حج ڈائری
شکر ہے روئے زمین کی رفعت و شان اور دنیائے انسانیت کے واسطے ابدی زینت والے مقامات ِ حج کی روح پرور کیفیات میں ڈوبا ہمارا گروپ واپس حرم کی مشک بار فضاؤںمیں پہنچا۔ گاڑی حرم کے بالکل قریب واقع ہمارے ہوٹل کے مین گیٹ کے سامنے رُک گئی۔زائرین ایک ایک کرکے گاڑی سے نیچے آگئے۔ مرد زائرین نے مصا فحے کر کے ملتانی گائیڈاور مصری ڈرائیور سے رخصت لی اور ہوٹل میں تیز قدموں سے داخل ہوئے تاکہ جلد از جلد تجدید ِ وضو کر کے نمازِ ظہر مسجد الحرام میں با جماعت ادا کرسکیں۔ ادھر شو ق کاپنچھی بدستور ان عظیم المرتبت زیارات کی مقصدیت،ان کی تقدس مآبی ،ان کے حسین و جمیل نقش ونگار ، ان کی رُوحانی جاذبیت میں غوطہ زن تھا۔ وہ حیرت کی وادیوں میں سرگرداںتھا کہ ظاہر بین نظروں سے دیکھا جائے تو مقامات ِ حج وزیارات ِ مکہ نہ سر سبز باغات ہیں، نہ جھیل جھرنے ہیں، نہ شاہی محلات ہیں، نہ نمائشی مراکز ہیں ، نہ عجائبات ِ دنیا ہیں ، نہ پُربہار منڈیاں ہیں،نہ دنیوی زینت وحشمت کے نمونے ہیں بلکہ یہ سب ننگے پہاڑ و تنگ وتار غار، صحرا ومیدان، خیمہ بستیاں ، شادابی و سر سبزی سے تہی دامن وادیاں ہیں لیکن اللہ نے ان میں ایسی لازوال وعدیم المثال رونقیں اور مقناطیسی کشش سمودی ہے کہ دنیا کی دیگر گہما گہمیاں ، ترغیبات اور دلچسپیاں ان کے سامنے بالکل ہیچ ہیں، بے معنی ہیں ، بے لطف ہیں،لائق اعتناء نہیں، ایک بار زائر کو اپنی جانب کھینچ لیں تو اُسے دنیا ومافہیا سے بے گانہ کر تی ہیں کہ اپنے خزینہ ٔدل میں ان کی لذتیں عمر بھر کے لئے بسا بساکر بھی آدمی تشنگی محسوس کرتا ہے ، دیوانہ وار اللہ کے حضور دست بدعا ہو تاہے: اے مولا ئے کریم ! اب یہ انمول نظارے ایک پل کے لئے بھی آنکھوں سے کبھی اوجھل نہ ہوں۔ اس وارفتگی کا سبب یہ ہے کہ ان مقامات و زیارات سے اللہ کی عظمت وجلالت کا وہ نور برستا ہے کہ ہر دیدار کر نے والا اپنے گنا ہوں اور غلطیوں کی تاریکیوں سے ہمیشہ کے لئے گلوخلاصی پاتا ہے، ان سے رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کی محبت و عقیدت کی مہر زائرکے رگ ِ جان پر ثبت ہوجاتی ہے ، اس کے قلب وذہن پر اسلام کی حلاوت، اخوت ا ور عالمگیر یت نقش ہو جاتی ہے ۔ بہر حال شوق کا پنچھی ایک اور منظر کی پرتیں کھولنے میں لگ گیا کہ ہمارے گروپ میں مر وزَن ہیں ، عمریں مختلف، مزاج مختلف ، تعلیمی قابلیت مختلف، پیشے مختلف ،سماجی ومعاشی پس مختلف لیکن اس مجمع میں ایک ننھا فرشہ بھی ہے جو مشکل سے سال بھر کا ہوگا۔ یہ پیارا سا بچہ ایک جوان سال ڈاکٹر کی اولاد نرینہ ہے۔اس کے ہمراہ اس کی والدہ اور نانی صاحبہ بھی ہیں ۔ اللہ نے اس خوش نصیب معصوم عن الخطاء بچے کو اپنے گھر اور دیار ِ محبوب ؐ کی زیارت کا اتنا بڑا اعزاز بخشا مگر وہ بھی رشک ِملائکہ لوگ ہیںجو بلاوا کے انتظار میں ماہی ٔبے آب کی مانند تڑپ رہے ہیں ، ان کے دل کی نگری میں مولا بساہوا ہے اور اللہ شاید ان کے انتظار سے حظ اُٹھارہاہے، اوروہ بھی ہمارے دوست و احباب، جان پہچان والے یا قرابت دار ہیںجنہیں مالی وبدنی استطاعت کے باوجود کعبتہ اللہ سے بلاوے کی کوئی فکر دامن گیر ہے،نہ اس جانب پیش قدمی کا کوئی شوق ہی ان میں پروان چڑھ رہاہے ۔ وجہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے لہو و لعب میں غرق ہیں یا لااُبالی پن میںمست ہیں ۔ شوق کا پنچھی ابن آدم کے ان متضاد روشوں کی دنیا میں پر پھیلائے سوچ رہا تھا کہ اللہ فریضۂ حج کے لئے ہر سال لاکھوں لوگوں کو ہر ملک ، ہرقوم، ہر شہر اور ہر بستی سے بلدامین بلاتا ہے کہ آؤ میرا مہمان بن کر میرے گھر کا طواف کرکے ، مطاف میں دھرنا دے کے، منیٰ کے خیموں میں، عرفات کے سائبانوں تلے، مزدلفہ کی فرش ِزمین پر نماز و دعا کی شبانہ روز مجلسیں جماکے ، جمرات جاکر شیطان پر سنگ باریاں کر کے ، جانوروں کی قربانیاں پیش کرکے، حلق وقصر سے فارغ ہوکے، طواف ِ کعبہ اور صفا ومروا کے سات پھیرے لگاکے مناسک ِ حج پورے کرو اور اپنے لئے دنیا وآخرت کا توشہ ہی نہ سمیٹ لو بلکہ میرے ساتھ اپنا ابدی وازلی رشتہ جوڑ کر کامیابیوں کا ثمرہ پاؤ ۔ اللہ کی اس پکار پرکہیں بے محابہ ’’اے اللہ میں حاضر ہوں‘‘ کی صدائے دل بلند ہوتی ہے، لیکن افسوس کہیں فرضیت حج کی ادائیگی کی تمنا اور آرزو کا نام ونشان بھی نہیں ملتا ، کہیں آرزوئے حج و زیارت ِ مدینہ دل میں بار بار انگڑائیاں لیتی ہے مگر بندہ بے دست وپا اور لاچار ہے کہ یاتو مالی وسعت کا فقدان ہے ، یا صحت ناساز ہے ، یاسفری دستاویز کی عدم دستیابی نے راستہ مسدود کردیا ہے، یا گھر میں بیمار داری نے ڈیرا جمایا ہواہے۔ بہر کیف کہنے کو اللہ کے بلاوے پر لبیک کہنے کے ضمن میں عازمِ حج کی مالی استطاعت ایک لازمی شرط ہے مگر ذرا سا چھلکا ہٹا کے حقیقتوں پر غور وتدبر کر یں تو یہ راز کھلے گا کہ اللہ جل شانہ کے یہاں اگر مال وزر ہی اُس کے بلاوے سے مشروط ہوتا تو ملک وسلطنت کے مالک شہنشاہوں ، جاہ وحشم والے سرمایہ داروں، صاحب ِثروت تاجرین و اعلیٰ حکام کتنے ہونگے جن کو اللہ نے سفر محمود نصیب کر کے اپنا مہمان ہونے کا شرف بخشا ؟کتنے وہ غریب و مفلوک الحال ہیں جو اس سعادتِ عظمیٰ سے بظاہر محروم ہونے چاہیے تھے مگر وہ اس سے مستفیض ہوئے ؟ تاریخ شاہد عادل ہے کہ شاہانِ مغلیہ میں سے کسی ایک بھی بادشاہ یا ملکہ کو حج کی سعادت مقدر نہ ہوئی، مغل بادشاہ جنگ وجدل ، محلاتی عیاشیوں، بیگمات کی فرمائشوں اورتاج محل جیسے مقبروں کے گورکھ دھندوں میں ہی اپنےاپنے عہد حکومت میں لگے رہے ۔ نظام ِ حید ر آباد پورے ذوق شوق سے حرمین کی مخلصانہ خدمت میں پیش پیش رہے ( مکہ میوزئم ’’متحف الحضارۃ اسلامیہ‘‘ میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملتی ہے ۔ حج کے موقع پر میںنے ایک بار اس میوزئم کا چکر لگایا ، میری ناقص رائے میں حاجی صاحبان کو اگر فرصت کے اوقات میسر ہوں تواس میوزئم میں چکر لگانا مفید رہے گا ) مگر حج کے لئے قرعۂ فال نظام کی بیگمات اور ہمشیراؤں کے حق میں نکلتارہا جب کہ اس بیش قیمت انعامِ خداوندی سے بہ حیثیت مجموعی محروم رہے۔ سلاطین ِکشمیر میں علی شاہ( مسوسس عالی مسجد ، عیدگاہ سری نگر ) کو حج کا شوق بہت چرایا ،اس نے اس سلسلے میں کچھ ابتدائی قدم بھی اٹھائے مگر بہت جلد سلطنت وبادشاہت ہاتھ سے جانے کا خدشہ اس شوق کی تکمیل میں سد راہ بنا کہ اس کا سارا جوش وجذبہ ہوا میں تحلیل ہو کر رہا۔آج بھی ہماری اور آپ کی نگاہوں کے سامنے وہ صاحب ِ استطاعت بھائی بند ضرور ہوں گے جنہیں دولت،فراغت اورصحت تینوں چیزیں میسر ہیں مگر یا تو اللہ کے یہاں سے بلاوے کے منتظر ہیں یاشوقِ حج سے دل عاری اور دماغ فارغ ہیں ۔اس صورت حال کے عین برعکس یہ بھی عام مشاہدے کی بات ہے کہ بارہا ایسے خوش نصیب حج وعمرہ سے بہرہ ور ہوجاتے ہیں جن کی پتلی مالی حالت ، کمزورصحت،مسائل کے انبار، عیال داری کا جنجال اور دیگر ناموافق حالات کے باوجود یہ سعادت ان کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے ۔ یہاں مجھے ایک سادہ لوح مگر فطرتاً مسلمانا نہ دل رکھنے والا ایک چپراسی یاد آجاتا ہے۔ یہ کثیرا لعیال شخص اَن پڑھ ہی نہ تھا ، انتہائی غربت وعسرت زدہ بھی تھا ، سری نگر کی ایک گنجان بستی میںبوٹ کے بڑے بڑے ڈبوں سے بنے چھپرے میں بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ اس کی تنخواہ کا زیادہ تر حصہ بھاری بھرکم حجم والی اس کی بیوی کے علاج و معالجہ اور فضول خرچیوں کی نذر ہوجاتا مگر اس کی جبین پر کبھی شکن پڑتی نہ زبان پر کوئی گلہ ہوتا ۔ یہ ہنس مکھ بھی تھا اور فراخ دل بھی ، جس کسی اپنے پرائے کو دفتر میں دیکھتا تودفتری میس کی چائے ضرورپلاتا، بارہا کلرکوں سے ڈانٹ بھی پڑتی کٹیلی لے کر ہر ایک کو چائے پانی مت پوچھا کرو مگر یہ عادت سے مجبور تھا۔ پابندی ٔ وقت اورایمانداری سے ڈیوٹی کر نااس کا شیوہ ، ہر کسی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اس کی طبیعت تھی، اپنوں اور غیروں کا یکسان دوست اور ہمدرد تھا۔ اپنی ماہانہ تنخواہ پانے سے قبل ہی دیگر ملازمین سے اتنا قرضہ ُاٹھایا ہوتا کہ پگار نام کی دوکوڑی بھی جیب میں نہ رہتے ، سادگی کا عالم یہ تھا کہ ایک سو روپیہ گننا نہ آتا تھا۔ اتفاق سے اس شخص کو ایک بار عیدالاضحی کے موقع پر سسرال والوں نے قربانی کا جانور شیپ ہسبنڈری ڈپارٹمنٹ سرینگر سے، جہاں کا یہ خودملازم تھا، خرید لانے کے لئے کہا ۔اس نے کسی دوسرے ساتھی ملازم سے قرضہ لے کر قربانی کا جانور خریدلیا مگر سسرال والوں نے جانور کو ناپسند کیا ۔ چپراسی بہت پر یشان ہوا کہ اب اس بھیڑ کا کیا کیاجائے ۔ محکمہ کو واپس کر نا محال تھاکیونکہ اس کا پہلے ہی جی آر کٹ چکا تھا۔ اس نے زیادہ متفکر ہوئے بغیر بھیڑ کو گھر لاکر اللہ کی راہ میں قربان کر کے اپنے پڑوسیوںاور رشتہ داروں میں تقسیم کرلیا۔ شخص مذکورہ نے فقہ کی کتابیں کھول کر دیکھیں نہ کسی سے وجوب و عدم وجوب قربانی پر سوال جواب کیا ، کتابیں دیکھتا تو اس پریہ منکشف ہوجاتا کہ اس پر قربانی واجب ہی نہ تھی مگر اس مست قلندر کو نہ نصاب کا علم تھا نہ قواعد کا فہم۔ اس نے اللہ پر توکل کر کے اسی کے نام پر بھیڑ کو قربان کیا اور بس ۔اس غریب کے سب واقف کارلوگ دنگ ر ہ گئے کہ ماجرا کیاہے مگر خداکے اس بندے نے سوائے مسکراہٹ کے کسی پر یہ راز نہ کھولا کہ اس قربانی کا سبب کیا چیز بنی ۔ اللہ کو شاید اس صالح مزاج بندے کی قربانی کی یہ ادا پسند آگئی کہ کم آمدن والا چپراسی پھر ہمیشہ عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کا فریضہ انجام دیتا رہا ۔ اس کی معاشی پریشانیاں بھی بتدریج کم ہوگئیں ، گھر کے حالات میں بھی حیران کن تبدیلی آئی، مکان کی تعمیر بھی ہوئی ۔ان سارے تغیرات کے بیچ اس شخص کی سادگی اور اچھے اوصاف سب اپنی جگہ قا ئم ودائم رہے ۔ یہ شخص بعدازاں ریٹائر ہوکر ایک سڑک حادثے میں ا للہ کو پیارا ہوگیا۔ اسی طرح ایک اور دوست کے والد ین کے حج بیت اللہ کا قصہ بھی ایمان افروز واقعہ ہے ۔ یہ تنگ دست گھرانہ ان دنوں سری نگر کی ایک کالونی میں اپنا چھوٹا موٹا مکان تعمیر کر رہا تھا ، چھت کے لئے پیسے میسر ہی نہ تھے۔ یہ پتہ نہیں کہ تنگ دستی کے باجود انہوں نے سرکاری حج فارم کس اُمید اور یقین کے ساتھ حج کمیٹی میں بھرا تھا ۔ اتفاق سے تنگی کے انہی ایام میں جب انہیں چھت کے لئے پیسوں کی بہت ضرورت تھی ، عازمین ِحج کی سرکاری فہرست منظر عام پر آگئی جس میں ان کا نام بھی درج تھا، وہ بیک وقت خوش بھی ہوئے اور مغموم بھی۔ خوشی حج پر بلاوا آنے کی تھی اور غم یہ تھا کہ پھوٹی کوڑی تک جیب میں نہ تھی ۔ اُدھر بالغ بچے بچیوں کے سر پر چھت کا ہونا از بس ضروری تھا ۔ عقل نارسا سے پوچھتے تو وہ انہیں یہی سمجھاتی کہ پہلے اپنے یک منزلہ مکان پر چھت کا ڈھکن لازمی ہے ، حج کے لئے استطاعت شرط ہے ،ایک بار استطاعت کا پل صراط طے کرو گے پھر روکے گا کون؟ لیکن اس غریب کنبے نے اپنی باگیں عشق کو سونپ دیں، وجوب اور عدم وجوبِ حج کی بحث کو چھیڑے بغیر ہی منشائے الہٰیہ کے سامنے گھر کا ہر فرد سرنگوںہوا اور ایک عجیب وغریب فیصلہ لیا: پہلے حج پھر چھت ، تعمیر مکان کو ثانوی ترجیح ہے۔ عقل اور عشق کے ا س معرکے نے زیادہ طول بھی نہ کھینچا بلکہ چند لمحوں میںتوکل علی اللہ ، عزم بالجزم، مصمم ارادے اور نیک دلی کے جذبے نے اپنا یہ کمال دکھایا کہ دنیا کے عام دستور سے ہٹ کر اس گھرانہ نے بے سروسامانی کے باوصف اللہ کی مہمانی پر عاشقانہ لبیک کہی ، جوں توں اپنا زادِ سفر اکھٹا کیا اور سفر محمود پر روانگی ڈالی گئی۔ یوں میرے اس دیندار دوست کے والدین حج بیت اللہ کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ حج سے واپسی کے بعد اپنے موقع پر مکان کی تعمیر بھی پائے تکمیل کوپہنچی، لڑکے لڑکیوں کی شادیاں بھی ہوئیں، متوسط گھرانے کی زندگی کا سفر خوش حالی اور فارغ البالی کے سائے میں چلتا بھی رہا ۔
اللہ قرآن کریم میں حج کی فرصیت کے بارے میں فرماتاہے : اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر ( کعبہ مقدس) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتاہووہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کر ے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے (آل عمران، آیت ۔۹۷ )۔ اس آیت میں فرضیت ِحج اور شرائط ِ حج دونوں کااحاطہ کیا گیا ہے۔ اللہ نہ صرف مسلمانوں کو ترغیب حج دیتا ہے بلکہ ناقص الفہم اور مریض الطبع لوگوں کو متنبہ بھی کر تاہے کہ بھولے سے بھی یہ نہ سمجھنا کہ حج سے اعراض کر کے اللہ کی عظمت وشان میں کوئی کمی واقع ہوگی بلکہ وہ تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ البتہ بلا جوا ز ترکِ حج کفر کے مشابہ ہے ۔ آیت میں واضح کیا گیا اگر کوئی مسلمان تارک الحج ہو کر لاپروائی و بے اعتنائی کا جرم اپنے سر لے تو اللہ کو بھی اس بندے یا بندوں کے اجتماع بلکہ تمام عالم کی کوئی پرواہ نہیں ۔ یہ بات بہت بڑی وعید اور اللہ کے غضب پر دلالت کر تی ہے ۔
حدیث میں آیا ہے : جو شخص اسلام کا فریضۂ حج ا داکئے بغیر مر گیا، جب کہ اس کو کسی شدید روکنے والے مرض نہ روکا ہو، نہ ظالم بادشاہ نے روکا ہو، یا کوئی حاجت تھی جو بالکل واضح اور ظاہر تھی، پس جس حالت میں چاہے وہ مرجائے یہودی ہوکر یا نصرانی ہو کر۔ ( بروایت ابواُمامہ ؓ ) حضرت عمر ؓ نے ارشاد فرمایا: میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کو مختلف شہروں میں بھیجوں اور دیکھوں کہ لوگ حج کو آتے ہیں یا نہیں ۔ ہروہ شخص جسے وسعت ہو اور حج نہ کرے تو ایسے لوگوں پر جزیہ مقرر کردو۔ یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔
نوٹ :بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ