Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں! قسط۔۔۔54

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 17, 2017 3:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
18 Min Read
SHARE
  مکتبتہ المکہ صفا مروہ کے متصل باب السلام کے سا تھ ہے جہاںرسول اکر م صلی ا للہ علیہ وسلم کا آبائی دولت خانہ موجود ہے جو آپ ؐ کی جائے ولادت ہے۔ ( واللہ اعلم ) عوام وخواص میں یہی مشہور ہے کہ یہ وہ مقدس ومتبرک مقام ہے جہاں پیغمبراسلام صلعم نے بی بی آمنہ کے بطن مبارک سے جنم پالیا۔ چشم ِ تصور میں لایئے وہ گھڑی کتنی بابرکت اور کتنی عظمت والی تھی جب اس مولد پاک میں آپؐ کے انفاسِ مبارک سے اس کے درویوار معطر ومطہر ہوئے۔آپؐ کا ظہور قدسی انسانی دنیا پر ربِ کریم کا دائمی عطیہ ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ خدا ئے متعال نے اس حجرے کو یہ لاثانی و لافانی زینت بخشی کہ رسول لولاکؐ یہاں جلوہ گر ہوئے۔ اللہ نے اس عطر بیز جلوہ گاہ میں نور سرمدیؐ کا استقبال کرا نے کے لئے کرۂ ارض کو بہت بہت انتظارکروایا، بزمِ عالم سجائی، رونق ِجہاں بڑھائی، آتش کدہ ٔ کفر و الحاد کو بجھا دیا ، خم خانہ شرک و بدعت کوڈھا دیا، چمنستانِ دہر کے کاکل سنوارے ۔ تاریخ انسانی میںسدا بہار زینت کی حامل یہ چھوٹی سی عمارت اب دو منزلہ کتب خانہ کی شکل میں ہے جو مکتبتہ المکہ سے موسوم ہے ۔ ایک روز ہم نے فرط ِ شوق اور جوش انبساط میں نمازِ چاشت کے فوراً بعد اس نہایت ہی مقدس ومتبرک جگہ کی پابوسی کے لئے یہاں  حاضری دی۔ میرے ساتھ برادر مکرم حاجی غلام محمد بیگ صاحب کے علاوہ حاجی منظور احمد بیگ صاحب ، صدرہ بل اور حاجی عبدالاحد بٹ صاحب بٹہ پورہ حضرت بل سری نگر بھی تھے۔ رسول محترم صلی ا للہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی بھی شئے ہو تو اس کی زیارت کے لئے دل کا بے محابہ مچلناتڑپنا ظاہر سی بات ہے۔ ہم نے قبل ازیں آقائے نامدار ؐ کے مقامِ ولادت کے بارے میں حاجی غلام محمد بیگ صاحب سے بہت سنا تھا،اس سے شوقِ دیدار کو مہمیز ملی تھی اور تمنائے دیدار دل میں انگڑائیاں لے رہی تھی۔ بیگ صاحب نے کہا کہ آج تک میں نے کئی دفعہ مولدِ رسول ؐ کے اندر جانے کی کوشش کی مگر ہر بار خالی ہاتھ ہی لوٹا۔ اب ہم یہاں ادب وحترام کے ساتھ یہی آرزو لے کے ایستادہ تھے ، خوش قسمتی سے اس وقت کتب خانے کا بیرونی فولادی دروازہ کھلا پایا جب کہ اندر شیشے کا بنا دوسرا دروازہ بند تھا۔ دروازے پر دو وجیہہ عرب دربان کرسیوں پر براجمان تھے۔ میں نے پہلے اشاروں کی زبان میں پھر دوچار عربی ا لفاظ کو جوڑ کر ان سے اندر داخل ہونے کی التجا کی، انہوں نے سر ہلا ہلا کر منع کیا ۔ میں نے ان سے پوچھا کیا ہم آپ انگریزی میں بات کر سکتے ہیں ،ا ن میں سے ایک نے عرب لہجے والی انگریزی میں جواب دیا ہاں ۔ دوتین منٹ میں اس سے ہمیں اندر چھوڑ نے کا باصرار اجازت مانگتا رہا ، وہ نہ صرف انکار کر تارہا بلکہ پوچھتا رہا کہ یہاں کیا ہے ، یہ ایک کتب خانہ ہے ، اُدھر خانہ کعبہ ہے ، وہیں جاؤ ۔ میں نے کہا ہم نے سنا یہ پیغمبر آخر الزماں ؐ کی جائے ولادت ہے ۔ انہوں نے میرے خیال کی نفی کر تے ہوئے کہا کہ ایسانہیں ہے۔ اسلام میں صرف تین مقدس مقامات ہیں جن کی زیارت پر جانے کا حکم ہے: اول کعبہ ، دوم مسجد نبوی ؐ ، سوم مسجد اقصیٰ۔ میں نے پوچھا اگر یہ صرف ایک کتب خانہ ہے تو اندر جانا منع کیوں ہے ؟ وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکا ،ا لبتہ تھوڑا سا نرم پڑکر مجھ سے کہا ا چھاتم فرد واحد اندر آجاؤ ۔ میں بے ا نتہا خوش ، حیران اور جذباتی ہوا ۔ اپنے ساتھیوں سے کچھ کہے بغیر ہی تیزتیز قدموں سے اندر جانے لگا مگر وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آگئے ، دربان نے ازر اہِ کرم انہیں نہ روکا ۔ اندر تینوں اطراف میں دیدہ زیب عربی کتابوں کی شاندار مجموعہ اور ایک سکوت آور فضا طاری تھی کہ جسے لفظوں میں بیان کر نے سے قاصر ہوں۔ میں نے بہ قائمی ہوش و حواس اس مقدس مقام کی زیارت دائیں جانب سے شروع کی ۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ میری نگاہ اس فانوس پر مر کو زتھیں جو الماریوں کے پیچھے کمرے کی چھت سے جھول رہا تھا۔ بعد میں کسی سے یہ سنا کہ کمرے کا یہی وہ مر کز ہے جہاں محمد عربیؐ کی ولادتِ باسعادت ہو ئی۔( واللہ عالم ) ۔ اس نمونۂ جنت کے اندر ایک کونے میں چھوٹے سا کیبن دیکھا جہاں دو عرب کرسیوں پر بیٹھے اپنے کام میں مشغول تھے۔ انہوں نے ہمیں دیکھا تو شایددربان سے خفگی کے ہمیں نکال باہر چلتا کر نے کا اشارہ دیا ۔ دربان نے ہمیں فوراً باہر جانے کا راستہ د کھایا ۔ ہم بادل نخواستہ واپس مڑے مگر باہر آکر دربان کی اس کرم فرمائی کا شکریہ ا س سے بغلگیر ہو کر اداکیا اور مسکراتے ہوئے رخصت لی۔   
    بلا شبہ ہمیں محمد عربی صلی ا للہ علیہ وسلم سے منسوب اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے صرف محبت النبی  ؐ کھینچ لائی۔ آپ ؐ سے محبت اللہ سے محبت کا ہم پلہ ہے، آپؐ خلاصۂ کائنات ہیں ، باعث ِتخلیق ِ کون ومکان ہیں ، وجہ گردش ِ لیل ونہار ہیں، سردار ِ دو جہاں ہیں اور کتنے نصیبوں کی بات ہے کہ اللہ نے ہمیں آپ صلعم کے اُمتی ہو نے کا شرف اور اعزازبخشا۔ اس نعمت ِعظمیٰ اور مقام ومنزلت کا شکرہم کیسے اداکریں؟ اللہ نے ہی یہ راز ہم پر منکشف کیا ہے کہ خود خالقِ کائنات اور اس کے تمام ملائکہ روز وشب محمد رسول ا للہ صلی ا للہ علیہ وسلم کودرود سلام بھیجتے ہیں، ہم بھی اللہ کی نعمت ِغیر مترقبہ کا شکریہ کثرت درود اور آپ ؐ کی اتباعِ کاملہ سے کر سکتے ہیں۔ درود وسلام محبت النبیؐ کا مظہر ہے، تجدیدعہد کہ میں وحدہ لا شریک اللہ کابندہ اور آپؐ کے مطیع فرمان ہوں ۔ محبت النبی ؐ ہر عاقل وبالغ مسلمان کے ایمان کا جزو ِلاینفک ہے ، دنیوی واخروی کامیابی کا واحد راستہ ہے اوریہی ایک مسلمان کی پہچان اور شناخت ہے۔ پکا سچا مسلمان اللہ کی نظر میں وہی مخلص انسان ہے جسے پیغمبر اسلام صلی ا للہ علیہ وسلم کی ذات ِاقدس سے بے پایاں محبت ہو، آپ ؐ کی ایک ایک سنت کی اتباع کا شوق ہو ، آپؐ کی جملہ ہدایات واحکامات قلب وجگر سے قبول ہوں، آپ ؐ کی بلا چوںچرا اتباع کا عزم رگ و پے میں پیوست ہو ، آپؐ کی محبت ہر رشتہ و پیوند، ہر خوشی وغم ، ہر سود وزیاں کے باٹ سے بالاتر ہو ۔ اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلعم سے بے لوث محبت کو شرط ایمان کہا ہیـ۔ ملاحظہ ہو سورہ التوبہ کی آیت۲۴۔
   صحابہ کبار رضوان اللہ تعالیٰ فی الحقیقت عاشقانِ رسول ؐتھے ؟ تاریخ اس بارے میں اتنی ایمان افروز معلومات کے دفاتر ہمیں سونپ دیتی ہے ۔ نمونے مشتے از خروارے کے طور یہ واقعات دیکھئے ۔ یہ صلح حدیبیہ کا نازک موقع ہے ۔ قریش اپنے سفیر عروہ بن مسعود ثقفی کو اپنی طرف سے دربار نبوت ؐ میں گفت وشنید کے لئے روانہ کر تے ہیں۔ عروہ کوبتایاجاتا ہے کہ مسلمانوں کے حالات وکوائف کا عمیق مشاہدہ کر کے واپسی پر اس بابت ہمیں مطلع کر نا۔ عروہ دربارِ رسالت ؐ کے عجیب مناظر دیکھتا ہے کہ وارفتگانِ نبوت اور سعادت مندان ِ اطاعت کا حال یہ ہے کہ آپ ؐ وضو کر تے ہیں تو وضو سے بچے ہوئے پانی پر صحابہ کبار رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں، گویا وہ چھینا جھپٹی سے ابھی ایک ودسرے سے لڑپڑیں گے۔ حضور پر نور صلعم کے لعاب ِ دہن کو جانثاران ِاسلام زمین پر گرنے ہی نہیں دیتے بلکہ یہ ان خوش نصیب ہا تھوں کا حصہ بنتاہے جو اسے بصدشکر و امتنان چہرے پر مل لیتے ہیں۔ آپ کچھ گفتگو فرماتے ہیں تو سب پر سکوت طاری ہو جاتا ہے ، آپ ؐ خاموشی اختیار کر تے ہیں تو کسی میں بولنے کا یارا نہیں، تعظیم وتکریم اور حیا مندی کی یہ کیفیت کہ کوئی آپ ؐ سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات کر نے کی جرأت ہی نہیں کرپاتا، ہر ایک کی نظر آپ ؐ کی جناب میں احتراماً جھکی جاتی ہے۔ عروہ محبت واحترام اوراطاعت شعاری کا یہ حال دیکھ کر مرعوب بھی ہو تا ہے اور متاثر بھی  ۔ قریش کے پاس لوٹ کر اُن سے صاف صاف کہتا ہے میں نے قیصرو کسریٰ کا دربار دیکھا اور نجاشی کا دربار بھی پایا، لیکن صحابہ کرام ؓجو اکرام وتوقیر محمد ؐ کی کر تے ہیں، وہ تو کسی بادشاہ کو بھی اپنے دربار اور ملک میں حاصل نہیں۔ یہ تو بات ہوئی دربارِ رسالت مآب کی ۔ میدان کار زار میں محبت النبی صلعم کامشاہدہ چشم ِفلک نے اس سے بھی زیادہ قابل داد انداز میں کیا ۔ پہلا واقعہ: اصحاب ِ رسول ؐ زید بن وثنہ ؓ کوکفاران ِ مکہ پکڑ لیتے ہیں اور قریش انہیں قتل کر نے کے لئے خرید لیتے ہیں۔ زید ؓ کو صیلب دینے کے لئے مقتل کی طرف لے جایا جارہا ہے ، اسی اثناء میں ابوسفیان بن حرب اس عاشق رسول ؐ سے پوچھتا  ہے: زید ! تجھے اللہ کی قسم کیا تم چاہتے ہو کہ یہ پھانسی ( خاکم بدہن ) محمد عرنی ؐ کو دی جاتی اور تم آرام سے اپنے گھربار میں ہوتے ۔ زیدؓ پورے ہوش وگوش اور اطمینان قلب کے ساتھ دشمن دین کے منہ پر یہ جواب دیتا ہے : واللہ میں تو یہ بھی نہیں چاہتا کہ میری رہائی کے عوض نبی صلی ا للہ علیہ وسلم کے پائے مبارک میں اپنے کا شانہ ٔ نبوت میں کوئی کانٹا بھی چبھے ۔ دوسرا واقعہ : جنگ احد کا خوں آشام معرکہ گرم ہے۔ ایک صحابیہ ہند زوجہ عمرو بن الجموح انصاریہ ؓ کا بیٹا، بھائی، شوہر تینوںجام ِشہادت نوش کرجا تے ہیں۔ ہندہ یہ ہوش ربا خبر سنتی ہیں مگر مدینہ سے نکل کر دوڑے دوڑے وہ میدان ِ جنگ میں آتی ہیں تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ آیارسول ا للہ ؐ خود محفوظ اور صحیح سلامت ہیں۔ یہ مجاہدہ ہر ایک سے پوچھتی ہیںنبی صلی ا للہ علیہ و سلم کیسے ہیں ؟ ہر صحابیؓ ان سے کہتا ہے بحمداللہ وہ بخیر ہیں۔ وہ جواب دیتی ہیں مجھے دکھادیجئے۔ جب آپ ؐ پر اس صحابیہ ؓ کی نگاہ پڑجاتی ہیں تو جوش ایمانی سے بول اٹھتی ہیں : اب تو ہر مصیبت کی برداشت ہے۔ 
مغیرہ ؓسے مروی ہے کہ اگر کسی کو در، مصطفی  ؐ پر دستک دینے کی ضرورت پڑتی تو اپنے ناخنوں سے دروازہ کھٹکھٹایا کر تا ، مبادا تعظیم وتکریم نبی ؐپر کوئی حرف آئے ۔ عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم حضور پرنور کے ہمراہ تھے اور آپ ؐ حضرت عمر ؓ کا دست مبارک تھا مے ہوئے تھے۔ عمر ؓ نے آپ ؐ سے کہا: اے اللہ کے رسول ؐ! آپؐ یقیناًمجھے اپنی ذات کے سوا تمام لوگوں سے زیادہ عزیز ہیں ۔آپ ؐ نے فرمایا: نہیں، قسم اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ایمان نہیں رکھتے جب تک میں تم کو اپنی جان سے زیادہ عزیز نہ ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا : اللہ کی قسم آپؐ مجھے اپنی جان سے زیادہ پیارے ہیں۔ اس پر آں حضرت ؐ نے فرمایا:عمر ؓ !اب تمہارا ایمان مکمل ہو گیا ۔ (بخاری)
  اس دور ِ فتن میں عشق رسول ؐکے حوالے سے ہم لوگ ایمان ،ایثار اور اخلاص کے یہ لامثال خزینے خواب و خیال میں سوچ سکتے ہیں نہ ہی ان کا تصورکرسکتے ہیں۔ ہم صرف مرحبا مرحبا ورد ِ زبان کر نے کو ہی عشق رسول ؐ کا کمال سمجھتے ہیں ۔ بے شک آج بھی رسول اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم کی ذات مبارک کی حرمت پر بہ حیثیت مجموعی اُمت مر مٹنے تک کو تیار ہوتی ہے مگر ناموس رسالت ؐکے ساتھ خود بھی کھلواڑ کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی۔ بایں ہمہ محبت النبی ؐ کی ایسی نادر مثالیں ہمارے درمیان بنتی رہی ہیں کہ جن سے اللہ کے رسولؐ سے ہماری وفا اور ہماری محبتوں کا اٹوٹ رشتہ واشگاف ہوتا ہے ۔ ایسی ہی دو تابناک تاریخی مثالیں مفتی عنایت احمد کاکوروی اور سر سید احمد خان نے سیرت نگاری کرکے اپنی عاشقانہ کاوشوں کے طفیل قائم کیں ۔ مفتی عنایت اللہ بڑے عالم وفاضل تھے ۔ انہیں 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میںانگریزوں کے خلاف فتویٰ  ٔ جہاد جاری کر نے اور عملاً انگریز مخالف تحریک میں شریکِ کار ہونے کے جرم میں کالاپانی یعنی جزائر انڈیمان ( ان ایام کاگوانتامو بے) بھیج دیا گیا ۔ا ن کو یہ سزا دی گئی کہ روزانہ جزائر میں لوگوں کے گھروں سے غلاظت اور گند جمع کر کے اسے بستی سے باہر پھینک آئیں ۔ مفتی صاحب یہ صبر شکن کام گھر گھر جاکر کر تے رہے۔ اسی تکلیف دہ زمانے میں انہیں تحفظ ناموس ِ رسالتؐ کے لئے کوئی علمی محاذ سنبھالنے کی دُھن قلب وجگر پر سوار ہوئی ،مگر نہ ُان کے پاس مطالعے کا وقت میسر تھا اور نہ علمی تحقیقی کام کر نے کی سہولیات۔اسی انتہائی حوصلہ شکن حالت میں انہوں نے سیرت پاک ؐ پر تین کتابیں اپنی یاداشت کی بنیاد پر قلمبند کیں ۔ یہ محض مفتی صاحب کا آپ ؐ کے ساتھ بے محابہ محبت وعقیدت کا نذرانہ تھا جسے سخت ترین اسارت کے دوران انہوںنے حب ِرسول ؐ کے جذبے سے کتابی شکل دے دی ۔انہوں نے اس مسودے کو زیور اشاعت سے آراستہ نہ کر نے کا تہیہ کیا تاوقتیکہ اسے مستند مصاد رو مواخذ کی کسوٹی پر نہ چڑھا ئیں ۔ حسن اتفاق سے ایک مہذب وشریف انگریز سے اُن کی اٹھک بیٹھک بڑھ گئی ،اس شخص کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ قیدی سابق قاضی اور جج ہیں اور علم و دانش کا اتھاہ خزانہ اپنے اندر سموئے ہو ئے ہیں۔ اس نے مفتی صاحب کی شخصیت اور حسن اخلاق سے متاثر ہوکر انہیں عمر قید سے رہائی دلوائی۔ آپ ہندوستان واپس لوٹے تو اپنے تحریری مسودے کا بہ نظر عمیق مواخذِ سیرت کی روشنی میں دُرست پا کر محض اللہ کے رسول ؐ کے تئیں اپنی وارفتگی اور شیفتگی کو توشہ  ٔ آخرت وسبب ِ شفاعت بنانے کے لئے اسے شائع کرنے سعی ٔ جمیلہ کی ۔
 بقیہ اگلے جمعہ کو ملاحظہ فرمائیں۔ انشاء اللہ
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ایل جی منوج سنہا نے امرناتھ یاترا کے پہلے قافلے کو جموں سے روانہ کیا
تازہ ترین
کواڑ پاور پروجیکٹ میں غرقاب مزدور کی نعش بازیاب
خطہ چناب
ہمیں جموں و کشمیر کی روایات کو آگے بڑھاکر یاترا کو کامیاب بنانا چاہئے لیفٹیننٹ گورنر کا جموں میںبھگوتی نگر یاتری نواس کا دورہ ، انتظامات کا جائزہ لیا
جموں
آئی ٹی آئی جدت کاری کیلئے ‘ہب اینڈ سپوک ماڈل پر تبادلہ خیال
جموں

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 12, 2025
جمعہ ایڈیشن

قرآن مجید اور انسان کی فطرت فہم و فراست

June 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?