عشق ِپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم میں نفس کے لوہے کو عبادت ، اخلاق، عمل، زہد وتقویٰ، توکل ، صبر واستقامت اور انفاق فی سبیل اللہ سے موم کر نے والے محمد بن ادریس الشافعیؒ کی ابتدائی زندگی عسرت وتنگ دستی میں گزری۔ لوگ پوچھتے یہ کیا حالت ہے ؟فرماتے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا: ’’دنیا میں اس طرح زندگی بسر کرو جیسے ایک غریب شخص یا مسافر ہواور خود کو یہ سمجھتے رہو کہ ایک روز قبر میں جانا ہے‘‘۔ اس حدیث پر غور کریئے تو دنیوی لذات ومکروہات کی خواہش خود ہی جاتی رہتی ہے ، لیکن جب اللہ نے امام شافعیؒ کو دولت ِ دنیا عطاکی تو اپنا مال وزر غریبوں اور محتاجوں پر بے دریغ خرچ کر تے کر تے بہ صد مشکل اپنے مصارف کے لئے ایک چوتھائی چھوڑتے۔ ایک موقع پروقت کے اکابر علماء نے پوچھا حضرت اوروں پر اس قدر کیوں خرچ فرماتے ہیں؟ جواب دیا ہم اتباع ِ سنت کر تے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ نے اپنے اہل و عیال کے واسطے کیا چھوڑا تھا، وہ بھی آپ کو یاد ہے ؟ جب آں حضور ؐ نے آپ ؓ سے پوچھا گھر میں کیا رکھا تو صدیق اکبرؓ نے عرض کیا اللہ کانام ا ور رسول اللہ ؐکا نام۔ اُنؓ کی ذات گرامی میں اور بھی صفات تھیں جنس سے اہل ِحقیقت ا ور اہل ِدل نے تمسک کیا ہے ۔ اب تم بتاؤ کہ یہ چوتھائی حصہ بھی میں نے کیوں رکھا ؟ میں شر م سار ہوں ، روز قیامت سے ڈر رہاہوںکہ کہیں اس قدر دولت سے مزے لینا اللہ کے روبرو اس کی وجہ ٔ ناراضی نہ بنے۔ اللہ مال وزر اس لئے دیتا ہے کہ ا س سے مخلوقِ خدا کو نفع پہنچایا جائے۔اگر میں اس مال ومتاع سے خود فائدہ اٹھانے لگوں توروز ِ حشر جب محمد الرسول اللہ ؐ شفیع بن کر کھڑے ہوں گے ، میرا کیا حشر ہوگا ؟ یہ فرماکر مام الشافعی ؒ زاروقطار رودئے ۔ بالفاظ دیگر آپ حضرت شاہ ِ ہمدانؒ کے اس مصرع کی عملی تفسیر تھے ع
اے گرفتارانِ عشقت فارغ از مال ومنال
عشق رسول ؐ میں مستغرق امام دارالہجرہ سے ملقب امام مالک ؒ یمنی الاصل تھے مگر اسلاف نے مدینہ منورہ کو مسکن ِشوق بنایا تھا۔ امام مالکؒ نے اسی باغ وبہار میں آنکھ کھولی ، پرورش پائی ، ہوش سنبھالا ،علم کی تشنگی اسی معدن ِ علمی اور مرکزعشق سے بجھائی ۔ مدینہ کی فضاؤں سے دلی محبت کا یہ حال تھا کہ بجز حج کبھی مدینے سے قدم باہر نہ رکھا مبادا کسی اور سرزمین پر اللہ کا بلا وا نہ آئے اور اس عظیم ترین شہر کی مٹی اور ہمسائیگی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم نہ ہونا پڑے۔ اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ طلب ِعلم کی راہ میں امام مالکؒ نے سختیاں نہیں جھیلیں، مشکلات نہ ا ُٹھائیں، تکلیفیں برداشت نہ کیں، نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ روایات میں آیا ہے کہ ابن عمر ؓ کے خادم نافع ؒسے امام مالک ؒ کے لئے علم حدیث سیکھنے کی بابت ٹھیک دوپہر کاوقت مقرر تھا ،اور آپ دوپہر کی چلچلاتی دھوپ میں بلا سایہ شہر سے باہر بقیع میں بارہ سال آتے جاتے رہے جہاں اُن کا مسکن تھا۔ مدینہ کے ایک فقیہ ابن ہر مزؒ کے یہاں درس و تعلیم کے لئے صبح حاضر ہو نا پڑتا اور رات کو ر خصت لیتے۔ امام صاحب کی مجلس ِدرس ہمیشہ پُر تکلف قالینوں اور بیش قیمت فرش سے آراستہ رہتی ۔ جب املائے احادیث کے لئے مجلس میں رونق افزو ہوتے تو پہلے وضو یا غسل فرماتے، نئی پوشاک زیب تن کرتے، بالوں میں کنگھی کر تے، خوشبو لگاتے۔ شرکائے مجلس مودب بیٹھے رہتے ، امام ابوحنیفہؒ جب بھی اس مجلس میں بہ نفس نفیس بیٹھتے ،پوری مجلس میں ہمیشہ ایک مقدس سکوت چھا یا رہتا، حد یہ کہ امام شافعی ؒفرماتے کہ ہم ا ُس وقت کتاب کا ورق بھی نہ اُلٹتے کہ گھڑگھڑاہٹ کی آواز سے سُوئے ادب نہ ہو ۔بر سر موقع مجمع میں عود ولوبان جلایا جاتا اور شرکائے مجلس کے آرام کیلئے پنکھے جھلائے جاتے ۔ امام مالک ؒ مسجد نبویؐ یا مجلس ِدرس سے باہر حدیث کا املا ء نہیں کراتے۔ خلیفہ مہدی اور ہارون نے قصر خلافت میں املائے حدیث کی گزارش کی ، امام ؒنے صریحاً انکار کر دیا۔ طلاق کے حوالے سے ایک مسئلے پر والی ٔ مدینہ جعفربن سلیمان عباسی جو خلیفہ منصور کا چچا زاد بھائی تھا ، نے امامؒ کو حکم دیا کہ یہ فتویٰ نہ دیں ، امام نے علی الاعلان عاشقانہ دفاعِ اسلام میں کوڑوں کی سزا گوار کی مگر اپنے فتوے سے سرموانحراف نہ کیا ۔ اگر کسی مسئلہ کی بابت اپنے علم اور معلومات پر ثقہ وثوق نہ ہوتا تو لاادری( میں نہیں جانتا) کہہ کر اپنا ایمان بچانے میں کوئی پس وپیش نہ کر تے، اگر کسی مسئلے میں بشریت کے تحت اجتہاد ی تسامح ہونے کا احتمال پاتے یا کوئی صاحب ِ علم بہ دلائل اصلاح کر دیتا تو پوری کسر نفسی سے اپنی رائے سے رجوع کرتے۔ یہ اہتمام ِ شوق اور ادئے دلبرانہ محبت النبیؐ کے سوا کچھ نہ تھا ۔ امام مالکؒ حبِ رسولؐ میں ہمہ وقت غرق رہتے، کہا جاتا ہے جب کبھی اسم مبارک ؐ زبان پر آتا تو چہرے کا رنگ احتراماًمتغیر ہوجا تا ۔ آپ ؒکے اصطبل میںبہت سارے گھوڑے اور خچر تھے مگر کبھی ا ن پر مد ینہ کی گلیوں میں سوار نہ ہوئے ، لوگوں نے سبب دریافت کیاتو بتا یا مجھے شرم آتی ہے کہ جو سر زمین نبی ؐ کے قدم مبارک سے سرفراز ہوئی، اسے میں جانوروں کے سُموں اور ٹاپوں سے روندوں۔ امام صاحب کو اُس بلی تک سے خاص اُنسیت و الفت تھی جو روضۂ مطہرہ کے ارد گر چکر لگاتی ۔ یہ ذات نبوی ؐ سے محبت واحترام اور تبلیغ ِ دین میں انہماک کی قبولیت کا مظہر ہی تھا کہ کوئی شب ایسی نہ گزری جب آپ کو رویائے صادقہ میںدیدارِ رسول ؐ نصیب نہ ہوا۔صاحب لولاکؐ سے والہانہ عشق رواں رواں میں رچا بسا تھا کہ اسی زر فشاں مٹی میں آسودہ ہوجانے کی آرزو میں ہمیشہ تڑپتے رہے ۔ خلیفہ منصور نے بغداد کاسفر کرنے کی التماس کی مگر یہ نہ مانے، اس کے جانشین خلیفہ مہدی نے تین ہزار دینار زاد ِراہ بھیجے تاکہ امام ایک باربغداد چلے آئیں۔ امام مالک نے جواب بھیجا اشرفیاں رکھی ہیں،انہیں لے جاؤمگر مالک سے مدینہ چھوٹ نہیں سکتا ۔ا مام صاحب نے چھیاسی سال کی عمر میں ۱۷۹ھ میں مدینہ پاک میں ہی وصال فرمایا تو اپنی عمر بھر کی آرزو کے عین مطابق جنت البقیع میں سپرد خاک ہوئے ۔
شوق کا پنچھی پیغمبر کریم صلی ا للہ علیہ وسلم کی جائے پیدا ئش (موسوم بہ مکتبتہ المکہ) کے احاطے میں تاجِ اسلام کے ان زبر جدوں کی عاشقانہ وعارفانہ عزیمتیں ایک ایک کر کے یاد کرتا رہا جو محبت النبی ؐ کی راہ میں شہید اول حارث بن ابی ہالہ ؓ سے شرو ع ہوکر یاسر بن عمارؓ، سمیہ ؓ ، شہیدان ِبدرو احد ، شہدائے کربلاو شہدائے بالا کوٹ،علمائے صادق پور ، اسیرانِ کالا پانی کی لازوال قربانیوں اور ایمان افروز ثابت قدمیوں تک اسلام کے گل سر سبد کو تازگی عطا کر گئیں اور کرر ہی ہیں ۔ا سلام کی حسین وجمیل عمارت میں ایمانیات کو بنیادی پتھر کی حیثیت حاصل ہے ، اس کی چھت تزکیہ نفس ہے لیکن اس کی زینت ورونق اسوۂ حسنہ سے عشق وعاشقی ہے ۔ اس کے بغیر یہ تار ِ عنکبوت بھی نہیں۔ اہل دل کے نزدیک جہاں طہارت ِقلب اور صفائی باطن کا تخم ریزی ہو وہاں لازماً عشق رسول ؐ کا ثمرہ حب ِانسانیت ، صداقت پسند ،دیانت اورامانت داری کی صورت میںہوگا۔ عشق ِرسولؐ کی اساس پر ہی کامل مومنانہ زندگی اور فقر ودرویشی کی تعمیر وتزئین مشروط ہے ۔ بدقسمتی سے اس دور ِ فتن میں بعض حلقے اسلام کی ان اساسوں کو نظر انداز کر کے بلکہ اگر یہ کہنا نا گوار نہ گزرے ،ان اساسی عقائدسے دانستہ یا نادانستہ طور منحرف ہو کر لالچ ، مفادات اور مراعات میں لپٹے تصوف کے نام پر اپنا گورکھ دھنداچلارہے ہیں ۔ یہ لوگ خلافِ شریعت اعمال ، ترک ِ دنیا اور ہمچو قسم کی برائیاں مذہب کے لبادے میں پیش کر کے اسلام کے ماتھے کا کلنک بن رہے ہیں ۔ مقام ِ شکر ہے کہ ائمہ تصوف نے صراحتاً تصوف کے زر خالص کو ایسی تمام ملاوٹوں سے بچانے کی سعی ٔ مشکور کی ہوئی ہے اور موٹے طور بتایا ہے کہ تصوف فنا فی ا لاسلام ہو نے کامیدانِ عمل ہے۔ حضرت شیخ علی الہجویریؒ حقیقی صوفی کا تعارف ان الفاظ میں فرماتے ہیں: رسول اکرم ؐ نے فرمایا’’دنیا کی صفائی جاتی رہی اور اس کی کدورت باقی رہ گئی‘‘۔ اور ظاہر ہے کہ لطیف اور صاف چیز اور میلی ومکدر چیز علاحدہ علا حدہ ہے ۔اب یہ امرظاہر اور واضح ہے کہ اہل تصوف نے اپنے تمام معاملات ِاخلاقی، معاشی، معادی، ملّی مہذب کر لئے اور اپنا دل کدورت ِ آفاق سے صاف کر لیا ،اس لئے انہیں صوفی کہا گیا ( ملاحظہ ہو ’’ کشف المحجوب‘‘)۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اس مضمون پر یوں روشنی ڈالتے ہیں : یہ راستہ اس شخص کے لئے ہے جو قرآن کریم کو داہنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے اور محمد ِمصطفیٰ صلی ا للہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کو بائیں ہاتھ میں مضبوطی سے تھامے اور ان دونوں شمعوں کی روشنی میں راہ ِ حیات طے کرے تاکہ بے یقینی کے خار زار میں اُلجھ کر نہ رہ جائے اور نہ بدعت کی تاریکی میں بھٹکے۔۔۔ صوفی وہ ہے کہ جس کا دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کے مانند دنیا کی محبت سے محفوظ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرے۔اس کی سپردگی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح ہو۔اس کاحزن و ملال حضرت داؤد علیہ السلام جیسا ہو۔اس کا فقر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ہو۔ اس کا صبر حضرت ایوب علیہ السلام کے صبر کی طرح ہو۔اس کا جذبہ ٔ شوق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شوق کی مانند ہواور دعا کرتے وقت اس کا اخلاص محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبع میں خاص ہو ۔ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی علیہ رحمہ فرماتے ہیں: صوفیائے کرام ؒمسلمانوں کی وہ جماعت ہے جو ( بعداز صحابہ ؓ ، تابعین وتبع تابعینؒ )اتباع ِرسول ؐ میں سب سے زیادہ کامیاب ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے آپ ؐ کے فرمودات کی مکمل پیروی کی ہے۔آپؐ نے جس بات کا حکم دیا انہوں نے اس کی تعمیل کی اور جس بات سے روکا،اس سے باز رہے۔۔۔ یہ صوفیہ کرام ؒ ہیں جنہوں نے رسول اکرم ؐ کی سنت کو زندہ کیاکیونکہ انہوں نے اپنے ابتدائی زمانے میں آپؐ کے اقوالِ مبارکہ پر عمل کیا اور اپنی روحانی زندگی کے وسطی حصے میں آپ ؐ کے اعمال کی اقتداء کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر کار ان میں اخلاق ِ نبویؐ اچھی طرح راسخ ہوگئے۔ لہٰذا اخلاق کی اصلاح ا س وقت ہوتی ہے جب تزکیہ نفس ہو اور نفس کا تزکیہ اس وقت ہوتا ہے جب شریعت کی قیادت تسلیم کی جائے( ملاحظہ ہو’’عوارف المعارف‘‘)
ا س دورِتعذیب میں افراط وتفریط کے شکار بعض حلقے عشق ِ رسول ؐ کے معانی ومفہومات کی من مانی تعبیرات کر کے اسے قرآن و سنت سے الگ کر نے میں لگے ہیں ، بعضے آزاد خیالی اور مغرب زدگی کی ابلیسیت میں بہک کر ایسی دریدہ دہنی پر اُتر آتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر قربِ قیامت کا یقین ہوجاتاہے۔ بلاشبہ یہ مسلم دنیاپر چھائی مر دنی ، بے حسی اوربے حمیتی کا ہی شاخسانہ کہ ہند میں ایک جانب مسلمانوں کا جینا حرام کیا جارہاہے ، دوسری جانب اسلام کو بدنام کیا جارہاہے ،تیسری جانب مسلم پرسنل لاء کے پیچھے پڑکر مسلمانوں کے ملّی تشخص کے ساتھ دست اندازیاں کر نے کے لئے پرتولے جارہے ہیں ، جب کہ پاکستان میں بھی دشمنان ِ دین کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں ۔ گمراہی کی حد دیکھئے کہ وہاں ارباب ِ اقتدار اور نام نہاد آزادخیال لوگ ہمیشہ کوئی افسوس ناک واقعہ رونما ہوتے ہی گز بھر زبانوں سے اہانت رسولؐ کے قانون کے پیچھے پڑتے ہیں ، انہیں شاتمانِ رسولؐ کو قانون کے شکنجے میں کسنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔ بالفاظ دیگر یہ حضرات انسدادِ بدعنوانی قانون کو کوس رہے ہوتے ہیں جب کہ اپنی’’ کشادہ ذہنی‘‘ کے ثبوت میں بدعنوان عناصر کی بلائیاں لیتے ہیں ۔ یہ حال دیکھ کر اگر غم و غصہ میں بے قابو عوام ’’ہجوم کا قانون‘‘ نافذ کر بیٹھیں تو خطا کس کے سر؟
تاریخ گواہ ہے کہ محمد عربی ؐ کی ذاتِ اقدس سے لافانی عشق کا حق اداکرنے والے جیالوں نے عزیمت کی دنیا آباد کر نے کے ساتھ ساتھ علم وآگہی کی تابندہ مشعلیں بھی فروزاں کیں۔یہ مسلمان تھے جنہوں نے مختلف علوم کے بحر زُخار میں ڈبکیاں مارکر انسانی دنیا کے قدموں میںایسے ایسے انمول موتی ڈال دئے کہ تاریخ ملت کے سر اخلاقی ترقیات کے بین بین سائنسی ایجادات کے حوالے سے دستارِ فضیلت باندھنے میں فخر محسوس کر تی ہے۔ پیغمبر اسلام ؐنے ہمیںدنیا کے حسنہ ا ور آخرت کے حسنہ کا مجموعہ سنبھالنے کی حکمت عملی سکھائی ۔ جب مسلمانوں نے اسلام کے سرچشمہ ٔ حیات سے اپنی روح کی پیا س بجھائی تو اسی نور کی رہنمائی میں علم ِنافع کی تشنگی بھی ان کے حصے میں آگئی۔ انہوں نے مکہ ومدینہ کی روشنیوں سے منور ہو کر یونان و روما کے علمی خزانوں کو کھنگال ڈالا، جن علوم وفنون پرمر دنی چھائی تھی انہیں اپنی مسیحا نفسی سے زندہ کیا ، علوم وفنون کی نئی سرحدیںدریافت کر لیں۔ جوں جوں مسلمان تہذیب وترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھتے رہے، علم وفن کو بھی اسی مناسبت سے بڑھا واملتا رہا ۔ مسلم اُمت کا یہ لاثانی احسان دنیا فراموش کر گئی کیونکہ ہم نے من حیث المجموع دنیا میں علم و آگہی کا وہ چراغاں کر نے سے ہاتھ کھینچ لیا جو عشق رسولؐ کا خاصا ہے اور جس کے توسط سے ہی مسلمانوں کو عروج وترقی کی بشارت ملتی ہے۔
مکتبۃ المکہ کے صدر روازے کے بائیں جانب ایک چھوٹے سے سٹال پر مختلف زبانوں میں اسلامی موضوعات پرکتابچے اور سی ڈیززائرین میں مفت تقسیم کئے جاتے ہیں ۔ میں نے بھی بعض کتابچے یہاں سے بلا معاوضہ حاصل کئے۔ ’’ا دارہ ٔ امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘کے زیر اہتمام شائع ان مطبوعات میں ایک فولڈر’’کتب خانہ مکہ مکر مہ ‘‘ کے زیر عنوان ہے جس میںاس مقدس جگہ کے بارے میں بالاختصار بعض اہم معلومات درج ہیں ۔ لکھا ہے: یہ کتب خانہ شعب ابی طالب کے آغاز میں مسعیٰ(صفا ومروہ کے مابین سعی کی جگہ ) کے مشرق کی جانب واقع ہے۔ اسے شیخ عباس قحطان نے سن ۱۹۵۰ء( ۱۳۷۰ھ ) میں بنایا تھا۔اس کی سرپرستی وزارتِ شئون اسلامیہ کے ذمے ہے۔ا س میں بہت سی کتب، مخطوطات اور تاریخی نوادرات ہیں۔ یہ دومنزلہ عمارت ہے جس کی کھڑکیاں لکڑی اور رنگ کلیجی ہے جو آغاز ہی سے مکہ کی عمارات کا معروف رنگ رہاہے۔ بعض مولفین ذکر کر تے ہیں کہ اس کتب خانے کی جگہ نبی ؐ کا گھر تھا جس میں آپ ؐ کی ولادت ہوئی۔ جب نبی صلی ا للہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے توعقیلؓ بن ابو طالب نے اسے اپنے قبضے میں لیا۔
) بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ(