، نہ اپنے اقدام کے دفاع میں زبان میں کوئی لکنت آئی۔ وہ تو کہتا ہے میں نے کھلے خزانے سے شہادت خر یدی ہے ، مجھے تختہ ٔدار سے بچانے کی کوشش مت کرو۔یہ با تیںسن کر علامہ کے چہرے پر بشاشت آئی اور بگڑتے ہوئے اہل وفد سے کہا: جب وہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے، تو میں اس کے اَجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں؟ کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لئے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ،مرگیا تو شہید ؎
صحبتِ پیر روم نے مجھ پہ کیا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربہ جیب،ا یک کلیم سر بکف
ایک اور پہلو سے اقبال کے عشق رسول صلی ا للہ علیہ وسلم کی داد دیجئے۔حکیم احمد شجاع کا علامہ کے ساتھ کافی نیاز مندانہ تعلق تھا، وہ ان کے پاس باقاعدگی کے ساتھ آتے جاتے۔ایک روز حکیم صاحب اقبال کی خدمت میں پہنچے ، تو خلاف ِ معمول علامہ کو مغموم اور مضطرب پایا ۔ پوچھا :خیریت ہے ، آپ اتنے پر یشان کیوں؟ علامہ نے رقت آمیز آواز میں کہا:احمد شجاع یہ سوچ کر میں اکثرمضطرب اور پر یشان ہو جاتاہوں کہ کہیں میری عمررسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عمر سے زیادہ نہ ہوجائے ۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کریم ؐ کے انوار وتجلیات سے مستفیض علامہ کی اس دلی آرزو کی لاج رکھی، چنانچہ جب۱۹۳۸ء میں آپ کا انتقال پُر ملال ہواتو اس وقت پچیس ہزار اشعار کہنے والے ا س عاشق رسولؐ کی عمر آقائے نامدار صلعم کی سن ِ شریف سے دوسال کم تھی ۔
اپنے دوست سر اکبر حیدری کے نام خط میں لکھتے ہیں: ’’ایک ہی خواہش جو ہنوز میرے جی میںخلش پیدا کر تی ہے، یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہوسکے تو حج کے لئے مکہ جاؤںاور وہاں سے اس ہستیؐ کی تر بت (مبارک) پر حاضری دوں جس کا ذات ِ الہٰی سے بے پایاں شغف میرے لئے وجۂ تسکین اور سر چشمہ ٔ الہام رہاہے ۔۔۔ میرا ذرہ ذرہ آنحضور ؐ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے اور میری روح ایک ایسے بھر پور اظہارکی طالب ہے جوصرف آنحضورؐکے روضہ ٔ مقدس پر ہی ممکن ہے ۔ اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میرا حج اظہار تشکر کی ایک شکل ہوگی ‘‘۔ ایک اور مکتوب عبداللہ چغتائی کے نام اپنے مکوتب میں رقم طراز ہیں:’’ بحیثیت مجموعی ایک دائم ا لمریض کی زندگی بسر کرہاہوں ۔۔۔اگر توفیق الہٰی شامل حال رہی تو زیادہ سے زیادہ مکہ ہوتا ہوا مد ینہ تک پہنچ سکوں ۔ اب مجھ ایسے گناہ گار کے لئے آستان ِ رسالتؐ کے سوااور کہاں جائے پناہ ہے‘‘ ۔ مصاحبین ِ اقبال کا کہنا ہے کہ جوں جوں اُن کی عمر بڑھتی گئی ، اسی مناسبت سے نبی ٔ اکرم صلی ا للہ علیہ و سلم کے ساتھ موصوف کی محبت واُلفتِ رسول ؐ میں یک گونہ اضافہ ہو ا، دیدارِ مکہ و مدینہ کی آرزو بھی بڑھتی رہی۔ اخیر عمر میں جب کبھی آپ ؐ کا پاک ذکر مجلس میں چھڑ جاتا تو یکایک نم دیدہ ہو جاتے، اشک بار ی اور آہ وازاری کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا ، ساتھ ہی ساتھ اپنی کم مائیگی کا احساس خدا کے حضور یہ کہلواتا ؎
مکن رُسوا حضور خواجہؐ مارا
حسابِ من زچشم او نہاں گیر
عشق رسولؐ کی اس عاشقانہ وعارفانہ تپش نے علامہ اقبال کے کلام میں معنویت کا بحر بیکراں ہی نہ بھر دیا بلکہ سوز وساز،تب وتاب اور جاذبیت و کشش کی روح بھی پھونک دی ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ان کا شعروکلام بھی محض قافیہ ردیف کے حصار میں بند اوہام وتخیلات کا ایک مجموعہ ہوتا جس کا نظام ِ خداوندی اور حیاتِ پارسائی سے ایسا ہمہ گیرواسطہ نہ ہوتا کہ یہ ایک قوم کی تاریخ اور جغرافیہ بدل کے رکھتا، نہ یہ کلام مسلسل منبرومحراب اور درس وتدریس کی زنیت بنتا۔
شوق کے پنچھی نے محمدالر سول اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم کے اورایک کے دامن گرفتہ شخصیت کی کھوج کرید کی۔ یہ قائد اعظم محمد علی جناح ہیں ۔ سوٹ بوٹ ٹائی پہننے و الے، برطانوی دانش کدے کے پروردہ ، آزاد خیالی کے دلداہ قائد کوئی مذہبی عالم تھے نہ کوئی دینی شخصیت مگر یہ ان کے تحت الشعور اور شعور میں پیغمبراسلامؐ کے ساتھ دلی نسبت ومحبت کا شاخسانہ تھا جس نے انہیں انگلینڈ میں کوانن آف کورٹ کے بجائے لنکس اِن لندن میں داخلہ پانے کی ترغیب دلائی۔ کراچی بارایسوسی ایشن سے ۱۹۴۷ء میںاپنے خطاب میں انہوں نے فخراً انکشاف کیا کہ میں نے اس وجہ سے مذکورہ ادارے میں داخلہ لیا کیوں کہ یہاں کے صدر دروازے پر دنیا کو قانون دینے والے جن نامور ہستیوں کانام کندہ تھا ،اُن میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) بھی شامل تھے( jinnah,the creator of Pakistan by hector bolitho . page9)
کتاب کا انگریز مصنف خیال کرتاہے شاید جناح صاحب کے ذہن میںجی ایف و اٹس کی آبی پینٹنگ بعنوان’’قانون دہندگانِ عالم‘‘ ہو۔ بہر کیف جواں سال محمد علی کا دیگر لاء کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کے لئے اس خاص ادارے کو فوقیت دینا وہ بھی صرف اس بنیاد پر کہ ادارے کے صدر دروازے پر اسم مبارکؐ کندہ تھا، یہ بات اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ ان کا دل حضورپرُنور ؐ کی محبت و تقدیس کی جلوہ گاہ تھی ۔ بہر صورت عشق رسول ؐ کی گرمیاں ہمیں مکہ معظمہ کی بے سر وسامانی میں بھی ملتی ہیں ، اس کی سرمستیاں ہمیں مدینہ منورہ کی بادشاہی میں بھی نظر آتی ہیں ۔ اسلام عشق کی اس غیر مختتم دولت سے ماضی میں تہی دامن ہو ا نہ حال میں ہے۔ یہ اسی عشق ومحبت ِرسولؐ کا ماحصل ہے کہ اسلام عالم کفر کی تمام ریشہ دوانیوں کے باوجوداب بھی زندہو پائندہ ہے ۔ تاریخ کہتی ہے کہ ایک صحابی جن کا سینہ حُب ِرسول ؐ کا مسکن تھا، اُن کی بصارت سلب ہوئی۔ لوگ خبر پُرسی کے لئے آتے تو فرماتے یہ آنکھیں اس لئے عزیز تھیں کہ ان سے زیارت ِ رسول ؐ کیا کرتا۔ پھرجب آپ ؐ کا وصال ہو ا تو فرمایا کہ اگر میری جگہ ہر نیاں اندھی ہوجائیں اور میری بینائی بحال ہو، تب بھی مجھے پسند نہیں،اب آنکھوں کے جانے کا کوئی غم نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت حذیفہ ؓ اہل ِ فارس کے بڑی شخصیات کے ہم طعام تھے۔ اتفاقاً ایک لقمہ ہاتھ سے زمین پر آگرا ،آپ ؓ نے اسے اُٹھایا ، صاف کیا اور تناول فرمایا۔ بعض خادموں نے کن سوئی کی: جناب !یہ متکبر کفار اسی بات کو حقیر سمجھتے ہیں۔ آپ ؓ نے بلند آواز میں فرمایا: کیا میں ان احمقوں کی وجہ سے اپنے پیارے نبیؐ کی سنت کو چھوڑدوں؟ کیوں کہ حدیث میں آیا ہے کہ اگر زمین پر کوئی کھانے کی چیز گرجائے تواس کو اُٹھاکر کھالینا سنت ہے ۔ ایک مر تبہ آپ ؐ نے سینگیاں لگوائیں جو خون انہوں نے چوس کر نکالا، اسے عبداللہ بن زبیر ؓ کو کہیں دبانے کے لئے دیا، وہ گئے اورواپس آکر عرض کیا کہ دبا دیا ۔ آپ ؐ نے پوچھا کہاں؟ حضر ت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا میں نے پی لیا۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا جس کے بدن میں میراخون جائے گا اس کو جہنم کی آگ نہیں چھو سکتی۔ یہ عشقِ رسول ؐ کی وہ حیات آفرین کیفیتیں ہیں جن کی کہیں اور نظر نہیں ملتی۔
بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں۔ انشاء اللہ