میری اپنی کوتاہ نظر کہتی ہے زکواۃ کی ادائیگی اگر چہ نصابِ مال وزر سے مشروط ہے، روزے تندرستی اور حضر کے متقاضی ہیںلیکن حج ۔۔۔ایں چیزے دیگر است۔ حج کی آرزو میںچاہے بندہ شب وروزتڑپتا رہے یا چاہے اُسے آرزوئے حج وعمرہ کا سان گمان بھی نہ ہو، کن فیکون والااللہ مہربان ہوا توآناًفاناً حرم کعبہ کا طواف بندے کا مقدر کر دے ، اُسے حرم مدینہ کی زیارت نصیب کرے ۔ یہ بھی حکیم مطلق کی مشیت ہی ہے کہ کوئی حرماں نصیب شخص ارضِ مقدس پہنچ کر بھی طواف کی سعادت اور حرمین کی زیارت سے محروم رہے۔گزشتہ دنوں یہ سبق آموز خبر سوشل میڈیا پر چھا گئی کہ کعبہ میں وہیل چیئر چلانے والا ایک سعودی مزدور کئی برسوں سے مسلسل ہزاروں بار معمر اور ناتوان حاجیوں سے کعبے کا طواف کرواتا اور صفا مروہ کے پھیرے لگواتا رہا مگر تادم تحریر وہ خود حج کی توفیق پا ہی نہ سکا۔ بعینہٖ ایک ٹیکسی ڈرائیور کے بارے میں خلاصہ ہوا کہ وہ کئی دہائیوں سے مکہ کی سڑکوں پر آذوقہ کمانے کے لئے ٹیکسی دوڑاتا رہتا ہے مگر ایک بار بھی اسے مطاف میں جاکر کعبہ کاطواف کر نے کی توفیق نہ ملی ۔ کسی کشمیری حاجی کے بارے میں ایک دینی تقریب میں بزبان مفتی نذیر احمد صاحب سنا کہ اُس صاحب نے اپنے ساتھ مقامی’’وری‘‘ لائی تھی ( وری مرچ مسالے کا سوکھا پیڑا ہوتا ہے جو سبزی کاذائقہ دوچند کر نے کے لئے اس میں ڈالی جاتی ہے۔اب اس کا رواج قدرے کم ہو اہے ) ، یہ قافلہ ٔ حج جب جدہ پہنچا تو حاجی صاحب کے سامان سے ’’وری‘‘ برآمد ہوئی۔ کسٹم حکام چونکہ اس چیز کی اصلیت سے ناواقف تھے،اس لئے عازمِ حج کو شک کی بنیاد پر ’’وری‘‘ کی جانچ پڑتال تک پولیس کی تحویل میں رکھا گیا۔ جس تھانیدار نے موصوف کو حراست میں رکھا تھا، وہ اتفاق سے متعلقہ تھانے سے ٹرانسفر ہوا۔ نئے تھایندار کو کشمیری قیدی کی یاد نہ آئی تاوقتیکہ جانچ رپورٹ تھانے پہنچی اور وہ بری ہوامگر افسوس حج اختتام پذیرہوچکا تھا ، اسلئے شخص مذکورہ کو سیدھے گھر روانہ کیا گیا ؎
قسمت کی بازی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا
حج کے حوالے سے اس کی طرح کی مثالیں ہم سنتے رہتے ہیں ۔ بلا شبہ حج کی فرضیت مالی استطاعت ، جسمانی تندرستی، سفر ی سہولیات اور حالات کی مساعدت وغیرہ کی کھونٹی سے بندھی ہے لیکن یہ سمجھنا بھی بڑی بھول ہوگی کہ کسی بندے کے پاس کہنے کو زاد ِ راہ ہونہ چستی و تندرستی تو وہ’’ عدم استطاعت‘‘ کے زُمرے میں آکر حج کی نعمت کبریٰ سے رہ جائے ۔ تجربات اورمشاہدات اس کے اُلٹ بھی ہوتے ہیں ۔ حج کے موقع پر ہمارے ساتھ سوپور کے فیاض احمد نامی ایک دُبلے پتلے دوکاندار اپنی بزرگ اور بہت ہی نحیف ونزاروالدہ کے ہمراہ حج ِبیت اللہ پر آئے ۔ اس نیک نہاد خاتون اور اس کے فرمان بردار فرزند نے مناسکِ حج ادا کرنے میں غیر متوقع طور سب پر سبقت لی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کم گو ، شرافت کی پتلی اور بہت ہی سیدھی سادھی عمر رسیدہ خاتون کے بارے میںیہ یقین نہیں کیا جاسکتا تھا کہ یہ حج وعمرہ سے متعلق ہر مشقت طلب کام اتنی آسانی ، خندہ پیشانی اور کسر نفسی کے ساتھ ادا کرے گی۔ فیاض احمد نے پہلی فرصت میں ایک وئیل چیئر مکہ مارکیٹ میںخرید کر اپنی قابل قدروالدہ ( تمام حاجی صاحبان موصوفہ کو’’بوبہ ‘‘ پکار کے عزت واحترام دیتے تھے) کو اسی پر بٹھایا اور اس کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ والدہ کا ہمہ وقت خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ فیاض احمد دوسرے حاجیوں کا کام کر نے میں بھی بہت ہی لجاجت اور انکسار کے ساتھ پیش پیش رہتے تھے۔ مجھے باتوں باتوں میں اُن سے پتہ چلا کہ بوبہ بہت کم عمری میں بیوہ ہوگئی تھیں کہ اپنوں نے بھی اُن سے آنکھیں موڑ لیںلیکن اس عزم و ہمت والی نیک سرشت خاتون نے عسرت میں چرخہ کات کات کر کے اپنے یتیم بچوں کو کسی کا احسان لئے بغیر پالا پوسا کہ آج یہ گھرانہ اس قابل بنا کہ ماشاء اللہ حج کی سعادت پاگیا ۔
جس اللہ ذُوالجلال والاکرام کا یہ فرمان ہو ’’ اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کر نا ‘‘ (آل عمران ۔آیت۔ ۷۹)، وہ سفر محمود کے لئے وسائل وزرائع کا اُسی طرح پیدا کر نے والا ہے جیسے اس نے مکہ کے اونچے پہاڑوں ، ریگ زاروںا ور چٹانوں کے و سیع وعریض صحرا میں جہاں نہ آبادی کا نام ونشان تھا نہ پانی کا ،جہاں بودو باش کے ظاہری اسباب ناپید تھے ، اسی بے آب وگیا سرزمین میں ہزارہا سال سے دنیا کی تمام نعمتیں بہتات کے ساتھ صرف ہورہی ہیں ، جہاں جنگ و جدال، تلوارزنی،بدامنی اور لوٹ مار کا راج تاج تھا، اُسی عربستان میں چارماہ تک حج کے توسل سے ناجنگ معاہدہ کی پابندی اُن قانون ناآشنا اور تہذیب بیزار لوگوں سے ہوتی تھی جو ایام ِ حج میں مکہ سمیت اطراف واکناف کے ممالک میں بھی درگاہ ِ خداوندی کی طرف کھینچے چلے آنے والوں کے لئے امن وآشتی اور خدمت و محبت کے پیکر بن جاتے۔ بہر کیف ربِ کریم کا یہ منشاء ہو ہی نہیں سکتاکہ صرف صاحب ِ حیثیت حج کا ثواب سمیٹیں، خالی وہ طوافِ کعبہ کے سات پھیروں سے بہرہ ورہوں، صفا مروہ کے سات دوڑ یں لگانے کی عزت صرف دولت مند پائیں، مناسک حج وعمرہ کی سعادتیں فقط جاہ و حشم والے ذخیرہ کر لیں جب کہ غریب و مفلس لوگ ان سعادتوں اور برکات سے تہی دامن رہیں ۔ اسلام میں غرباء کے لئے حدیث رسولؐ میں ’’ فتوبیٰ اللغرباء‘‘ (پس ناداروں کے لئے خوش خبری ہے) جیسی نوید میں حج کی سعادت بھی شامل ہے ۔ سفر محمود اللہ کی جانب سے ہر خاص وعام بندے پر اللہ کی نگاہِ التفات، عنایات کی برسات ، مہمانی کا کرم ہے جو استطاعتوں کے تکلفات سے ماوراء ہے۔ جہاں تک مالی وبدنی استطاعت کا سوال ہے ،اس کی اہمیت سے انکار کی مجال نہیں ہوسکتی مگرا مام مالکؒ فرماتے ہیں کہ بدن شاق سفر کا متحمل ہوسکتا ہے اور جو سفر پرقادر ہے تو حج فرض ہے۔ مال نہیں ہے توراستہ میں کسب کر کے اس قدر حاصل کرسکتا ہے جس سے وہاں پہنچ جائے۔ ضحاک ؒ بھی فرماتے ہیں کہ آدمی تندرست ہو تو اس پرفرض ہے کہ اُجرت حاصل کرتاہوا حج کو جائے اور فریضۂ حج اداکرے۔ کسی نے پوچھا کیا خداتعالیٰ اس کی تکلیف دے کہ لوگ پا پیادہ وہاں جائیں ، انہوں نے جواب دیا اگر کسی کی میراث مکہ میں ہو تو کیا وہ اس کو چھوڑ دے گا؟ نہیں بلکہ گھٹنوں کے بل جاسکے تو جائے گا ۔ حالات کی نامساعدت سے حج موخر یا موقوف ہوتا تو سید احمد شہید ؒ ۱۲۸۱ ء میں اپنے چارسو ساتھیوں ( یہ تعداد بعد میں بڑھ کر۵۷۷ ؍عازمین تک پہنچی)کو لے کر رائے بریلی سے کولکوتہ جاکر بذریعہ سفینہ حج کو کہاں روانہ ہوتے؟اُ س دور ِ پُر آشوب میں بعض علماء نے تنسیخ حج کا فتویٰ بھی دیا تھا۔ سیدصاحبؒ نے پیش قدمی کر کے اس ناپاک فتنے کے تارو پود بکھیر دئے۔ یہ ان کی مساعیٔ جمیلہ کا ہی اثر تھا کہ ا مامِ حرم اور مفتی ٔ مکہ سے لے کر وقت کے جید علمائے عرب آپ ؒ کے حلقہ ٔ ارادت میں آگئے ۔
حج پر جانے سے قبل میرے ایک خیرخواہ مشفق اوردوست مظفر صاحب( مالک آ ر پی اسکول ،ناگہ بل گاندربل کشمیر ) نے مجھے مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی’’ مناجاتِ مقبول‘‘ مولانا محمد رفعت قاسمی کی کتاب ’’ مسائل ِ حج وعمرہ ‘‘ مرحمت فرمائیں ۔ اس کے علاوہ ایک چار ورقی تحریر بعنوان ’’ رُوح الحج ‘‘ جس میں صاحب ِتحریر کانام درج نہیں، از راہ شفقت عطاکی ۔ اس ایمان افروز تحریرکو افادہ ٔعام کے لئے یہاںمن وعن شامل مضمون کر تاہوں تاکہ ہم پر حج کی اصل روح واضح ہو :
شیخ المشائخ قطب ِدوران شبلی قدس سرہ کے ایک مرید حج کرکے آئے تو شیخ نے ان سے سوالات فرمائے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مجھے سے شیخ نے دریافت فرمایا کہ تم نے حج کا ارادہ او ر عزم کیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی پختہ قصد حج کا تھا ،آپ نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ان تمام ارادوں کو ایک دم چھوڑنے کا عہد کر لیا تھا جو پیدا ہونے کے بعد سے آج تک جج کی شان کے خلاف کئے؟ میں نے کہا یہ عہد تو نہیں کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ پھر حج کا عہدہی نہیں کیا ۔پھرشیخ نے فرمایا کہ احرام کے وقت بدن کے کپڑے نکال دئے تھے؟ میں نے عرض کیا جی بالکل نکال دئے تھے۔ آپ نے فرمایا اس وقت اللہ کے سوا ہر چیز کو اپنے سے جدا کر دیا تھا؟ میں نے عرض کیا ایسا تو نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا تو پھر کپڑے ہی کیا نکالے؟آپ نے فرمایا وضو اور غسل سے طہار ت حاصل کی تھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں بالکل پاک صاف ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا اس وقت ہر قسم کی گندگی اور لغزش سے پاکی حاصل ہو گئی تھی۔ میں نے عرض کیا یہ تو نہ ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا پھر پاکی ہی کیا حاصل ہوئی؟پھر آپ نے فرمایا لبیک پڑھاتھا؟ میں نے عرض کیا جی ہاں لبیک پڑھا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہ کی طر ف سے لبیک کا جواب ملا تھا ؟ میں نے عرض کیا مجھے تو کوئی جواب نہیں ملا ،تو فرمایا کہ پھر لبیک کیا کہا؟پھرفرمایا حرم محترم میں داخل ہوئے تھے؟میں نے عرض کیا کہ داخل ہوا تھا ،فرمایا اس وقت ہر حرام چیز کے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ترک کا جزم کر لیا تھا؟ میں نے کہا یہ تو میں نے نہیں کیا، فرمایا کہ پھر حرم میں بھی داخل نہیں ہوئے۔پھر فرمایا کہ مکہ کی زیارت کی تھی؟ میں نے عرض کیا جی زیارت کی تھی ، فرمایا اس وقت دوسرے عالم کی زیارت نصیب ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا اس عالم کی تو کوئی چیز نظر نہیں آئی، فرمایا پھر مکہ کی بھی زیارت نہیں ہوئی۔ پھر فرمایا کہ مسجد حرام میں داخل ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ داخل ہوا تھا، فرمایا میں اس وقت حق تعالیٰ شانہ کے قریب میں داخلہ محسوس ہوا ؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو محسوس نہیں ہوا ، فرمایا کہ تب تو مسجد میں بھی داخلہ نہیں ہوا۔پھر فرمایا کہ کعبہ شریف کی زیارت کی؟ میں نے عرض کیا کہ زیارت کی، فرمایا کہ وہ چیز نظر آئی جس کی وجہ سے کعبہ کا سفر اختیار کیا جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے تو نظر نہیں آئی فرمایا، پھر تو کعبہ شریف کونہیں دیکھا۔پھر فرمایاکہ طواف میں رمل کیا تھا؟ (خاص طرز سے دوڑنے کا نام ہے) ،میں نے عرض کیا کہ کیا تھا، فرمایا اس بھاگنے میں دنیائے ایسے بھاگے تھے جس سے تم نے محسوس کیا ہو کہ تم دنیا سے بالکل یکسو ہو چکے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں محسوس نہیں ہوا ، فرمایا کہ پھر تم نے رمل بھی نہیں کیا۔ پھر فرمایا حجرہ اسود پر ہاتھ رکھ کر اس کو بوسہ دیا تھا؟ میں نے عرض کیا جی ایسا کیا تھا۔ تو انہوں نے خوف زدہ ہو کر ایک آہ کھینچی اور فرمایا تیرا اس نا س ہو! خبر بھی ہے کہ جو حجر اسود پر ہاتھ رکھے وہ گویا وہ اللہ جل شانہ سے مصافحہ کرتا ہے اور جس سے حق سبحان و تقدس مصافحہ کریں وہ ہر طرح سے اَمن میں ہو جاتا ہے تو کیا تجھ پر امن کے آثار ظاہر ہوئے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھ پر تو امن کے آثار کچھ بھی ظاہر نہیں ہوئے تو فرمایا کہ تو نے حجرا سود پر ہاتھ ہی نہیں رکھا۔ پھر فرمایا کہ مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر دو رکعت نفل پڑھی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ پڑھی تھی، فرمایا کہ اس وقت اللہ جل شانہ کے حضور میں ایک بڑے مرتبہ پر پہنچا تھا ،کیا اس مرتبہ کا حق اداکیا؟ اور جس مقصد سے وہاں کھڑا ہوا تھاوہ پورا کر دیا؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا، فرمایا کہ تو نے پھر تو مقام ابراہیم پر نماز ہی نہیں پڑھی۔ پھر فرمایا کہ صفا مروہ کے درمیان سعی کیلئے صفا پر چڑھے تھے؟ میں نے عرض کیا چڑھا تھا، فرمایا وہاںکیا کیا؟ میں نے عرض کیا کہ سات مرتبہ تکبیر کہی اور حج کے قبول ہونے کی دعا کی ، فرمایا تمہاری تکبیر کے ساتھ فرشتوں نے بھی تکبیر کہی اور اپنی تکبیر کی حقیقت کا تمہیں احساس ہوا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں فرمایا کہ تم نے تکبیر ہی نہیں کہی۔ پھر فرمایا کہ صفا سے نیچے اُترے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ اُترا تھا، فرمایا ا س وقتک ہر قسم کی علت دور ہو کرتم میں صفائی آگئی تھی؟میں نے عرض کیا کہ نہیں ،فرمایا کہ نہ تم صفا پر چڑھے نہ اُترے۔ پھر فرمایا کہ صفا و مروہ کے درمیان دوڑے تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ دوڑا تھا فرمایا کہ اس وقت اللہ کے علاوہ ہر چیز سے بھاگ کر اس کی طرف پہنچ گئے تھے!؟غالباً ففررت منکم لماخِفتکم کی طرف اشارہ ہے جو سورہ شعرأ میں حضرت موسیٰ ؑ کے قصہ میں ہے ، دوسری جگہ اللہ کا پاک ارشاد ہے ففر وااِلی اللہ ، ذاریات۳)۔میں نے عرض کیا نہیں، فرمایا کہ تم دوڑے ہی نہیں۔ پھر فرمایا کہ مروہ پر چڑھے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ چڑھا تھا ،فرمایا کہ تم پر وہاں سکینہ نازل ہوا اور اس سے وافر حصہ حاصل کیا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ،فرمایا کہ مروہ پر چڑھے ہی نہیں۔ پھر فرمایا منیٰ گئے تھے؟ میں نے عرض کیا ، فرمایا وہاں اللہ جل شانہ سے ایسی اُمیدیں بندھ گئی تھیں جو معاصی کے حال کے ساتھ نہ ہوں، میں نے عرض کیا کہ نہ ہوسکیں ۔فرمایا منیٰ ہی نہیں گئے۔پھر فرمایا مسجد خیف میں( جومنیٰ میں ہے) داخل ہوئے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ د اخل ہوا تھا، فرمایا کہ اس وقت اللہ جل شانہ کے خوف کا اس قدر غلبہ ہوگیا تھا جو اس وقت کے علاوہ نہ ہوا ہو؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ مسجد خیف میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ پھر فرمایا کہ عرفات کے میدان میں پہنچے تھے؟ میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوا تھا، فرمایا کہ وہاں اس چیز کو پہچان لیا تھاکہ دنیا میں کیوں آئے تھے اور کیا کر رہے ہو اور کہاں اب جانا ہے اور ان حالات پر متنبہ کرنے والی چیز کو پہچان لیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ پھر تو عرفات بھی نہیں گئے۔ پھر فرمایا کہ مزدلفہ گئے تھے ؟ میں نے عرض کیا کہ گیا تھا، فرمایا کہ وہاں اللہ جل شانہ کا ایسا ذکر کیا تھا جو اس کے ماسوا کو دل سے بھلا دے جس کی طرف قرآن پاک کی آیت فاذکر واللہ عند المشعرالحرام( بقرہ ۵۲) میں اشارہ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ ایسا تو نہیں ہوا، فرمایا کہ پھر تو مزدلفہ پہنچے ہی نہیں۔
پھر فرمایا کہ منیٰ میں جاکر قربانی کی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ کی تھی، فرمایا کہ اس وقت اپنے نفس کو ذبح کیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا پھر تو قربانی ہی نہیں کی ۔پھر فرمایا کہ رمی کی تھی ( یعنی شیطان کے کنکریاں مار ی تھیں ؟) میں نے عرض کیا کہ کی تھی، فرمایا کہ ہر کنکری کے ساتھ اپنے سابقہ جہل کو پھینک کر کچھ علم کی زیادتی محسوس ہوئی ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ رمی بھی نہیں کی۔پھر فرمایا کہ طواف زیارت کیا تھا؟ میں نے عرض کیا گیا تھا۔ فرمایا کہ اس وقت کچھ حقائق منکشف ہوئے تھے ؟ اور اللہ جل شانہ کی طرف سے تم پر اعزاز و اکرام کی بارش ہوئی تھی؟ اس لئے حضورؐ کا پاک ارشاد ہے کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا اللہ کا زیارت کرنے والا ہے اور جس لی زیارت کو کوئی جائے اس پر حق ہے کہ اپنے زائرین کا اکرام کرے۔ میں نے عرض کیا کہ مجھ پر تو کچھ منکشف نہیں ہوا ،فرمایا تم طواف زیارت بھی نہیں کیا۔پھر فرمایا کہ حلال ہوئے تھے( احرام کھولنے کو حلال ہونا کہتے ہیں) میں نے عرض کیا ہوا تھا ،فرمایا کہ ہمیشہ حلال کمائی کا ا س وقت عہد کرلیا تھا؟ میں نے عرض کیا نہیں ،فرمایا کہ تم حلال بھی نہیں ہوئے۔ پھر فرمایا کہ الوداعی طواف کیا تھا؟ میں نے عرض کیاکیا تھا۔ فرمایااس وقت اپنے تن من کو کلیتہً الوداع کہہ دیا تھا ؟ میںنے عرض کیا نہیں ، فرمایا کہ تم نے طواف وداع بھی نہیں کیا۔پھر فرمایا دوبارہ حج کو جائو اور اس طرح حج کرکے آئو جس طرح میں نے تم سے تفصیل بیان کی … یہ طویل گفتگو اس لئے نقل کی تاکہ انداز ہو کہ اہل ذوق کا حج کس طرح ہوتا ہے ،حق تعالیٰ شانہ اپنے لطف و کرم سے کچھ ذائقہ اس نوع کے حج کا اس محروم کو بھی عطا فرمائے ۔آمین۔
یہ ’’رُوح الحج‘‘ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے اپنے حج کی شبیہ صاف طور دیکھ سکتے ہیں۔
نوٹ :بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ