ٹور آپرویٹر نے ہمیں رات کو ہی فرداً فرداً اطلاع دی تھی کہ کل نماز ظہر ادا کرنے کے فوراً بعد مدینہ منورہ بذریعہ گاڑی روانہ ہونے کا پروگرام طے ہے، اس لئے اپنا سامان وغیرہ باندھ کے تیاری کی حالت میں رہیے ، براہ کرم کوئی تاخیر نہ کریں۔ میں نے محسو س کیا کہ کعبے سے فراق وجدائی کے اعلان سے سب غم زدہ ہوگئے، مسکراہٹیں دھیمی پڑ گئیں ، اتنے دن سے ہنسی مذاق کی جو بے تکلفی ایک دوسرے سے ہوئی تھی ، وہ ماند پڑ گئی، البتہ دعاؤں میں رقت پیدا ہوئی، نمازوں میںخشوع وخضوع کی کیفیت درآئی، آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائیں، حزن وملال سے چہروں کی رنگت زرد مائل ہوگئی کیونکہ کعبے کو الوداع کہنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔
قیامِ مکہ کے آخری دن ہمارے قافلے کے اکثر ساتھی تہجد کی اذان سے پہلے ہی مطاف میںاللہ کے حضور دھرنا مارے بیٹھے تھے ۔ کہیوں کے بارے میں سنا وہ رات عشاء کے بعد ہوٹل واپس ہی نہ لوٹے بلکہ بیت اللہ کے روبرو ہی نماز ودعا کی سعادت میں مشغول رہ کر اللہ کو مناتے رہے ، اپنی حاجات عرضیاں اُسے گوش گزار کرتے رہے،کعبہ سے غم ِجدائی کا بوجھ گریہ وزاری کر کے ہلکا کر تے رہے ۔ مطاف میں اپنے ساتھیوں میں جس جس پر میری نظر پڑی ، ربِ کائنات کے سدابہار گھر کے سامنے اُسے اسی حال میں پایا۔۔۔ دل ملول ومغموم اور رنج وحزن میں ڈوبا ۔ کیوں نہ ہو اب کچھ ہی گھنٹہ بعد کعبہ مشرفہ سے وداع جولیناتھی۔ جوں جوں گھڑی کی سوئیاں آگے جارہی تھیں ، ہمارے لئے مکہ کی روح پرور اور ایمان افروزتجلیات رُودادِ ماضی بنتی جا رہی تھیں ، لگ یہ رہاتھا کہ عمر بھر تمناؤں میں بسنے والے مر کز ہدایت اور قبلہ ٔ دل کی ساری دلنوازیاں، جلوتیں اور دلربائیاں اب صرف یادوں ، خوابوں اور خیالوں کی جنت بننے والی تھیں ۔ بہر کیف فرقت ِ یار کے غم میں آنکھیں نم ، جذبات متلاطم ، روح الحاح وزاری میں رقصاں، لب آہ و فغان میںلرزاں تھے ۔ شوق کے پنچھی سے ساتھیوں کا یہ عالم نہ دیکھا گیا، دلاسہ دینے لگا : ساتھیو! بے شک وداع کی یہ دل فگار گھڑیاں ا للہ کے چہیتوں پر شاق گزرنی چا ہیے ، انہیں کوچہ ٔ جانان سے جدائی کا غم ماہیٔ بے آب کی مانند تڑپا نا چاہیے، ان کی ہچکیاں بندھنی چاہیے ، انہیں سینہ کوبیاں کرنی چاہیے ، کیا پتہ اب کبھی یہاں دوبارہ سر بسجدہ ہونے کا شرف ملے گا ، کیا معلوم اللہ اپنے گھر کا طواف کرنے کا کوئی نیا بلاوا بھیجے گا ، کونسی ضمانت ہے کہ کعبتہ اللہ، حجر اَسود، رُکن یمانی ، ملتزم ، درِ کعبہ ، مقامِ ابراہیم، زمزم ، صفا ومروہ اور مقد ساتِ مکہ کے دیدار کاقرعہ ٔ فال ہمارے نام دوبارہ نکلے گا بھی ۔ یہاں پل پل غنیمت جانئے، لمحے لمحے کی قدر کیجئے، وقت ِ قبولیت ہے ، جو مانگنا ہے رب ِ کعبہ سے مانگئے، حاجت روائی کی درخواستیں پیش کیجئے ، گناہوں سے بخشش اورعفوودرگزر مانگئے، والدین اور دوسرے مرحومین کے لئے گڑاگرا کر مغفرت کی دعائیں مانگئے، اپنوں اور غیروں کی بھلائی کے لئے دعائے خیر کا دامن پھیلادیجئے، طبیبِ ازلی سے ہر مریض کے لئے اور ہر مرض سے شفایابی طلب کیجئے ، قرضوں کی ادائیگی کے لئے غیبی مدد مانگئے، بے روزگاری کی ذِلت سے نجات مانگئے، عذابِ جہنم سے خلاصی اور جنت کے انعامات و عطا یا مانگئے، بیٹیوں کے موزوں بر اور بیٹوں کے مناسب جوڑ طلب کیجئے ، فتنہ ہائے زمانہ میں ایمان و امان کی عافیت مانگئے ، قوم کی پراپرجائی اور ملت کی آبرومندی کی بھیک مانگئے ، پوری انسانیت کی بھلائی کی التجائیںکیجئے، بار بار حرمین کی زیارت سے حصولِ فیوضات وبرکات کی اَشک بار دعاکیجئے۔ غرض سوئی سے ہوائی جہاز تک درگاہِ الہٰیہ میں مانگئے تاکہ دنیا وآخرت کا حسنہ زندگی میں سمیٹ سکیں ۔ اپنی تردامنی پر ندامت کے آنسو بہا بہا کر وحدہ لاشریک سے یہ سر گوشی بھی ضرور کیجئے: اے ربِ ارض وسماء! کعبہ مطہرہ تمہاراگھرانہ ، تیرے خلیل ؑ کا نذرانہ ، تیرے حبیب ؐ کے لئے وجۂ قرار ، یہ تمہاری شانِ کریمی کہ تمام اہل ایمان بیت اللہ کے وارثین بنادئے ہیں ، میں حقیرو ناکارہ، خطا و نسیاں ، گناہ وبرائی کا مجموعہ لیکن ہوں تو تیرا ہی بندہ ، میری توبہ قبول کر دے ، اب سے میرے ایمان وکردار کو ایسا لعل و گوہر بنادے کہ بیت اللہ کے ورثاء میں میر ابھی نام جُڑ جائے، میں عمر بھر کعبے کی طرف رُخ کر کے جیوں ، اسی کی جانب رُخ کر کے مروں ۔ اے رحیم ورحمن اللہ! اپنے اس گھر کو میرے قلب وجگر کے نہاں خانے میں ایسے بسادے کہ کبھی اس سے جدائی کا کھٹکا لگے نہ دوریٔ مسافت کی دیوار حائل رہے، میرے اعمال سے ہمیشہ غلافِ کعبہ کی زینتیںاور ملتزم و سنگ ِاسود کی عظمتیں جھلکیں۔آمین۔
نماز فجر ادا کر کے زیادہ تر ساتھیوں نے عشق ووارفتگی کے ساتھ طواف ِوداع شروع کیا ۔ میری شریک ِحیات اور میںنے بھی طواف کیا لیکن میں نے نیت یہ کی کہ نماز ظہر سے فارغ ہوکر ہی رُخصتی کا طواف کروں گا ، فی الحال نفلی طواف پر اکتفا کرتاہوں۔ آج اکثر دل بریدہ ساتھیوںکو محسوس ہو ا کہ سات پھیروں میں وہی چاشنی آگئی جو پہلے دن پہلے طواف کا خاصہ بنی تھی، لگتا تھا کہ کعبہ شریف کے گرد ساتھیوں کے جسم نہیں روح چکر لگا رہے تھے، اللہ سے پیار ا س قدر اُمڈ آرہاتھا کہ ساحلوںا ور کناروں کے بند ٹوٹ رہے تھے ۔ طواف سے فارغ ہوئے تو ملتزم کے سامنے اللہ کے حضور دست بدعا ہو گئے ، حجر اَسو دکو آنکھوں آنکھوں میں چوما، یاد آیا کہ رسولِ کائناتؐ نے جنت کے اس پتھر کو بوسہ دیتے ہوئے حضرت عمر ؓ سے فرمایا تھا کہ یہ جگہ آنسو بہانے کے لئے ہے ۔ یہاں جو بھی اپنی نافرمانیوں اور رُوگردانیوں پہ بلک بلک کر روئے ، اس کے گناہوں کے داغ دھبے یکسر دُھل جائیں گے۔ حجر اسود سے گزر کررُکن یمانی کی زیارت سے حریم قلب آسودہ کیا ، حطیم سے تھوڑا سا لپٹ گئے ، میزابِ رحمت پر نظریں مرکوز کیں، غلافِ کعبہ کی کشش و جاذبیت میں کھوگئے۔ دعاومناجات سے فارغ ہوئے تو زمزم کے جام ِ شریں سے رُوح کی پیاس بجھائی ۔ یہ پانی اللہ کا عطیہ اور حضرت ذبیح اللہ ؑ کا صدقہ ہے ، اس کے گھونٹ گھونٹ میں پینے والے کے لئے علم ِنافع، رزق ِ واسع اور شفائے امراض کی ضمانت پنہاں ہے۔
طواف اور دُعا سے جسم وجان کو تازگی ملی تو ہمارے قافلے کے اکثر ساتھی ہوٹل کی طرف چل دئے تاکہ ناشتہ اور تجدید ِوضو کے علاوہ اپنا سامان مکمل طور پیک کریں۔ یہ تینوں کام کر کے ہم نے تھوڑی دیرآرام بھی کیا، تازہ دم ہوئے تو پھر سے مطاف کی اور قدم خود بخودبڑھ گئے ۔ہم سے بعضوں کو طواف ِوداع کے لئے قبل از وقت کعبہ شریف میں حاضری کی مجبوری تھی اور اگر دیر ہوتی تو صحن ِکعبہ میں نہیں بلکہ مطاف کی دوسری یاتیسری منزل چڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ صحن مبارک میں نماز و تلاوت میں مشغول رہ کر اور بیت ِعتیق کو تادیر گھور گھور کر پتہ ہی نہ چلا کہ ظہر کا وقت کیسے سر پر آن پہنچا ۔ اذانِ ظہر ہوئی تو ہم چونک گئے ، دل میں ہوک سی اُٹھی کہ یہ کعبہ مشرفہ میں فی الوقت آخری نماز ہے ، بس کچھ ہی پل ہمارے پاس بچے تھے، کچھ گنی چنی سانسیں اس خلد بریں میںلینا باقی تھیں ۔ بیت اللہ کا صحن ِمبارک جہاں سعید روح انسانوں کے اژدھام سے ہمہ وقت بھرا رہتا ہے ، وہاں اللہ کے ستر ہزار فرشتوں کا ہمیشہ ہجوم اکھٹا ہوتا ہے۔ خود ہی سوچئے برکت ورحمت کے اس منبع و مرکز اورسرکار دوعالم ؐ کے مولدو مسکن سے جب مفارقت کا لمحہ قریب آجائے تو دل کا کیاحال ہو ۔ بہر حال نماز ظہر کے فرض سے فارغ ہوتے ہی ہم نے طواف ِ وداع کا فریضہ انجام دیا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ ساتوںا شواط میں تھوڑا ہی وقت صرف ہواکیونکہ ہم نے کعبہ کے بالکل قریب ہی یہ سعادت پائی ۔ خوش قسمتی سے سنتیں ادا کر نے کے لئے مقام ِابراہیم سے بہت کم فاصلے پر مصلیٰ ملا ، سنتیں اداکیں، دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھے ضرور مگر یکایک روح کی زبان گنگ ہوگئی کہ کعبے سے رُخصتی پر افسردہ خاطر تھا، جگر نوحہ کناں تھا مگر مدینہ منورہ روانہ ہونے کی مسرت سے شادی مرگ ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ رہاتھا ۔ ان کیفیات کی رومیں بہہ کر اللہ سے کس منہ سے کہتا کہ الہیٰ اِدھر کا قیام بڑھا دے یا جلد ازجلد اُدھر بلادے۔ بے شک اللہ رحمن ورحیم کاہم پر یہ خاص لطف و کرم تھا کہ اُس ذاتِ اقدس ؐ کے بقعہ ٔ نور ، پناہ گاہِ مہاجرین اور شہر انصار کی خوشبوؤں سے مشام ِ جان معطر ومسحور ہو نے کا زریں موقع ہمیں نصیب ہورہاتھا۔ خیر کعبہ پر پہلی نظر پڑتے وقت اور پھر رُخصت لینے کی گھڑی پہ میں نے بصدجان ودل اللہ سے دعا کی : بارالہا! مجھے اور میرے اہل وعیال کو اپنے گھر اور اپنے محبوبِ کبریاؐ کے شہر شریں میں بار بار ولگاتار بلانا۔ دعاؤں کو وردِلب کر تے ہوئے اور نیک خواہشات اورتمناؤں کا نخلستان دل میں سجاتے ہوئے میں نے کعبہ شریف پر حسرت بھری نگاہیں مکرر سہ کرر ڈالیں اور بوجھل قدموں سے مطاف چھوڑ دیا، کئی بار پلٹ کر دیکھا تو ایسے لگا جیسے کعبہ ٔ مہربان رخصت کرتے ہوئے کہہ رہاتھا: میری حیات بخش تجلیات و انوارات ایمانِ قوی، اعمالِ صالح ، خوفِ خدا، جوابدہی ٔ آخرت کی نہ ختم ہونے والی عظیم پونجی ہیں، جو بھی اس پونجی سے توحید وسنت کے بازار سے زندگی کا سواد سلف لائے ، وہی لاریب حاجی الحرمین کہلانے کے لائق ہے ، دنیا کی بھلائی ا ورآخرت کے عزوشرف کا بھی وہی حق دار ہے۔
ہوٹل کے باہر پہلے ہی مدینہ منورہ کے لئے گاڑی کھڑی تھی ، تمام ساتھیوں کا سامان بیروں نے نیچے لابی میں لا کر رکھ دیا تھا۔ ہم سب ساتھی جلدی جلدی ظہرانہ کرکے لے کر گاڑی میں سوار ہوگئے اور یہ اطمینان کر نے پر کہ سب کا سامان گاڑی میں لا دیا گیا تھا ، ہمارا سفر مدینہ شروع ہوا۔ گلستانِ مکہ کی سڑکوں پر دس بارہ منٹ سبک رفتاری سے گاڑی چلنے کے بعد اس نے اپنی رفتار پکڑی ۔ مکہ معظمہ ہم سے چھوٹ رہاتھا مگر ایسا دِ کھ رہاتھا جیسے مکہ ٹاور ہمارے تعاقب میں تھا یا ہمیں الوداع کہنے کے لئے کبھی ہمارے دائیں پہلو میں آجا تا اور کبھی بائیں پہلو میں نمودار ہوجاتا، کبھی دور ہوجاتا ، کبھی نزدیک آجاتا، ایک پل ٹاور کا تھوڑا سا حصہ نظر سے اوجھل ہوجاتا ، دوسرے پل اپنا سینہ پھلائے پورے قد سے ہمارے استقبال میں کھڑا ملتا۔شاید مکہ ٹاور ہمارے آگے پیچھے ، دائیں بائیں جلوہ دکھاکر ہمارے قافلۂ مخزوں کو یہ احسا س دلا رہاتھا کہ تمہیں اللہ کا واسطہ مجھے بھول نہ جانا، پھر چلے آنا۔ چلتے چلتے ہم نے غار ِحرا اور غارِ ثور کی جھلکیاں بھی دیکھیں۔ یہ محض دوغار نہیں بلکہ اسلام کی تاریخ کے دوسنگ ہائے میل ہیں۔۔۔ ایک نزول گاہِ وحی ہے، دوسرانبوت وصدیقیت کی پناہ گاہ ہے۔ آدھ گھنٹہ سے کم مدت میں ہوا سے باتیں کر نے والی ہماری تیز گام گاڑی شاہراہِ ہجرت پر اس جگہ پہنچ گئی جہاں مکہ ٹاور نظروں سے غائب اور دونوں غار نگاہوں کے احاطے سے پردہ کر گئے ۔ اب ایک ہموار، بہت ہی عمدہ وکشادہ شاہراہ ، یمین ویسار کے کوہ وجبل، صحراؤں اور بیچ بیچ میں کئی چھوٹی بستیوں سے نگاہیں چار ہورہی تھیں ۔ زائرین مکہ سے مدینہ جارہے ہوں اور نعت نبی ؐ نہ سنا جائے تو مزا کیا ؎
کتاب ِ ہستی کے سرورق پر جونام احمدؐ رقم نہ ہوتا
تونقش ِہستی اُبھر نہ سکتا‘ وجودِ لوح وقلم نہ ہوتا
ڈرائیور نے نعتیہ ٹیپ کیا آن کیا کہ مدنی قافلے میں زندگی کی حرارت لوٹ آئی، قلب وجگر میں مدینہ کا ہر ذرہ ٔ تاباں گھومنے لگا، جذبوں کے تہ خانے سے آقائے مدنی ؐ کی مدحت وعقیدت کے نغمے اُبلنے لگے ، زبان پر صلی علیٰ صل علیٰ کا ورد جاری ہو ا ، سفر میں اثر آفرینی آگئی، رَگ وپے میں ’’جھکاؤ نظریں بچھاؤ پلکیں ادب کا اعلیٰ مقام آیا ‘‘ کا مفہوم اُترگیا اور قافلۂ عشاق ’از دل خیزد بر دل ریزد‘ کے مصداق مشہور عالم مدح خوان ِ رسول اُم کلثوم کی اس نعت میں مدہوش ہوگیا ؎
میری جانب بھی ہو اک نگاہِ کرم، اے شفیع الواریٰ ؐ، خاتم الانبیاءؐ
آپؐ نورِ ازل، آپ ؐشمع ِحرم، آپ ؐشمس الضحٰی، خاتم الانبیاء ؐ
آپؐ ہیں حق نگر، آپؐ ہیں حق رساں، سدرۃ المنتہٰی آپ ؐکے زیرِ پا
آپ ؐہیں مظہرِ ذاتِ رب العلیٰ ، رہبرِ حق نما، خاتم الانبیاء ؐ
آپؐ فخرِ عجم آپ شان ِعرب، آپ ؐ فضل ِاَتم، آپ ؐرحمت لقب
سرورِ ذی حشم، شاہ والا نسب، مرتضٰی، مجتبٰی، خاتم الانبیاءؐ
آپ ؐہیں وجہِ تخلیق ِکون و مکاں، آپ ؐکے دم سے ہیں یہ زمیں آسماں
آپ ؐہیں بے نشانی کا بیّن نشاں، اے شہ دوسراؐ، خاتم الانبیاءؐ
اے فصیح البیاںؐ، اے بلیغ اللساںؐ، اے وحید الزماںؐ ،ماورائے گماںؐ
آپ ؐکا نور ہے از کراں تا کراں، شاہد ِکبریاؐ، خاتم الانبیاءؐ
مرسلِ مرسلاںؐ، سرورِ عرشیاںؐ، ہادیِ انس و جاں مُقبل ِمقبلاںؐ
آپ ؐکی ذات ہے باعثِ کن فکاں، رازِ ارض و سماء خاتم الانبیاءؐ
جلیلؔ نقوی
( نوٹ :بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں
ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ)