کعبہ مقدسہ سے چند فرلانگ دور منیٰ اورعرفات سے گزرتے ہوئے بائیں جانب غار ِحرا( بائبل کا فاران ) اپنی فلک بوس چٹانوں سے ہمارا استقبال کر رہاتھا ۔صدیوں سے سرد وگرم موسموںکا مقابلہ کرنے والے اس سنگ و ریگ کے گلشن ِنوبہار کا دیدار کر کرکے بھی شو ق کا پنچھی سیر نہیں ہورہاتھا ۔ میں سوچ سمندر میں مسلسل ڈوب کر تعظیم ،تحیر اور تجسس سے خود کلامی میں لگا: تو یہی ہے وہ مقامِ اقدس جہاں محمد بن عبداللہ کا تعارف پہلی بارمحمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ا۔ قربا ن جایئے کہ اللہ خودبوساطت حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ تعارف کراتا ہے۔ خالق ِارض وسماء اولوالعزم فرشتے کو ذمہ داری سونپ دیتا ہے کہ حرا میں اُترکر مقصودِ کائنات ،نبی ٔ آخر الزماں، متلاشی ٔ حق ویزداں ؐ کو میرا سندیسہ پہنچاؤ کہ انفس وآفاق کی جن ابدی صداقتوں کی تلاش ہے، جن گتھیوں اور سوالات کا جواب چاہیے ، جن مسائل ِ حیات کا حتمی حل مطلوب ہے، جن صالح آرزؤں کو کلی اصلاحات کے قالب میں ڈھالنے کا لائحہ عمل درکار ہے، وہ اقراء کی ندا ئے رُبانی سے شروع ہوکر تیئس سال تک مسلسل قرآن کریم دے گا ۔ آپ ؐ کی تمناؤں کا ایک نیا جہان تعمیر ہوگا ، پاک دل و پاک باز مردانِ مومن کا جنم ہوگا ، ایک نئے دورِ علم وآگہی کا آغاز ہو گا ، ایک نئے عالمی نظامِ اخلاق ومعاشرت کی تاسیں ہو گی،ایک نئے عنوان سے حق کی بالادستی اور باطل کی بیخ کنی کا معرکہ بپا ہو گا۔
ذرا سوچئے کہ غارِ حرا کی جس پتھر یلی کوٹھی میں شہنشاہِ کون و مکان، وجہ ٔ تخلیق ِزمین وزماں، سرورِدوعالم صلی اللہ علیہ و سلم تن تنہا ہفتوں جلوہ افروز رہتے ہیں، یہ تین میٹر لمبی، دو میٹر اونچی، زیادہ سے زیادہ ایک میٹر تیس انچ چوڑی کھوہ کوئی تفریح گاہ نہیں، کوئی محل نہیں ، کوئی ایوان نہیں ، کوئی مکتب ومدرسہ نہیں ، کوئی تجربہ گاہ نہیں ، کوئی صحت افزاء مقام نہیں۔ یہاں صرف چٹانیں ہیں ، سناٹا ہے ، ویرانیاں ہیں ، خاموشیاں ہیں ۔ انہی کے بیچ آپ ؐ عبادت (تحنُّث) ، مراقبہ ، تلاش ِ حق، غور وفکر، یادِ خدا میںہمہ تن اور ہمہ وقت منہمک ہیں ۔ یہ مشغلہ ٔ عبادت ہے کیا ؟ غور وفکر اور عبرت پذیری ( عینی شرح بخاری)۔ اپنی باری پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی منصب ِنبوت سنبھالنے سے قبل معبود ِ حقیقی کی جستجو مظاہر قدرت کی گردشوں میں ڈھونڈنے کی سعی کی، ٹمٹماتے کواکب دیکھے ، گمان گزرا ساحل ِ مراد ملی، چاند نے جھلک دکھا ئی ، اسی جانب دل کھچ گیا، سورج کی تجلی پائی ، چونک گئے کہیں یہی میرا خالق ومالک تو نہیں ؟ اجرامِ سماوی کے طلوع اور غروب نے بالآخر حضرت ابراہیم ؑ پرگرہ کشائی کی کہ وہ معبود ہی کیا جو ڈوب جائے ۔ تعقل وتفکر کی وادی سے گزر کر آشنائے منزل ہوئے تو یہ ایمان افروز حقیقت تسلیم کی :میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا، میں اپنا منہ اُس( رب ) کی طرف کرتاہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا ( سورہ ٔ انعام) ۔
رُخ بہ کعبہ غار ِحرا کے خلوت کدے میں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اسی تلاش ِ حق میںاللہ وحدہ لاشریک کی بارگاہ میں روحانی دھرنے پرہیں ، واحد مطالبہ ہے کہ دنیا کا گھپ اندھیرا بندگی ٔ خدا کی روشنیوںسے بدل جائے۔ چونکہ اللہ نے آپؐ کو تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں سب سے زیادہ وسیع النظر ، سب سے زیادہ رقیق القلب، سب سے زیادہ حامیٔ انسانیت بنایا، اس لئے بقول تھامس کارلائل ’’ سفر میں حضر میں ہر جگہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دل میں ہزارہا سوالات پیدا ہوتے تھے:میں کون ہوں؟ یہ غیر متناہی عالم کیا ہے ؟ نبوت کیا شئے ہے ؟ میں کن چیزوں کا اعتقاد رکھوں؟ (ہیروز اینڈ ہیروورشپ )۔
غار حرا کا سنگستان دیکھ کر قلب وذہن میں یہ سوال کلبلانا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر یہ سوالات و استفسارات اتنے بار کیوں ثابت ہوئے کہ اپنا سارا کام کاج ، اہل وعیال ، معمولاتِ زندگی ترک کر کے روزوشب پہاڑی غارمیں خلوت نشینی فرماگئے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ یہ کہیں بھی مذکور نہیں کہ ایک بار بھی آپ کی شریک ِحیات حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی ا للہ تعالی عنہا نے اپنے سرتاج سے سوال کیا ہوکہ آ پ صلی ا للہ علیہ وسلم گھر سے کیوںہفتوں اس سنسنان غار میں پناہ گزین ہوتے ہیں ؟ کیا گھر کی چار دیواری میں مراقبہ نہیں ہوسکتا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ام المومنین ؓ جنہیں صاحب’’ معارف القرآن‘‘ مفتی محمد شفیع صاحبؒ مکہ کی مہذب اور پڑھی لکھی خاتون کہتے ہیں، دل و جان آپؐ کی ایمانی کیفیات وانوارات ، نیک چلنی اور پاک طینت پر نثار ہیں ، جانتی ہیں کہ میرے شوہر نامدار پل پل سے صدیوں کا فائدہ اٹھانے کی بے انتہا اہلیت رکھتے ہیں۔ حضرت خدیجہ ؓ آپؐ کے لئے آذوقہ ٔ حیات لے کر خود غارِ حرا کا چکر لگاتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار آپؐ گھرجاکربہ نفس ِ نفیس پانی کا مشکیزہ ا ور تھوڑاستوگزر اوقات کے لئے غار میں لے آتے ہیں ۔ آپ ؐ غارِ حرا کی راہ سے شاذونادر ہی گزرنے والوں کی خاطر تواضع اسی سادہ توشہ سے فرما تے ہیں ۔ غور فرمایئے کہ پاک زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم رشتہ وپیوند سے ، کار گاہِ حیات کی گہماگہمی سے، دوست واحباب سے گرمجوشانہ تعلقات کے باوجود یکایک تنہائی پسند ہوجاتے ہیں ۔ حالانکہ آپ ؐ شرفائے مکہ میں آرام دہ گھر گرہستی گزار رہے ہیں ، رشتے ہیں ناتے ہیں، عزیزوں کا جاذبِ نظر حلقہ ہے ،ایک بہت ہی مطیع وفرمان بردار زوجہ محترمہ اور پیاری پیاری صاحب زادیاں ہیں، مستندمعتبر اورممتازکاروباری شخصیت کے مالک ہیں ، خوش حالی کایہ عالم کہ آپ ؐ کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہؓ کو اپنی منہ بولی بہو اُم المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ اونٹ کے عطیہ سے اعانت کر تی ہیں، مکہ میں امانت وصداقت کے امام تسلیم ہونے کے ناطے آپ ؐ ذی عزت شہری شمار ہوتے ہیں ۔ ان شخصی وجاہتوں کے باوجود اندر ہی اندر ایک انہونا حزن وغم آپ ؐ کو چاٹ رہاہے ، قلب وضمیر میں عدم اطمینان کی لہریں پیہم دوڑرہی ہیں ، رگ وپے میں مسلسل بے چینی ہے ، طبیعت میں بے سکونی ہے ، چشمان ِ مبارک بے آرامی سے سوجھ رہی ہیں۔ کیوں نہ ہو ، آپ ؐ کے قلب مبارک میں ساری انسانیت کے لئے بے انتہادرد کا سیلاب امڈ آیاہے اورآپ ؐ صاف دیکھ رہے ہیں کہ دنیا بگاڑ و فساد کی آماج گاہ بنی ہوئی ہے ، تہذیب کے چہرے پر بدتہذیبی کی کالک پوتی جارہی ہے، انسانیت پر مردنی چھائی ہوئی ہے ، اخلاقی دیوالیہ پن اپنے عروج پہ ہے، طاقت ور کمزور کو کھلے عام نوچ کھارہاہے، ناانصافی کا بول بالا ہورہاہے ، مذہب شرکیات وبدعات کاپھریرا ہے، حکومتیں ظلم کے پرچم ہیں، نفس پرست پروہت شکم کے مرید پجاری اپنی اُلوہیت کا سکہ چلاتے ہیں ، لات ومنات اور عزیٰ کا گورکھ دھندا خدائے واحد کی توہین کر رہا ہے۔اس جہنم زار کا ایندھن توہم پرستیاں ، بدکاریاں ، چوریاں ، ڈاکے ، دھوکہ دہی، جھوٹ، جوا بازیاں، سود درسود ، رشوت خوریاں، غرور و تکبر ، ڈینگیں مارنا، شیخیاں بگھارنا، حسد ، نشہ بازیاں، غریب اور امیر کے بیچ ناقابل عبور شگاف، من وتو کی تفریق، جنگ وجدل ،خون ریزی جیسے رذائل صدیوں سے مہیا کر رہی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکمران اپنے چیلے چانٹیوں سمیت رعایا کا خون چوسنے کے لئے ظلم ، تشدداور غصب کا سکہ بلا روک ٹوک چلارہے ہیں ۔ نتیجتاً مار اماری ،افراتفری، بے اطمینانی کی باد ِ سموم میں عام لوگ زندہ درگور ہورہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دنیا بھر میں اصلاح و تطہیرکی کوئی نحیف سی آواز بھی کسی گوشے میں نہیں سنی جارہی ، نہ کسی کو ذرہ برابر احساس ہے کہ انسانیت کا بیڑہ غرق ہونے سے کیسے بچا جائے، کسی کو یہ فکر دامن گیر نہیں کہ خدا سے انسان کی ہمہ پہلو بغاوت کی جو آگ چہار سُولگی ہے اُس کی لپٹیں میری جانب بر ق رفتاری سے آکر میرا وجود بھسم کررہی ہیں، نیند کے ان ماتوؤں کو اپنے بچاؤ کی بھی چٹی نہیں ۔ فلسفی ، شاعر، مصور ، نام نہادمصلحین، تقریرباز اور قصہ گو بہتات کے ساتھ پائے جاتے ہیں مگر سب کے سب ذہنی عیاشیوں میں مست ومحو ہیں، اپنا فن اور اپنی صلاحیتیں کلچر اورفروغ ِ ادب کے نام پر اخلاقی بے راہ رویوں، انسانیت کی تخریب ، انسانی اقدا ر کی شکست و ریخت میں کھپا رہے ہیں ، ان کے اعصاب پر زیادہ تر عورت سوار ہے، اوپر سے مفادات کی حشیش کا خمار آنکھوں کا پردہ بنا ہے ۔اس اندھیر نگری میں اگر کسی انسان کو روح کی پیاس کچھ زیادہ ستائے بھی تو وہ دنیا کوپلید کا پلید چھوڑ کرجوگی یا جوگن بنے دشت و بیابان کی نذر ہوجاتا ہے ۔ عیسائیت، یہودیت ، بدھ مت ، وید دھرم ، غرض سارے مذاہب انسانی تحریفات کا تختہ ٔ مشق بن کر مذہبی استحصال کی دوکانیں بنے ہیں ۔ مکہ معظمہ کے جاہلی معاشرے میں چار حساس دل افراد۔۔۔ ورقہ بن نوفل،عبیداللہ بن حجش ، عثمان بن الحویرث اور زید بن عمرو۔۔۔ اس اُجاڑ بستی کی اصنام پرستی ، بت کدے کے اخلاق باختہ متولیوں اور اندھ و شواسی معتقدین کی ناقا بل ِبیان خرمستیاں دیکھ دیکھ کر اپنا ماتھ پیٹ رہے ہیں مگر کسی میں گند اور غلاظت سے روکنے کی جرأت نہیں ۔ اُنہیں بت پرستی کے خرابات وخرافات سے دلی نفرت ہے توہے لیکن سماجی اصلاح کے لئے حالات سے ٹکر لینے کا جذبہ سرے سے مفقود ہے۔ یہ چاروں زیادہ سے زیادہ تنہائی میں جاکر کانا پھوسی کر کے باہم دگر طے کر تے ہیں:سچائی کا عہد کریں، آپس کے معاملات کو دوسروں سے صیغۂ راز میں رکھیں ( یعنی بت پرستی سے ذاتی طور دور رہو مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو)علم حاصل کریں ، اللہ کی قسم ہماری قوم کسی ٹھیک راستے پر نہیں، یہ اپنے باپ ابراہیم ؑ کے دین کو فراموش کر چکے ہیں۔ پتھر کیا چیز ہے جس پر نجاست ڈالی جاتی ہے؟ نہ وہ سنتاہے ، نہ دیکھتاہے ، نہ نقصان دیتا ہے ، نہ نفع پہنچاتا ہے ، اپنے لئے کوئی نیا دین ڈھونڈیں کیونکہ بخدا ہم کسی صحیح طریقے پر نہیں ، ملکوں میں طریقۂ حنیفیہ یعنی دین ابراہیمؑ کی تلاش میں پھیل جائیں ۔ اس قول وقرار کے بعد ورقہ بن نوفل(حضرت خدیجہ ؓ کے عم زاد بھائی) نصرانیت قبول کرکے اہل کتاب کے جید علماء کے سا منے زانوئے تلمذتہ کرتا ہے ۔ عبیداللہ بن جحش اول تشکیک سے باہر قدم رکھنے کی جرأت نہیں کر پاتا،دوم اسلام قبول کر کے مسلمان مہاجرین کے ہمراہ اپنی باایمان اہلیہ(ابوسفیان کی بیٹی ام ِ حبیبہؓ جو بعد میں اُمہات المومنینؓ میں شامل ہوئیں) کو ساتھ لئے حبشہ ہجرت کرجاتا ہے ، افسوس کہ وہاں عیسائی ہو کر مرتد ہوجاتا ہے ا ور حا لت ِارتداد میں مرجاتا ہے۔ عثمان بن الحویرث شاہ ِروم کے دربار تک رسائی پاکر وہیںبطورنصرانی باقی ماندہ زندگی گزارتا ہے۔ زید بن عمرو نہ یہودیت کی بھینٹ چڑھتا ہے نہ نصرانیت اُسے نگل جاتی ہے۔ البتہ بتوں ، مردار،خون اور غیراللہ کے نام پر ذبح ہونے جانوروں سے وہ بوڑھا پرہیز برت لیتا ہے ۔ عالم پیری میں ایک بار کعبے کی دیوار کا سہارا لے کر اپنی درماندگی کا اظہار یوں کرتاہے : اے قریش! اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں زید بن عمرو کی جان ہے، آج میرے سواتم میں کا کوئی شخص دین ِ ابراہیم ؑ پر نہیں رہا۔ یااللہ ! اگر میں جانتا کہ کون سا طریقہ تجھے زیادہ پسندہے تو اسی کے مطابق تیری پرستش کرتا،لیکن مجھے اس کاعلم نہیں۔ زید بن عمرو پھر اپنی ہی ہتھیلی کو سجدہ گاہ بناکر اسی پر سجدہ کر لیتا ہے۔ یہ مکہ کے ان مضطرب’ ’ اہل بصیرت‘‘ کی سرگزشت ہے جنہیں راہ ِ ہدایت کہیں سجھائی نہیں دیتی۔
خداوند قدوس نے پورے کرہ ٔارض پر ایک ہی مقدس ہستی کو ہمہ گیر اصلاح کے تقدیر سازکام کے لئے صدیوں قبل مقرر کیا ہوا ہے۔ یہ مکی الاصل آفاقی شخصیت ۔۔۔ محمد عربی ؐ ۔۔۔ ہیں جوتا قیام ِقیامت پوری انسانی آباد ی میں واحد سعید روح، فطرت سلیم اور نیک سرشت ذاتِ مقدس ہیں ۔ آپؐ نامساعد حالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالتے بلکہ طوائف الملوکی اور نخوستوں کے تیز گام سیلاب کو روکنے کے لئے اولین فرصت میں توحید باری کا بند باندھنے کا غیر متزلزل عزم وارداہ کر تے ہیں ۔ سب لوگوں سے علیحدہ ہوکر تنہائی میں آپ ؐ کوطمانیت ِقلب اور سکون ِ روح مل جاتی ہے ۔ یہ آپ ؐ کی سعادت عظمیٰ کی دلیل ہے کہ مکہ کی سنسان گھاٹیوں سے گزرتے ہوئے شجرو حجر سلام کرتے ہیں ، یا رسول اللہؐ پکار کر آپ ؐ سے اپنی محبت وعقیدت کا والہانہ اظہار کر تے ہیں ۔ آپؐ سلام کر نے والوں کی طرف متوجہ ہوکر اپنے دائیں بائیں ، آگے پیچھے دیکھتے ہیں مگردرختوںا ور پتھروں کے سوا کسی کو آس پاس نہیں پاتے ۔ یہ ایک بلیغ اشارہ ہے کہ آپ ؐ روئے زمین پر کتنی برگزیدہ ہستی ہیں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا: میں مکہ کے ایک پتھر سے اب بھی واقف ہوں جو بعثت سے قبل مجھے سلام کرتاتھا۔(کتاب الفضائل )
کوئی اور ہوتا تو دنیائے انسانیت کی حالت ِزار پر قلباًوذہناً پریشان کیوں ہوتا ، روح کی پکار پر اپنا آرامِ جاں کیوں تج دیتا، راتوں کی نیندیں کیوں اُچاٹ لیتا، دن کا چین کیوں کھوجاتا ۔ وہ ضمیر کے شیش خانہ میں اُٹھنے والے پریشان کن سوالات سے پیچھا چھڑانے کے لئے اسے ہی توڑ دیتا، ہزاروں بہانے بنالیتا، خود کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیتا سنسار اللہ کا مایاجال ہے ، مجھے اس پنگے میں کیا پڑنا ، نہیں ، ہم دیکھتے ہیں کہ سرورعالم صلی ا للہ علیہ وسلم حقائق کی دنیاسے ایک پل بھی فرار لینے کو تیار نہیں ، نہ ا پنے احسا س ِذمہ داری سے ایک لمحہ چھٹی لینے کے رودار ہیں کیونکہ آپ ؐ کے ذمہ من جانب اللہ وہ تاریخ سازکام ہے جو کسی اور سے ہو ہی نہیں سکتا ۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ آپ ؐ کی نشوونما خاص الخاص انداز سے بڑی دیر کرتا رہاجس کے طفیل ایک بگڑے ہوئے انسانی سماج میں پیوستہ ہونے کے باجود آپ ؐ کے دامن ِ عصمت پر بھولے سے بھی جاہلیت، بت پرستی، لہو و لعب ، بری عادات ، زمانے کی بدچلنی کی معمولی چھینٹ تک نہ آئی۔یہ اسی کی دین ہے کہ آپ ؐ تاریخ عالم کا رُخ موڑنے کے تعلق سے تعمیر انسانیت اور اصلاحِ جہان کا لامنتہیٰ ذوق وشوق سے بداجہ ٔ اتم لیس ہیں۔ غار ِحرا کی آغوش میں خلوت گزینی کے پس منظر میںاصلاً یہی اٹل حقیقتیں دخیل ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک آمدکا سارا زمانہ بے تابی سے منتظر ہے، ابراہیم علیہ السلام نے اس کے لئے جو دعاومناجات کیںاُ ن کو اب رنگ لانا ہے ، انجیل ، تورات ، زبور نے اس کی جو بشارتیں دیں،وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہونی ہیں ، دیگر محرف آسمانی صحائف میں بعثت نبوی ؐکی جو پیش گوئیاں ہیں ، غارِ حرا کے مکین ِاول صلی ا للہ علیہ وسلم ان کو ایک ایک کر کے سچ کر دکھانا ہے۔
…………………………..
( نوٹ بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ)