شوق کا پنچھی صاحب ِخلق عظیم صلی ا للہ علیہ وسلم کے لافانی جمال کی نور بیز جلوتیں دیکھتاجا رہا ہے ۔ وہ دیکھ رہاہے کہ آپؐ اخلاق فاضلہ اور اوصاف ِ حمیدہ کے بلند ترین مقام پر فائز ہیں، آپ ؐ کی پاک سیرت میں عفت وپاک بازی، دیانت وامانت داری، شرم وحیا، رحم دلی، عدل گستری ، عہد کی پابندی ، عفوودرگذر، رفق ولطف، تواضع وخاکساری، خوش کلامی، ایثار پیشگی، اعتدال و میانہ روی ، خود داری ، استقامت ، حق گوئی اور انکساری کا حسن وجمال گُندھا ہوا ہے کہ ان کی مہک سے ساری کائنات ازل تاابد معطر ہورہی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیغمبرانہ جلالت بھی دنیائے انسانیت کی تاریخ میں ان معنوں میں سر فہرست ہے کہ آپ ؐ دلیری میں لاثانی، نڈرتا میں بے مثال ، بہادری میں یکتا، سپاہ گری میں پختہ کار ، گھڑ دوڑ میں شہسوار، تیر اندازی وکشتی بازی میں ماہر و استاد ، جنگی حکمت عملی میں نباض، حمیت میں فائق،غیرت میں فقید المثال ہیں۔ یہ آپ ؐ کی شجاعت و حمیت کا مظاہرہ ہی تو ہے کہ جہاں ایک جانب عنفوانِ شباب میں جنگ ِفجار ( یہ جنگ قبیلۂ قریش اور قیس کے مابین چھڑ گئی تھی) میں دادِ شجاعت دے رہے ہیں ، وہاں لڑکپن کے عالم میں حلف الفضول کے اصلاح پسند اورا من نواز سماجی معاہدے میں بھی پیش پیش ہیں ۔ آپؐ اشجع الناس یعنی لوگوں میں سب سے بہادر ترین ہیں مگر اہل ِمکہ کے ہاتھوں تمام سختیاں بلا کسی ردعمل کے برداشت کر تے جا رہے ہیں، مصیبتیں بھی خاموشی سے جھیل رہے ہیں، تکلیفیں بھی کسی اُف یا آہ کے بغیر اُٹھارہے ہیں، نوبت یہ آرہی ہے کہ جان نثار صحابہ ؓبصد ادب واحترام آپ ؐ سے پوچھ رہے ہیں :متیٰ نصراللہ( کب آئے گی اللہ کی مدد؟سورہ بقرہ ، آیت214 )۔
اس سوال کے تعلق سے ایمان والوں کے لئے اللہ کا تاابدانتباہ ہے: کیا لوگ( مراد مسلمان) یہ سمجھتے ہیں کہ اتنا کہہ کر چھوٹ جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کو آزما نہ لیں گے ، ہم نے جانچا پر کھا اُن کو جو ان سے پہلے (زمانوں کے صاحب ِ ایمان لوگ ) تھے، سو البتہ اللہ معلوم کر ے گا جو لوگ( ایمان میں ) سچے ہیں اور معلوم کر ے گا ان لوگوں میں جو (ایمان ) میں جھوٹے ہیں ( سورہ عنکبوت۔ آیت۱تا ۳) آپؐ صحابہ کرام ؓ کی اس فریاد کاکیا جواب دیتے ہیں ، اُسے حبابؓ بن الارت یوں بیان کر تے ہیں: رسول لولاک ؐ کعبتہ اللہ کے سائے میں اپنی چارد سے ٹیک لگائے تشریف فرما ہیں ،ہم آپ ؐ کو کفار کے مظالم و شدائد کی بپتا سناتے ہو ئے عرض کر تے ہیں: یا رسول اللہ صلعم آپ ہمارے لئے اللہ سے مدد اور دعا کیوں نہیں مانگتے؟ یہ سنناہے کہ آپ ؐ ایک دم سیدھے ہوکر فرماتے ہیں: تم سے پہلے ایک شخص (کوئی بھی باایمان فرد) کے لئے گڑھا کھودا جاتا، اُسے ( اپنی کافر قوم ایمان باللہ کی پاداش میں سزا دینے کے لئے) اسی میں کھڑاکیا جاتا اور اسے آری سے چیر کر دو پھاڑ کر دیا جاتا، مگر یہ سب کچھ اُس کو اس کے دین سے نہ ہٹاتا۔ اسی طرح کسی (ایمان والے ) کے جسم پر لوہے کی کنگھی چلاکر اس کے گوشت اور پٹھے اور ہڈیوں سے ادھیڑ دئے جاتے، مگر یہ سب کچھ اس کو اس کے دین سے نہ ہٹاتا(البخاری) ۔ شوق کا پرندہ سمجھا کہ اصل بات یہ ہے اللہ تعالیٰ کفار کے جبر وتشدد کا یہ ہفت خوان غیور وجسو ربہادرمسلمانوں کے صبر کا امتحان اور عشق کی آزمائش کر رہاہے، نیز اللہ نے ہی پیغمبر آخر الزماںصلعم کو مزاجاً لازوال خوب صورتیوں کے گل بوٹوں سے مزین کیا ہے کہ آپؐ بردبار ہیں ، حلیم الطبع ہیں ، شریف النفس ہیں ، صلح جوئی میں سبقت کر نے والے ہیں ، جنگ پر امن کو فوقیت دینے والے ہیں، لڑائی جھگڑے کی ہر صورت سے اجتناب برتنے والے ہیں ،صبر وبرداشت کے فلک بوس کوہ وجبل ہیں ،اس لئے دعوت ِ اسلام کی شاہراہ پر چلتے ہوئے رنجشیں اور کلفتیں بہ صمیم قلب گوارا کئے جا ر ہے ہیں، مشکلات کی یورشیں بر داشت کر رہے مگر کبھی بھی کفار کے موانع سے دل برادشتہ اور نہ گمراہوں کے مظالم سے کم ہمت ہورہے ہیں ۔ آپ ؐ کواسلام کی راہ میں ہر نوع کی دل آزاری اور تمام آزمائشیں شان ِ بے نیازی کے ساتھ قبول ہیں ، البتہ منکرین کے منہ پر حق بات کہنے میں آپ ؐ کوذرہ بھر بھی تامل نہیں ، سچائی بولنے میں زبان میں کوئی لکنت نہیں ، باطل کے سامنے کوئی مداہنت نہیں ، ابلیسی نظام سے کوئی سمجھوتہ بازی نہیں، کچھ اپنی کہئے کچھ ہماری کہئے کی سوداگری سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ انہی ہمہ جہت صفات کا پرتو آپ ؐ مکہ کی مسلم اقلیت میں منتقل کر رہے ہیں ۔ اسلام ان سعید روحو ںمیں صداقت اور شجاعت وبہادری کا جوہر بھرتاجارہاہے کہ یہ ہرشیطان وخبیث روح کے خلاف بھر پور مزاحمتی قوت سے مالامال ہیں ۔ انہیں دورسے دیکھ کر ہی محسوس ہوتا ہے اسلام مردان ِ کار کا دین ہے ، یہ نرم دم ِ گفتگو گرم دم ِ جستجو کا اسلوب ِحیات ہے، یہ اپنے پیروکاروں کو بزدلی، دوں ہمتی ، کم ظرفی یا زندگی کی معرکہ آرائیوں سے پیٹھ موڑنا نہیں سکھاتا بلکہ یہ انہیں مومنانہ صفات، داعیانہ بصیرت اور شجاعانہ ہمت کا قرینہ دیتا ہے ، ساتھ میںبرے سے برے حالات کو صالحیت کے قالب میں ڈھالنے کا دعوتی اور تبلیغی نقش ِ راہ فراہم کرتاہے۔ بزدلی انسانی شخصیت کا ایک بدنما عیب اورسقم ہے ،اسلام کو اس سے طبعاً چڑہے ، اس تعلق سے یہ مسلمانوں کے لئے تریاق ہے ۔ چناںچہ اکثر وبیش تر رسول ِ رحمت ؐ اللہ کے حضور دست بدعاہوتے ہیں: اے اللہ! مجھے بے چارگی(عجز)، کاہلی (کسل)، بزدلی اور بڑھاپے سے نجات دے۔ حدیث ِ رسول ؐہے کہ ایک ا نسان میں سب سے بڑی بداخلاقی گھبرا دینے والا بخل اور دل ہلادینے والی بزدلی ہے ( ابو داؤد)۔ آپؐ ایک صحابی عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے نام اپنے مکتوب مبارک میں رقم طراز ہیں: جب دشمن سے مقابلہ پڑے تو ثابت قدم رہ ‘‘ا ور آگے تحریر فر ماتے ہیں: یقین کرو بہشت تلواروں کی چھاؤں میں ہے‘‘ ۔ یہ مکتوب پیغمبراسلامؐ کی غیر معمولی بہادری کا ایک زریں اشارہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دوران ِجنگ صحابہ کرام ؓ اپنی حفاطت کے لئے آپ ؐ کے سائے میں جاکھڑ ے ہوجاتے جس طر ح کو ئی شیر خوار بچہ اپنی ماں کی آغوش ہر خطرے کی ڈھال سمجھتا ہے ، کئی بار آپ ؐ تن تنہا دشمن کی خبر لینے ان کی صفوں میں شمشیر بدست تشریف لے جاتے۔ ایک موقع پر مدینہ منورہ خطرات کے محاصرے میں ہوتاہے، صحابہ کبار ؓ شہر کی حفاظت کے لئے شبانہ گشت دے رہے ہیں۔ اتفاق سے ایک دن دوران ِ شب شہر کے باہر سے شور بپا ہو جاتاہے۔ پہرے دار شور شرابے کوحملے پرقیاس کر لیتے ہیں ، کوئی کہتاہے رسول اللہ ؐ کو اطلاع دی جائے ، کوئی کہتاہے نہیں ، پہلے جاکر اصلیت کا پتہ لگانا چاہیے ۔ ابھی صحابہ ؐ اسی گومگو میں ہیں کہ جدھر سے شور سنائی دیتاہے، اسی طرف سے کوئی گھوڑ ا دوڑاتا آتاہے ۔ رات کے ا ندھیر ے میں پتہ نہیں چلتا کون گھوڑا سر پٹ دوڑائے چلا آرہا ہے۔ گھڑ سوار قریب آتا ہے تو معلوم پڑتا ہے کہ گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس سوارہیں۔ آپ ؐ پہرے داروں سے فرماتے ہیں:ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں، میں دیکھ آیاہوں، کوئی خاص بات نہیں۔( البخاری)
کفار ومشرکین کے گھیرے میں رہ رہی مکہ کی مٹھی بھر مسلم اقلیت کو اللہ تعالیٰ کفو ایدیکم ( ا پنے ہاتھ دشمن کے خلاف روکے رکھو۔۔۔ سورہ النساء آیت ۷۷ ) کا حکم ضرور دیتا ہے، مطلب یہ کہ کفار کی جانب سے تم پر دعوت کی تردید میں استہزاء و تضحیک کے تیر برسیں یا جبر وقہر کی تلواریں اُٹھیں ،تم اپنے ہاتھ باندھے رکھو لیکن انہی مسلمانوں کو میدانِ جنگ میں جب کفار کے ساتھ رَن پڑتاہے تو اَشداء علی الکفار (کافروں پر سب سے زیادہ شدید۔۔۔ سورہ فتح آیت ۲۹) ہونے کا اعزاز ملتا ہے۔ انہیں زور و قوت اور تازہ دم گھوڑے تیار رکھنے کے رموز واسرار بتائے جاتے ہیں ( سورہ انفال ۔۔۔ آیت ۶۰ )، انہیں فریق مخالف کی قلت وکثرت سے مر عوب ہوئے بغیر جدو جہد کی جادہ ومنزل دکھا ئی جاتی ہے ، انہیں فتح وشکست کا تعین انسانی سوچ کی ناقص ترازو میں نہیں بلکہ آخرت کی کامیابی او رناکامی کے میزان میں کرنے کے فن ِایمان سے مانوس کیا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب جب اسلام کے دفاع میں وقت کے تقاضے ان پاک نفوس صحابہؓ کو میدانِ عمل میں کودنے کے لئے پکارتے ، تو یہ خوشی خوشی میدانِ عزیمت میں بہادری کی عدیم المثال تاریخ رقم کرکے لوٹ آتے۔شہادت یا فتح کے مومنانہ جذبات سے سرشار یہ لوگ واپسی کی کشتیاں تک جلاڈالتے۔ بدر وحنین کے غزوات میں محض اللہ پر غیر متزلزل ایمان و اعتماد کا سہارا ہی ان کا سلحہ و سامان بنا ۔ ۔۔اور پھر جب آفتابِ عالم تاب صلی ا للہ علیہ وسلم انہی شجاع وبہادر جان نثاروں کو اپنے وصال کا حوصلہ شکن اور ہوش رُبا غم دے کر رفیق ِاعلیٰ سے مل جاتے ہیں تو عین اسی گھڑی بے نیاز اللہ رنج سے نڈھال ان مومنین ِ باصفا کی بہادری وشجاعت کا امتحان لینے لگتاہے ۔اس کڑی آزمائش میں بھی رسول اکرم ؐ کے رہین ِتربیت یہ عظیم المرتبت صحابہ ؐ سرخ رُو ہو جاتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ا ن کو تو اسلام کے عشق، توحید سے محبت اور پیغمبر اعظم وآخر صلعم کے بے پایاں محبانہ اتباع نے اس قدر بہ دل وجان مسخر کر رکھا ہے کہ ایمان واعمال کے بل پر یہ پہاڑوں کوریزہ ریزہ کرنے ، سمندروں کا سینہ چیرنے ، زمین کی نچلی تہوں کو تلاش وجستجو کے کدال سے اُکھاڑ نے پچھاڑ نے، قوموں کی تقدیریں بدلنے ، ملتوں کو دامن ِگرفتہ ٔ اسلام بنانے ، جہالت کی ماری دنیا میںعلم وہنر کی ضیا پاشیاں کرنے کی بے انتہا صلاحیتوں سے مالامال ہیں۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ا للہ تعالیٰ فرقت ِسرکار دوعالم صلعم کے وقت امت کو درپیش ناگفتہ بہ اوردردناک حالات کا نقشہ یوں کھینچتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا سے تشریف لے گئے تو عرب کے شورش پسندکفار نے ہر طرف سے امت مسلمہ پر حملہ بولا، ایک جانب مانعین ِزکوٰۃ ہیں ، دوسری جانب مسیلمہ کذاب اورا س کی جھوٹی نبوت ماننے والے مر تدین ہیں۔مسلمانوں کی حیثیت وہ ہوگئی جو ایک انتہائی سرد برسات کی رات میں جب بارش ہورہی ہو اور رات تاریک ہو،ایک ایسی بکری کی ہوتی ہے جو اپنے گلے سے بچھڑ گئی ہو اور گلیوں میں کھڑی ہو، اور اُسے کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ کیا کرے اور کہاں جائے۔ یہی مایوس کن کیفیات جب محمد مصطفے ٰ احمد مجتبیٰ صلعم کے داغِ مفارقت سے مسلمانوں کے قلب وجگر کو کانٹے کی طرح چبھ رہی تھیں ، تو اللہ تعالیٰ اگر میرے والد ( پیغمبر کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمدم ِ دیرینہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ ) کے ذریعے سے مسلمانوں کی رہنمائی نہ کرتا تو کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کیا پیش آتا ۔ اس موقع پر حلم و شرافت اور نرمی وملائمت کے پیکر ومجسم خلیفہ اول صدیق اکبر ؓ اسلام کی سکھلائی ہوئی شجاعت کو بروئے کار لاتے ہیں اور ۱۲؍ لشکر ترتیب دے کر فوراً دشمنان ِ دین کی سرکوبی کے لئے مختلف متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ کر تے ہیں۔ یہ بہادر لشکر اپنی غیر معمولی ہمت اور جرأت ِرندانہ سے اتنا مجاہدانہ کام لیتے ہیں کہ وقت کے فتنے دم توڑ جاتے ہیں، شورشیں دب جاتی ہیں ، اسلام مخالف لہریں ناپید ہو جاتی ہیں ۔ حق وباطل کی اسی آویزش میں جنگ ِیمامہ کی تاریخِ عزیمت قلم بند ہوجاتی ہے ۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی ایمان افروز شجاعت کی تابِ مقاومت نہ لاکر جھوٹی نبوت کا دعویدار مسیلمہ کذاب ہی جہنم رسید نہیں ہوتا بلکہ سات سو صحابہ کرام ؓ میدان جنگ میں دادِ شجاعت دے کر بدرجہ ٔ شہادت پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ سارے نظارے شوق کے پرندے پر واضح کر رہے ہیں کہ سابقون الاولون بلاشک وشبہ مکہ معظمہ میں پسے جارہے ہیں ، ان کا قافیہ حیات تنگ کیا جارہاہے،ا ن کے لئے دشو اریوں کے نئے نئے مورچے کھولے جارہے ہیں ، ان کی حق بات کا انکار کیا جارہاہے مگر یہ اولوالعزم ہستیاں اپنے ہادی ورہنما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر اسلامی دعوت کے وسیع تر مفاد میں ہر زخم، ہردرد ، ہر ٹھوکر، ہر امتحان، ہر آزمائش کے جواب میں کشادہ پیشانی سے اپنے جان ومال کے دشمنوں کو صرف ہدایت و ایمان کی دعائیں دے رہے ہیں ۔ اگر انہیں مقابلہ آرائی کا حکم ہوتا تو کفار کے چھکے چھوٹ جاتے۔ بہر کیف ہجرت ِحبشہ اور اہل ِطائف کے انکار ِاسلام کے بعد اب اللہ کی نصرت ومدد بر جوش آتی ہے ، اب آہستہ آہستہ فطری تدریج کے ساتھ تاریخ اسلام کا یہ سارا غم آگیں منظرنامہ صرف تین سال کے عرصے میںپلٹا چاہتا ہے اور مکہ معظمہ کی تاریخ کا نیا شاندارباب معراج نبوی ؐ کے بعد ہجرتِ مدینہ سے شروع ہو اچاہتا ہے ۔
(بقیہ اگلےجمعہ کو ملاحظہ فرمائیں)