Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!۔۔ قسط 64

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: June 2, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
 ش   م   احمد
 غارِحرا کتنا خوش نصیب ہے کہ شاہ ِ کون ومکان صلی اللہ علیہ و سلم کی نشست گاہ بنا ، رمضان المبارک کی سعادتیں، رحمتیں، خوشبوئیں، عنایتیں یکجاہوکر اسے بقعہ ٔ نور بنارہی ہیں جب کہ نور گہۂ محبت میں ہادی اکرم ؐ اللہ سے لو لگائے اور عرفان ِ نفس و طہارتِ فکر کی جملہ قوتیں مجتمع کر کے عالم ِانسانیت کی ہمہ جہت تاریکیاں مٹانے کاعزم بالجزم کئے ہوئے ہیں ۔ اس مقامِ حسن ونور اور فضائے طہور تک آپ ؐ کواللہ کی جوش ِ رحمت کھینچ لائی کیونکہ اللہ کوبگڑی دنیا کے گم گشتہ انسانوں کو سرور کائناتؐ کی وساطت سے ہدایت اسلام دینی ہے ۔ اللہ کو اپنے شاہ کار مخلوق سے اُس ماں سے کھربوںگنا زیادہ محبت ہے جو اپنی اولاد کی بھلائی اور خیرخواہی میں دن کاچین رات کاآرام خوشی خوشی گنوا دیتی ہے۔ اللہ نہیں چاہتا کہ یہ گار گاہ ہ ہست وبود اس کی رحمت ورافت سے تہی دامن رہے ، پاکی وطہارت سے محروم رہے ، بخشش اور مغفرت کی اُمید سے خالی رہے۔اسی نے حکمت ِبالغہ کے تحت اپنے کریم النفس آخری پیغمبر ؐ کے نورانی دل میں سوالوں اوربے قراریوں کا بحر بے کراں سمندر موجزن کر کے غار حرا کا دروازہ کھلوایا تاکہ آپ ؐ انسانی دنیا  کی تعمیر نو کا سامان کریں ۔ غارِ حرا خدائی مشیت کا نکتہ آغاز ہے لیکن یاد رکھئے کہ یہاں اپنا پڑاؤ ڈالنے سے لے کر نزول جبرئیل علیہ السلام تک آپؐ کے حاشیہ  ٔ گمان میں بھی نہیں تھاکہ آپؐ اللہ کے آخری رسول اور خاتم النبیینؐ ہیں۔ 
   دنیا میں ہر ذی فہم انسان کا اپنے اپنے ظرف کے مطابق سوالوں سے پالا پڑا رہتاہے ۔ فلسفی کا سوال ہے ہاتھی اتنا موٹا اور چیونٹی اتنی نحیف کیوں ؟ میوہ باغ والا مغز ماری کرتا ہے اخروٹ کے درخت پر ناشپاتی کیوں نہیں اُگتے ؟ ماہر نفسیات پوچھتا ہے غم سے آنسو اور خوشی سے ہنسی پھوٹتی ہے ، ایسا کیوں ؟ دولت مند اس جنجال میں سرگرداں ہے سارے جہاں کا مال وزر تنہا اس کی تجوری سے دور کیوں ؟ غریب اپنی تلخ کامیوں کے بھنور میںپوچھتا ہے سائل ومحروم بنانے والے کو کیوں مجھ پر ترس نہ آیا؟  
 یہ سارے’’ کیوں ‘‘اپنی تشریح وتعبیر کے لئے کسی آسمانی ہدایت یا وحی والہام کے متقاضی نہیں بلکہ فہم وادراک کے دریچے کھولے تو تمام حقیقتیں منکشف ہو ں گی ۔ اس کے علی الرغم غارِ حرا میں گوشہ نشین حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب ِمعظم عالم ِ انسانیت کو درپیش اہم ترین سوالات سے بے چین ہیں اور آپ ؐ ان کے جوابات اپنے اخاذ دماغ اور قلب ِسلیم کے ذریعے سیدھے منبعٔ علم اورسرچشمہ ٔ ہدایت کے حضور سے چاہتے ہیں ۔ کوہ ِ حرا کی کنج ِخلوت میں آنے سے قبل بھی آپ ؐ روحانی مشاہدات وتجربات کی زادِ راہ لئے ان آفاقی سوالات کی مسافتیں کاٹتے رہے ہیںمگر ان کی منزل نہ حرا کی چٹانیں ہیں ، نہ طور کی تجلیاں بلکہ یہ گتھیاں بزبانِ وحی صرف ذاتِ خدا وندکریم سلجھا سکتا ہے ۔ یہ تلاش ِحق کی وہ انمٹ پیاس ہے جو محمد عربی صلی ا للہ علیہ وسلم کی ذاتِ طیبہ میں طلب اور تڑپ بن کر دوڑرہی ہے ۔ اب اس سعید روح اور پاک نفس کی یہ پیاس حرا کے مقامِ حسن ونور اور جلوہ گاہ ِوحی وتنزیل کو زندگی اور جاودانی عطاکررہی ہے ۔
 حضورپُر نور صلی ا للہ علیہ وسلم کو حرا کے مقام تک پہنچانے میں اللہ کا وہ اہتمامِ شوق بھی قابل ِدید ہے جو آپ ؐ کی نبوی شخصیت کی شایان ِ شان تعمیر اور حیات ِ طیبہ کی قدم بہ قدم منزل بہ منزل نشو ونما کرتارہا۔ اللہ جل شانہ ذاتِ اقدس کو سنوارتے اور سجاتے ہوئے اپنی محبوبیت کے پھول آپ ؐ پر نچھاور کرتا رہا اور اپنی مقبولیت وفضیلت کی مہک آپ میں سموتارہا ۔ مثلاً اَبرہہ الاشرم نے کعبہ کی العیاذباللہ اینٹ سے اینٹ بجانے کے لئے مکہ پر فوج کشی کی، خدا ئے ذوالجلال نے اُسے اپنے لاؤ لشکراور ہاتھیوں سمیت ذلت آمیزہلاکت کا نشانہ بنا یا کہ بیت اللہ کی حفاطت بھی ہو ئی اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم (جو ابھی رحم ِمادر میں ہی تشریف فرما تھے )کی عافیت وسلامتی میں ذرہ برا بر خلل واقع نہ ہو ا ۔ اللہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں اور خاص الخاص بندوں کو اسی غیبی اہتمام سے بچاتا ہے جیسے حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کوفرعون کے خنجر انتقام سے چھڑایا ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ ا لسلام کو نار ِنمرود سے بچایا۔ یہ اللہ کی محبوبیت ومقبولیت کا بلیغ اظہار ہی تو ہے کہ آپ ؐ کی مبارک پیدائش کے وقت خلافِ معمول والدۂ ماجد ہ حضرت آمنہ بنت وہب دردِ زہ کے ہر دُکھ اور الم سے مستثنٰی ر ہیں ، رحمت ِخداوندی کا سایہ ہی تھا کہ بی بی آمنہ کے دل مبارک میں اس موقع پر عجب کیف و سرور چھا یا رہا ۔ یہ بھی اللہ کی پردہ داری کا اظہار ہے کہ آپ ؐ ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں۔ آپ ؐ کو نہایاگیا تو ملائکہ نے فوراًکمر مبارک پر مہر نبوت ثبت کی ۔ سیرت نگار کہتے ہیں کہ جب شہنشاہ ِکونین صلی اللہ علیہ کا ظہور قدسی ہواتو ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گرگئے ، مجوسیوں کا آتش کدہ بجھ گیا ، دریائے ساوہ خشک ہوگیا لیکن اربا ِبِ نظر کہتے ہیں کہ آپ ؐ کی ولادت باسعادت سے شرکا جہنم ٹھنڈا ہوا ، فتنوں کا ستیاناس ہوا ،کفر کا ایوان لرز اُٹھا، باطل کا جادو مٹ گیا، بت کدہ ٔ آذرپر اوس پڑی،مجوسیت کا دھندا ماند پڑا ، نصرانیت پر رعشہ طاری ہو ا، یہود یت نوحہ کناں ہوگئی، توحید کا غغلہ ہو ا، صدق وصفا کی باد ِبہاری چلی ، اُ مید کی جوت جگی، گمراہوں کو ہادی ملا ، ٹوٹے دلوں کو سہارا ملا،غریبوںیتیموں بے سہاروںمظلوموں غلاموں کو ملجا وماویٰ ملا۔ آپ ؐ کی رضاعت کے لئے ہوازن کی شاخ قبیلہ سعدا بن بکر کی غریب ونادار حضرت حلیمہ سعدیہ ؓکے نام قرعۂ فال نکلا تو اس کے باگ کھِل اُٹھے۔ اُمِ رسو ل صلی ا للہ علیہ وسلم نے دائی حلمیہ ؓ کی گود میں اپنا لال سونپا تودل ملول ہوکر بزبانِ شعر فرمایا:’’اس چاند کے ٹکڑے کو اللہ کے حوالے کر کے اُس سے دست بدعا ہوں کہ وہ اس ولد ِمسعود کو ہر مکروہ و ممنوع امر سے دور رکھے اور یہ مردِ صالح ہوکرامرِ حلال کا حامل ہو اور ہر مملوک کی مد د کرے اور مملوکوں کے علاوہ ہر محروم آدمی کا سہارا ہو‘‘(  طبقات ابن سعد)  
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آغوشِ محبت میں لینے کی دیر تھی کہ اللہ نے ایک جانب حلیمہ سعدیہؓ کے رگ وپے میں آپ ؐ کے لئے محبت ِبے کراں ڈالنے کے ساتھ ساتھ شِیرمادر بے تحاشہ جاری کردیا ، دوسری جانب اس عظیم المرتبت نولومود کی خوش کن تاثیرات جلوہ نما کردیں ۔ دائی اماں کا گدھا قافلے میں تیز گام بن گیا ، اُن کی اونٹنی نے اتنی مقدار میں دودھ دینا شروع کیا کہ پورے کنبے کی کفالت کے بعد بھی بچا رہتا، گھرانے کی بھیڑبکریوںکا ریوڑ چراگاہ پیٹ بھر چرنے کے بعد واپس مطمئن ومسرور ہو کر آتا جب کہ اور چوپایوں کو اتنی خوراک نصیب نہ ہوتی۔ حلیمہ سعدیہ ؓکے خانوادے میں شادمانی و خوش حالی کی رونقیں ضرور آئیں مگر اس کے طفیل گاؤں میں گھر گھر اور گلی گلی بھی برکات کے نزول سے اپنا حصہ پاگئی کہ اس نوزائیدہ بچے کے لئے ہردل میں محبت اور عزت بھرگئی۔ ہادی برحق ؐ کی یہ ادا بھی دائی اماں کے لئے باعث تعجب رہی کہ آپ ؐصرف ایک جانب ہی دودھ نوش فرماتے تاکہ دوسری جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رضاعی بھائی اپنا راتب آرام سے پاسکے۔انہی حالات وکوائف کے ساتھ آپ ؐ کی چار سالہ مدت ِرضاعت خوشی خوشی گزر گئی لیکن ایک روز  ایک نادر الوقوع معاملہ یعنی شقِ صدر کا واقعہ رونما ہوا۔ ا س دن حسب معمول آپ ؐ اپنے رضاعی بھائی کے ہمراہ کھیل کود میں مصروف تھے کہ چنداجنبیوں نے اپنی تحویل میں لے کرآپ ؐ کا سینہ ٔ مبارک چاک کر کے کھول دیا۔ آپ ؐ کارضاعی بھائی سہم کرہ گیاا ور دوڑے دوڑے گھر آکر والدین کو یہ واقعہ سنایا ۔ وہ دونوں سینہ پیٹتے ہوئے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور دیکھا کہ محمد الرسول اللہ صلی ا للہ علیہ و سلم ایک پہاڑی پر بیٹھے آسمان کی طرف ایک خاص مقام پر اپنی پاک نگاہیں جمائے ہوئے ہیں ۔ آپ ؐ سے واقعہ کی بابت دریافت کیا گیا تو زبانِ ِحق بیان سے پتہ چلا کہ اللہ کی جانب سے دوفرشتے آئے تھے۔انہوں آپؐ کا سینہ مبارک چاک کیا، قلب ِاطہر کو باہر نکالااور تمام آلائشوں سے پاک کر نے کے لئے جنت کے پانی سے دھو کر واپس اپنے اصل مقام پر رکھ دیا ، پھر وہ فرشتے آسمان کی جانب پرواز کر گئے اور آپ ؐ ٹکٹکی باندھے ان کا پیچھا کر تے رہے ۔ا س واقعہ سے چوکنا ہوکر میاں بیوی نے اس خدشے سے آپ ؐ کوواپس مکہ بھیجنے کا ارادہ کیا کہیں اس حیرت انگیز معصوم بچے کے ساتھ کوئی ایسا ودسرا واقعہ پیش نہ آئے۔ انہی غیبی انتظامات کے ساتھ اللہ نے آپ ؐ کی سیرت و شخصیت بتمام وکمال پروان چڑھائی ۔
 مکہ معظمہ لوٹ کر آپ ؐ کے بارے میں ان خدائی اہتمامات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتاگیا ۔ ایک بگڑے ہوئے سماج میں آپؐ کی بودوباش کرنا اور پھر زمانے کی آلائشوں سے محفوظ رہنا کوئی چھو ٹی بات نہ تھی۔ یہ اللہ کے اسی خاص الخاص اہتمام کا شاخسانہ تھاکہ ولادت ِباسعادت سے قبل ہی آپ ؐ کے سر سے والدمحترم حضرت عبداللہ کا سایہ اُٹھا، چھ برس کی عمر میں والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے داغ ِ مفارقت دے دیا، آٹھ سال کی سن مبارک میں دادا جان عبدالمطلب نے موت کا پیالہ چکھ لیا اور آپ ؐ کی کفالت ونگرانی کابار کثیرا لعیال مگرنادار شفیق و ہمدرد عم محترم حضرت ابوطالب کے مبارک شانوں پر آگیا۔ موصوف نے اپنے بھتیجے کو اتنی شفقت واپنائیت دی کہ اگر والد محترم بقید حیات بھی ہوتے تو شاید اُن کی محبتوں اور دُلار کامقابلہ نہ کر سکتے۔ آپ ؐ نے اپنے عم ِمحترم کے مصارفِ آذوقہ پورا کر نے کے لئے ہی گلہ بانی کا پیشہ اختیار کیا۔ چلتے چلتے جب آپ نو یا ؐ بارہ بہاریں دیکھ چکے تو جناب ابو طالب( جن کی مکہ میں بزازی کی دوکان تھی ) کے ہمراہ شام کے تجارتی سفر پر تشریف لے گئے ۔ غمگسار چچا سفر کی صعوبتوں کے پیش نظر نہیں چاہتے تھے کہ آپ ؐ کو ساتھ لے جائیں مگر آپ ؐ سے ایک لمحہ بھی دوری برداشت نہیں ہوتی تھی۔سرور کائنات صلی ا للہ علیہ و سلم قافلے کی روانگی کے عین موقع پر جناب ابوطالب سے لپٹ گئے تو شام کے سفر پرآپ ؐ کا تشریف لے جانا طے ہوا۔ قبل ازیں آپؐ چھ سال کی سن شریف میں اپنی والدہ ؐ ماجدہ حضرت آمنہ کے ساتھ سفر مدینہ کر گئے تھے ۔ شام کے اس سفر کو اپنی فسانہ طرازیوںسے مستشرقین نے وہ من گھڑت معانی پہنائے جو سچائیوں سے بعید اور معقولیت سے کوسوں دور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ تجارتی قافلہ یروشلم ا ور دمشق کے درمیانی علاقہ بصریٰ میں بحیرا راہب کی خانقاہ کے اَغل بغل میں پڑاؤ کرگیا تو تارک الدنیا عیسائی نے اہل ِقافلہ پر یہ راز کھولا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سید المرسلین ؐ ہیں ۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیسے جانا؟ بحیرا نے کہاکہ جب آپ لوگ پہاڑ سے اُتررہے تھے توآس پاس جتنے درخت اور پتھر تھے ،وہ احتراماً آپ ؐ کی راہ میں جھک گئے ۔ تاریخ کے اس ورق میں درج بعض تفاصیل میں علمائے اسلام اور مورخین اسقام پاتے ہیں ۔ البتہ منصب ِنبوت پر مبعوث ہونے سے قبل نبی ٔآخر الزماں صلی ا للہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسے کئی اہم واقعات پیش آتے رہے جو آپؐ کی پیغمبرانہ شخصیت پر دلالت کر تے ہیں ۔ ایک دفعہ قریش نے آپ ؐ کے سامنے بتوں کے چڑھاوے کی ضیافت پیش کی مگر آپ ؐ نے اسے تناول نہ فرمایا کیونکہ غیراللہ کاذبیحہ آپؐ حلال نہ سمجھتے تھے ۔ اسی طرح اگر چہ آپؐ کا خانوادہ کلید بردارِ کعبہ کا منصب ِ جلیلہ رکھتا تھا مگر روزِاول سے آپ ؐ بڑی سختی کے ساتھ مراسم ِشرک ، بت پرستی، رسوماتِ جاہلیہ اور افعالِ شنیعہ سے صریحاًپر ہیز برتتے تھے ۔ قریش نے اہل عرب میں اپنا امتیازی درجہ منوانے کے لئے یا اونچی ناک ہونے کے خبط میں مبتلا ہوکریہ قاعدہ بنایاتھا کہ اُن پر ایامِ حج میں وقوف ِعرفات کی کوئی پابندی نہیں اور جو حاجی باہر سے آئیں وہ اگر قریش کا لباس زیب ِتن نہ کر یں تو انہیں ننگے جسم طوافِ کعبہ کرنا ہوگا ۔ اسی وجہ سے عریاں طواف کا رواج نکلا تھا ۔ آپ ؐ نے ان خود ساختہ قوانین میں کبھی بھی اپنے قبیلے کا ساتھ نہ دیا ۔ بچپن میں ایک مرتبہ کعبہ کی تعمیر ومرمت کے دوران آپ ؐنے اپنا تہبند اوپر اٹھا نے کی سعی کی تو دوفرشتے نظر آئے جنہوں ایسا کر نے سے باز رکھا۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ آپؐ نے ایک سفر اپنے ایک اور عم ِمحترم جناب زبیر کی رفاقت میں کیا جس میں متعدد معجزانہ واقعات رونما ہوئے۔مکہ معظمہ میں ہرسال ایک میلہ باہتمام لگتا تھا۔اس میلے سے آپؐ بچپن کے معصومانہ تجسس کے باجود شرکت سے باز رہتے مگرایک موقع پر آپؐ کی چاچیوں نے میلہ میں نہ جانے سے خدا کی نارضی سے آپ ؐ کو ڈرایاتو با دل نخواستہ اُن کے اصرار پر میلے میں اُنہی کے ساتھ تشریف لے گئے لیکن بیچ میں ہی اپنے خیمے میں واپس لوٹے ، چہرہ مبارک زرد اور جسم نازنین پر کپکپاہٹ طاری تھی۔ وجہ پوچھی کی گئی تو فرمایا کہ میںنے عجیب وغریب شکلیں دیکھیں جنہوں نے اس جشن وتہوار میں شریک ہونے سے ممانعت کی ۔ عرب میں داستان گوئی کا مقبول رواج تھا ۔ لوگ دن بھر کی محنت کی تھکان اُتارنے اور تفریح طبع کے لئے رات کے اوقات میں ان مجالس میں شریک ہوتے۔ کوئی داستان گو کہانی چھیڑتا توپورا مجمع رات بھر بڑے ہی انہماک سے داستان سماعت کر تا۔ اپنے بچپن میں آپ ؐ نے بھی خواہش کی کہ اس مجلس کا لطف اُٹھایا جائے۔ اتفاق سے راستے میں شادی کا ہجوم کہیں جمع تھا۔ اُسے دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تو اللہ کے خاص اہتمام سے وہیں کے وہیں نیند آگئی ، صبح تڑکے آنکھ کھلی تو مجلس تھی نہ کوئی خر خشہ۔ ایک اور موقع پر داستان گوئی کی مجلس کا شوق چرایا ، اس بار بھی غیبی ہاتھ نے بیچ میں آکراس خواہش کو نیند کے غلبے میں دبا دیا۔ یوں اللہ نے آپ ؐ کو روز اول سے لہوو لعب سے محفوظ ومامون رکھا۔
……………………………………..
 ( نوٹ بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں، ان شاء اللہ) 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کویندر گپتا نے بطور لیفٹیننٹ گورنر لداخ حلف اٹھایا
برصغیر
ہندوستان نے ٹی آر ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے امریکی فیصلے کا کیا خیر مقدم
برصغیر
امریکہ نے پہلگام حملے کے ذمہ دار ’دی ریزسٹنس فرنٹ‘ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا
برصغیر
مینڈھر پونچھ میں شدید بارشیں ،متعدد مکانات کانقصان
پیر پنچال

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 17, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?