پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم مکہ معظمہ کا ہمہ وقت امتحان خلوص استقامت ، ایثار توکل کی تمام تر بلندیاں اور رفعتیں چھوتے ہوئے کامیابی سے دیتے ہیں، طائف کی کڑی آزمائش کا سامنا لا مثال عزم وحوصلے سے کر تے ہیں، تب جاکر ملاء اعلیٰ کی سیاحت میں لقاء اللہ کا وہ اعزازِ فضیلت محبوبیت پاتے ہیں جو اولین وآخرین میں صرف اور صرف آپ ؐ کے لئے مخصوص ہے۔ آپ ؐ ایک ارمغان ِاحسان وسرور یا اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک ۔۔۔ نماز۔۔۔ کو اُمت کے واسطے خدائی ڈا لی لاکر فرماتے ہیں کہ نماز مومن کی معراج ہے ، یعنی مومن کے لئے دن میںاپنی تمام شرائط کے ساتھ پنج وقتہ نماز کا اہتمام لقاء اللہ کے پانچ مواقع عطاکرتا ہے ۔ مکہ میں امتحان کا پہلا پر چہ اب اپنے اختتام کو آیا چاہتاہے ، اب ربِ کریم آپ ؐ کے دست ِ حق پرست میں دوسرا پرچہ تھما دیتاہے۔ یہ پر چہ بالفعل مسلمانوں کے لئے ایک کڑی آزمائش ہے اور بے نیاز اللہ کو دیکھنا یہ مقصود ہے کہ ایمان والے اللہ کی محبت میںاپنا رشتہ وپیوند ، اپنی جائیدادیں ، اپنے باغ بغیچے، اپنی تجارتیں، غرض اپنی ہر چیز تج دینے کو تیار ہیں کہ نہیں ۔ اس پرچے کی صورت میں مکہ کی سرزمین سے تیرہ برس طویل دعوتی جدوجہد کے تیر ونشتر سہنے کے بعد اب مدینہ طیبہ کی ہجرت کا خدائی حکم آیا چاہتا ہے ۔ بے شمار قربانیاں اور مہاجرت ۔۔۔ دس سالہ مدنی دور آپ ؐ پر بے حدو حساب کامیابیوں کے نئے راستے اور نئی منزلیں وا کر نے والا ہے ۔ مکہ میں ختم الرسل ، دانائے سبل ، مولائے کل ایک مظلوم داعی الیٰ اللہ ہیں ، دست ِمبارک بندھے ہیں، اشتعال کاجواب صبر ہے ، شرارت کے مقابلے میں شرافت ہے، حملوں کا ردعمل دعائیں ہیں ، کا نٹوں کا بدلہ پھول ہیں، جذبات پر بے انتہا قابو ہے۔ ایک داعی کے لئے خالص یہی آزمائشیں سرخ روئی کے زینے ہوتے ہیں جن پر وہ یکے بعد دیگرے چڑھ کر اللہ کی رضا کا امیدوار بن سکتاہے مگر چونکہ آپ ؐ کے اسوۂ حسنہ میں ہمہ جہتی بھی ہے ہمہ وقتی بھی ہے ، یہ زمان ومکان کے حدودو قیود سے بالاتر ہے ، یہ ہر درد کی دوا ہے ،ہر مرض کی شفا ہے ، اس کی کاملیت اور جامعیت بے حد وکنارہے ، یہ بہار وخزاں کا پابند نہیں، یہ دنیا کو زاہدوں، مرتاضیوںاور تارک الدنیا درویشوں کا ایک ہجوم سپرد کر نے کا نقش ِراہ نہیں بلکہ اس میںدنیا کے حسنہ اور آخرت کے حسنہ کا ایک حسین امتزاج موجودہے ، اس میں ایمان والوں کے لئے راتوں کی سجدہ گزار ی دنوں کی شہسواری کا متوازن ا سلوب مخفی ہے ۔ نبی ٔاسلامؐ بیک وقت الملحمتہ یعنی تلوار کے دھنی اور المرحمتہ یعنی رحمت کے پیکر ہیں۔ آپ ؐ ہی کا فرمان ہے میں جہاں انسانوں کے مسکراہٹیں بکھیرتاہوں وہاںظالموں کے لئے شمشیر براں ہوں۔ لہٰذا ہجرت کے امتحانی پر چہ کی وساطت سے آپ ؐ ا للہ کی منشاء کس کس رنگ میں پوری کر نے والے ہیں، ا س کاایک ایک منظر لاجواب و بے مثال ہے۔
ہجرتِ مدینہ کی برکات سے ہی آپؐ پہلی اسلامی ریاست کے دستور ساز ادارہ ہیں ، شاہِ امم ہیں ، سر براہ ِ مملکت ہیں ، بہترین پالیسی ساز ہیں ، مساجد کے موسس ہیں ، انصار ومہاجرین کے درمیان مواخات و مساوات کے موجد ہیں ، سپہ سالارِاعظم ہیں ، فاتحِ بے بدل ہیں، صلح ناموں کے محررجنگ کے معلن معاہدوں کے دستخط کنندہ ہیں، بہادری ،انفاق فی سبیل اللہ، رحم دلی کے عملی نمونہ ہیں ، جنگ میں کبھی غالب کبھی مغلوب ہونے والے ہیں ، منافقین کے فتنہ و انتشار کا دانش مندانہ توڑ کرنے والے ہیں ، قاضی القضاء ہیں، میثاق ِ مدینہ کے خطوط پر اتحاد بین الملل کے مورث ہیں ، مذہبی رواداری کے عامل ِبے بدل ہیں، آزادی ٔ اظہار کے حقیقی حامی ہیں، سفارت کاری و مکتوب نگاری کے وسیلے سے دعوت دینے والے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سیرت مبارک کی یہ جملہ نور بیز شعاعیں اور تاریخ ساز جہتیں اُس وقت تک زیر پردہ رہتیں جب تک آپ ؐ مدینہ طیبہ ہجرت نہ فرماتے ۔
شوق کا پرندہ محسو س کررہاہے کہ قیام ِمکہ کے آخری ایام قریب آرہے ہیں ۔ چنانچہ نبوت کے گیارہویں سال موسم ِحج میں یثرب سے سال ِ رفتہ چھ ایمان والوں میں سے پانچ مسلمان اپنے ہمراہ مزید سات خوش نصیب حاجیوں کو رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت علی الاسلام کے لئے دربارِ رسالت میں لاتے ہیں ۔ وفد میں قبیلہ ٔ اوس کے دو خوش خصال آدمی بھی شامل ہیں ۔ اسلام پر بیعت وادیٔ منیٰ میں پہلے کی طرح خفیہ انداز میں عقبہ کے مقام پر ہوتی ہے ۔ عقبہ جمرہ اولیٰ کے قرب میں ایک تنگ پہاڑی گھاٹی ہے، اسی مناسبت سے عقبہ کہلاتی ہے ۔ یہ پہلی بیعت ِعقبہ ہے ۔ آپ ؐ فداکاران ِاسلام کے وفد سے یہ عہدو پیمان لیتے ہیں : اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، چوری نہ کرنا، بدکاری میں ملوث نہ ہونا ، اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا، اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیان (یعنی زبان )سے گھڑ کر کوئی جھوٹی بات نہ کہنا، کسی بھلی بات میں میری نافرمانی نہ کر نا۔ ان امورات پر بیعت لے کر اس کے اجر وثواب اور معاوضے پر بھی واضح بات ہوتی ہے ۔ آپ ؐ فرماتے ہیں: ان نصائح پر جو پورا پوراعمل کرے اللہ کا اجر اس پر واجب مگر جوکوئی شخص ان میں سے کسی چیز کا مر تکب ہو تو دنیا میں مستوجب ِسز ا ہے جو اس کے لئے کفارہ ہے ۔ اور جوشخص ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے مگر اللہ اس کی پردہ پوشی کر ے ، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد،چاہے سزادے یا معاف کر دے۔ بیعت کے بعد وفد کے ارکان وطن لوٹنے کی رخصت لیتے ہیں توآپؐ ان کے ہمراہ ایک نوجوان سفیر مصعب بن عمیر ؓ کو مدینہ کے نومسلموں کی تعلیم وتربیت کے لئے روانہ فرماتے ہیں۔ تعلیم وتدریس کے تسلی بخش بندوبست سے ہی مسلم معاشرے میں دین کی فکری اور عملی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔ مصعب ؓ مدینہ میں اپنے مدنی بھائی حضرت اسعد بن زُراہ ؓ کے گھر میں اقامت رکھتے ہیں ۔ دونوں مل کر جوش اور ولولے سے تبلیغ ِاسلام شروع کر تے ہیں، اتنا جوش وخروش ہے کہ مصعب ؓ مٹھی بھر مدنی نومسلموںمیں مُقری یعنی ا ستاد کے نام سے مشہور ہوجاتے ہیں ۔ مدینہ میں حق کی مشعل ابھی مدہم ہے،اسے بتمام وکمال فروزاں ہونے کے لئے ابھی قبیلۂ بنی عبدالا شہل کوایمان کی دولت سے سرفراز ہونے دیجئے۔ لیجئے وہ دن بھی آہی جاتا ہے ۔ اس روز دعوت ِ دین کے سلسلے میں یہ دونوں اصحاب ؓ عبدالاشہل اور بنی ظفر کی بستی میں تشریف لے جاتے ہیں ۔ یہاں ایک باغ میں کنویں پر فر وکش ہیں۔ ان کے اردگرد چند نومسلم ہیں ۔ بنی عبدالاشہل کے سردار سعد بن معاذؓ اور اسید بن حضیر ؓ ابھی اپنے آبائی شر کیہ عقیدے پر ابھی قائم ہی ہیں کہ انہیں پتہ چلتا ہے کہ دومسلم مبلغین قبیلے کے نوجوانوں کو العیاذ باللہ’’ گمراہ‘‘ کرنے آئے ہیں ۔ سعدؓ اپنے ساتھی اسیدؓ سے کہتا ہے ذرا جاکر ان مبلغین کی خبر لو جو ہمارے کمزوروں کو احمق بناتے پھر رہے ہیں ۔ ڈانٹ ڈپٹ کر کے اُنہیں یہاں سے چلتا کرنا۔ میںخود جا نہیں سکتا کیونکہ اسد ؓ میرا خالہ زاد بھائی ہے ۔ اُسیدؓ اپنا حربہ اٹھاکر اُن دونوںکے پاس چلا آتا ہے، غصے سے مغلوب اس کی حشمگیں چہرے سے نفرت کی چنگاریاں ٹپکتی ہیں۔ اُسیدؓ کو دور سے ہی اپنی جانب آتا دیکھ کر اسعد ؓ اپنے ساتھی مصعب ؓ سے فرماتے ہیں : یہ اپنی قوم کا سردار ہے۔ وہ جواباً کہتے ہیں: اگر بیٹھا تو بات کروں گا ۔ اُسیدؓ آتے ہی ان دونوںپر کھڑے کھڑے برس پڑتے ہیں: ہمارے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو ، اگر جان پیاری ہے تو یہاں سے نو دوگیارہ ہوجاؤ ، پھوٹو،چلتے بنو۔ مصعب ؓ اعتماد اور اپنائیت کے لہجے میں اُسیدؓ سے کہتے ہیں کیوں نہ آپ بیٹھ کر ہماری بھی کچھ سنیں ۔ بات دل کو پسند آئے تو قبول کریں، ناپسند ہو تو چھوڑدیں ۔ اُسیدؓ کا دل اللہ اسی وقت اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔ وہ اپنا حربہ گاڑ کر نیچے بیٹھ جاتا ہے تو مبلغ ِاسلام دل کو چھونے والے آواز میں تلاوتِ قرآن شروع کر دیتے ہیں ۔ تلاوت کی حلاوت سے اُسید ؓ کا چہرہ یکایک نورانی کیفیات سے چمک اُٹھتاہے ، دل کی دنیا میں انقلاب آجاتا ہے ، ذہن کا تالا کلامِ خداوندی کے لطف وعنایات سے کھل جاتا ہے ، دفعتاً زبان سے یہ کلماتِ خیر نکلتے ہیں : یہ تو بڑا ہی عمدہ ہے ، بہت خوب تر ہے۔ تم لوگ کسی کو اس دین میں داخل کرتے ہو تو کیا کرتے ہو؟ مصعب ؓ فرماتے ہیں آپ اٹھئے غسل کریئے ، کپڑے پاک کریئے، کلمہ ٔ شہادت ورد زبان کریئے اور اخیر پر دورکعت نماز اادکریئے ، آپ ماشاء اللہ مسلمان ہوگئے۔ اُسیدؓ اسی ترتیب کے ساتھ یہ ساری چیزیں کر کے اسلام کا دامن ِگرفتہ ہوجاتا ہے ۔ اب وہ چاہتا ہے کہ اس نعمت ِغیر مترقبہ سے کیوں نہ سعد بن معاذؓ بھی بہرہ ور کیا جائے۔ وہ داعیانِ ا سلام سے کہتا ہے میرے پیچھے ایک اور متنفس ہے،ا گر وہ دین اسلام کا پیرو کارہوا تو اس کی قوم کا کوئی بھی فرد بشر قبولیت ِاسلام سے پیچھے نہ رہے گا ۔ سب کے سب ایک دم دامن ِ تو حیدمیں آباد ہوجائیں گے ۔ اُسیدؓ واپس سعد ؓ کے پاس جاتا ہے ۔ وہ اپنی قوم کے ساتھ مجلس آرا ء ہیں ۔ اُسیدؓ کے چہرے کے بدلے بدلے تیور دیکھ کر وہ تاڑ جا تاہے کہ کچھ نہ کچھ انہونی ہوئی ہے۔ سعد ؓ اپنے حواریوں سے بلا تامل بولتاہے: واللہ یہ وہ چہرہ نہیں جسے لے کر اُسید ؓلے کر گیاتھا۔ نومسلم اُسیدؓ سے سعدؓ کا سوال ہے : کیا کیا تم نے ؟ جواب ملتا ہے : دونوں سے گفت وشنید کی، واللہ مجھے کوئی حرج نظر نہ آیا ، میں نے ا ُنہیں منع کیا تو کہنے لگے ہم وہی کریں گے جو آپ چاہیں۔ اُدھر مجھے معلوم ہوا بنی حارثہ اسعد ؓ کا کام تمام کر نے گئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں اسعدؓ آپ کا خالہ زاد بھائی ہے، اس لئے ان کی خواہش ہے کہ اس کے قتل سے آپ کا عہد توڑ دیں ۔ یہ سننا ہے کہ سعد بن معاذ ؓ کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں۔ غصے کے عالم میں اپنا نیزہ اُٹھائے وہ مبلغین ِاسلام کی جانب چلے جاتے ہیں ۔ اسعد ؓ اپنے ساتھی مصعبؓ سے کہتا یہ شخص قبیلے کا سردار ہے ، پوری قوم اس کی بات مانتی ہے۔ اگر اس نے اسلام قبولا تو پھر کوئی پیچھے نہ رہے گا ۔ سعدؓ دیکھتا ہے کہ دونوں مبلغین بڑے اطمینان سے نشست رکھے ہوئے ہیں۔ سعدؓ آتے ہی ا سعدؓ سے مخاطب ہوتے ہیں : اے ابواُمامہ! قسم بخدا ہمارے درمیان اگررشتے کی قرابت نہ ہوتی تو تم مجھ سے کوئی اُمید نہیں رکھ سکتے۔ تم ہمارے علاقے میںآکر یہ حرکتیں کر رہے ہو جو ہم سے قطعی برداشت نہیں ہو سکتیں۔ مصعبؓ بڑے ہی دل موہنے والے اندازِ گفتگو میں فرماتے ہیں : کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور ہماری بھی سنیں ۔ اگر کوئی بات پسند آئی تو مانیں ورنہ رد کیجئے ۔ سعد بن معاذؓ اس داعیا نہ لجاجت سے متاثر ہو کر بیٹھ جاتاہے۔ مصعب ؓ اسلام کی مبادیات کا تعارف کر کے اپنی دعوتی گفتگو کو قرآن کی تلاوت سے مزین کر تے ہیں تو پاکیزہ فضا کی چاشنی دوچند ہو جاتی ہے ۔ بات از دل خیزد بر دل ریزد کے مصداق سیدھے سعد ؓ کے قلب وجگر میں گھر کر جاتی ہے ۔ وہ بر سرموقع مصعب ؓ کی ہدایت پر اُسید ؓ کی طرح اسلام لانے کے لئے پہلے غسل کرتے ہیں ، کپڑے پاک کر تے ہیں ، کلمۂ شہادت پڑھتے ہیں اور دورکعت نماز ادا کر کے مدینے میں اسلام کی برکات وانوارات سے شہر کی تقدیر بدل کے رکھ دیتے ہیں ۔ سعدؓ اپنی قوم کے پاس اسلام کا طوق فخریہ گلے میں ڈالے پلٹتے ہیں ۔ قوم کی مجلس سے مخاطب ہوتے ہیں : اے بنی عبدالاشہل !تم لوگوں میں ، میںکیا ہوں ؟ جواب ملتا ہے: آپ ہمارے سردار ہیں ، سب سے اچھی سو چ سمجھ رکھنے والے ہیں، ہمارے بابرکت نگران و پاسبان ہیں۔ سعد ؓ دو ٹوک لفظوں میں کہتا ہے: تو سنو! ا تمہارے مرد وزن سے اس وقت تک میری بات چیت حرام ہے جب تک تم سب اللہ اور اس کے رسول ؐ پر ایمان نہ لاؤ ۔ سعد بن معاذؓ کا ا پنے قبیلے میں یہ دبدبہ اور اثر ہے کہ شام ہوتے ہوتے اُصَیرمؓ نامی ایک شخص کے سوا تمام لوگ اسلام کا قلادہ اپنے گلے میں ہنسی خوشی ڈال چکے ہیں ۔ اُصیرم ؓ جنگ ِ احد کے موقع پر اسلام قبول کرتا ہے اور خوش بختی کا حال یہ کہ اُسی روز کفاران ِ مکہ کے ساتھ لڑتے لڑتے شہید ہو تے ہیں، حالانکہ ابھی انہوں نے ایک نماز بھی ادا نہیں کی ہوتی ۔ اُن کی شہادت پر آقائے نامدارصلعم فرماتے ہیں: اُصیَرم نے عمل تھوڑا کیا مگر اجر زیادہ پایا۔ مصعبؓ بن عمیر کا مدینہ کے لئے بطور سفیر اسلام انتخاب کر کے پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے یثرب کی زرخیز مٹی کو اسلام کی شادابی اور سیرابی کے لئے بر وقت فیصلہ فرماتے ہیں۔ توحید کا ڈنکا ایک اجنبی زمین پر بجا کر اگلے موسم ِحج کے موقع پر مصعب ؓ آقائے دو جہاںصلعم کے حضور مکہ معظمہ میں حاضری دیتے ہیں اور آپ ؐ کو اہالیان ِ یثرب کے حالات وکیفیات، خیر طلبی کی تڑپ ، دفاعی قابلیتوں اور جنگی صلاحیتوں کی تمام تفصیلات سے باخبر کر تے ہیں ۔ شوق کا پرندہ دیکھتا جارہاہے کہ اسلام کا بول بالا اور دورہ دورہ کر نے کے لئے اللہ کی مشیت کس طرح اپنا کام کر تی ہے کہ انسانی ظن وتخمینہ کے بالکل اور جمع تفریق کے علی الرغم شجر اسلام مدینے کی دھر تی پر اپنے برگ وبار لاتا ہے۔
(بقیہ اگلےجمعہ کو ملاحظہ فرمائیں)