Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!۔۔۔ قسط 70

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: July 21, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
 مکہ معظمہ میںمحمدالرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شرک و کفر کے علم بردار اور جاہلیت کے کھیون ہار اپنی کینہ پروری کی تمام حدیں پھلاند کر قراردادِ قتل پر اتفاق کر تے ہیں۔ ان کازعم ِباطل ہے کہ اس خفیہ سازش کی بھنک کسی کو نہیں لگ سکتی حالانکہ سمیع البصیر اللہ اُن کی ایک ایک نیت جانتااور سانسیں گنتا ہے۔ قتل ِنبی  ؐان مجرموں کا آخری اوچھا حربہ ہے لیکن انہیں اس امرواقع کا ادراک نہیں کہ اس گر اوٹ سے وہ خود اپنے ہاتھوں اپنی ذلت ورسوائی کے سارے اسباب جمع کررہے ہیں۔ برادرانِ یوسفؑ بھی بظاہر اپنے بھائی کو تباہی وبربادی کے اندھے کنویں میں دھکیلتے ہیں مگر بالآخر ان کی یہی مجرمانہ حرکت حضرت یعقوبؑ کے شاہزادے کی تاج پوشی اور اُن کے سوتیلے بھائیوں کی خجالت وندامت پر منتہی ہوتی ہے ۔ سرور دوعالمؐ کے قتل پر سردارانِ قریش کا فوری محرک ان کی یہ بوکھلاہٹ ہے کہ مکہ میں تیراں سال تک اسلام کا جواب وہ خصومت و جارحیت، مزاحمت ومخالفت سے دیتے رہے کہ اسلام پنپنے نہ پایا لیکن اب نئے حالات میں اگر اسلام کا ننھا سا پودا مدینہ کی شہری ریاست میں تناوردرخت بنا تو خداوندان ِ مکہ کی خیر نہیں۔ اسی پس منظر میں کفر کے ٹھیکیداروں اور شرک کے ساہوکاروں کو ایک جانب یہ احساس خوب ڈس رہا ہے کہ جب تک پیغمبر اسلام ؐ کی لائق ِ صد احترام شخصیت دین ِحق کی آبیاری کرتی رہے ، قطعی ناممکن ہے کہ اسلام کا شجر پُر بہار خزاں آلودہ ہو جائے ، دوسری جانب ان کے دل میں یہ پھانس کھٹک رہی ہے کہ مکہ کی سرزمین مسلمانوں سے تقریباً خالی ہے، ایسے میں اگر رسولِ رحمتؐ  بھی مد ینہ ہجرت کر گئے تو کفر واسلام میں جنگ کا پانسہ آپؐ کے حق میں پلٹ جائے گا۔ لہٰذا زعمائے کفر چاہتے ہیں کہ قبل اس کے معاملہ یہ سنگین رُخ اختیار کرجائے ، بہتر یہی ہے کہ آپؐ کو جلد ازجلد منظر نامے سے ہٹایا جائے۔ دارالندوہ میں رسول کائنات کے خلاف آمادہ ٔشر مخالفینِ اسلام کے اخلاقی دیوالیہ پن کا اب کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہا ہے ۔ یہ سب پیغمبر اسلام ؐ کے خلاف عنا د و شقاوت میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ انہیںنظر ہی نہیں آتا اللہ کی واضح تائیدو حمایت کا پلڑا آپؐ کی جانب جھکا ہوا ہے۔ ویسے بھی باطل کا ہمیشہ سے یکسان مزاج رہاہے کہ اسے حق وصداقت ایک آنکھ نہیں بھاتااور پھر جب بھی حق کے مقابلے میں یہ اپنا ترکش دلیل، تہذیب ، شرافت اور معقولیت سے خالی پائے تو ایک دم تلواریں بے نیام کرنا اس کا واحد ہتھکنڈہ رہ جاتا ہے۔ بہر کیف سردار انِ مکہ محمد عربی ؐ کے حوالے سے اسی طرح اپناعقلی توازن کھو بیٹھے ہیں جیسے قوم بنی اسرائیل اپنے انبیائے کرام ؑ کی اتباع واقتداء سے دامن بچانے کے لئے ان کا دن دھاڑے قتل کر کے اپنے پاگل پن کا مظاہرہ کر تی رہی ۔ عصر حاضر میں بھی باطل و طاغوت کا یہی رنگ ڈھنگ ہے کہ دینی حمیت رکھنے والے نہتے مسلمانوں کو’’ وار آن ٹیرر ‘‘کے نام پر تہ ِتیغ کرو اور ہر باغیرت مسلمان کو زبان کے چٹخارے میں ’’دہشت گرد‘‘ کی گالی دو۔ اس وقت دنیا میں جابجا سامان ِ حرب وضرب سے لیس عالم ِکفرکے ابو جہل اورابو لہب یہی کچھ اپنا محبوب مشغلہ بناچکے ہیں ۔
  سرور عالم ؐ سے کفاران ِ مکہ کے سینوں میں انتقام کی جو آگ برسوں سے مسلسل سلگ رہی ہے ، اُسے بجھانے کے لئے آج رات وہ خنجربہ دست ہیں ۔ یہ قاتل خونی نہ کسی اخلاقی ضابطے کے قائل ہیں ، نہ ان کی نگاہ میں قتل ِ ناحق کوئی گناہ ِ کبیرہ ہے اور ان کی دانست میں سردست پیغمبر اسلام  ؐ کاقتل وہ تیر بہدف ترکیب ہے جس سے اسلام کا نام ونشان صفحہ  ٔ ہستی سے مٹ سکتا ہے ۔ا نہیں اپنے اس واہمے پر مکمل بھروسہ ہے کہ اِدھر آ پؐ راستے سے ہٹا ئے گئے ،اُدھر تحریک اسلامی بے لنگر جہاز ہو گا ، مسلمان اپنے امام و قائد سے محروم ہو ئے تو بے ہوا غبارہ بن کر فضا میں بکھر جائیں گے ،ا ن کے لئے پھر جاہلیت کی طرف پلٹ آنے کے بغیر کوئی اور چارہ نہ رہے گا ۔ یہ جنونی  خیال کر تے ہیں کہ قتل کی واردات سے کفر وشرک کی رونقیں بحال ہوں گی ، توحید و شرک کے متوازی خطوط پر قوم کی تقسیم قصہ ٔ پارینہ ہوگی ،جاہلیت کا پرچم پھر سے سربلند ہوگا۔ بالفاظ دیگر یہ لوگ پیغمبراسلام ؐ کی ذاتِ اقدس سے گلو خلاصی پاکر سرزمین ِمکہ میں بیک وقت بت پرستی کا احیائے نو بھی چاہتے ہیں اور جاہلی سماج کی اخلاقی تعمیر نو سے چھٹکارا بھی ۔ شوق کا پنچھی سازش ِقتل رچانے والے بے ہودہ ذہن کفار کی ناسمجھی کا مضحکہ یہ کہہ کراُڑا رہاہے: اے خبث ِباطن کے بیمارو! کچھ شرم کرو، جس پیغمبر آخر الزماںؐ کی پشت پر وحدہ لاشریک ہو ، جس کی سچائی پر زمین وزمان شہادت دے رہی ہو ، جو اپنے خلق ِ عظیم سے دوست تو دوست دشمنوں کے دل میں گھر کر گئے ہوں، جو تن تنہا کفر وبدعت کا جینا حرام کررہے ہوں، جو جاہلیت کا بیڑہ غرق کرنے میں کامیابی کے سا تھ متواتر آگے بڑھ رہے ہوں ، جس کی راہ روکنے میں ایذاء رسانیاں ، استہزا ئی کارستانیاں، مخالفانہ کارروائیاں ، کردار کشیاں یکے بعد دیگرے سب ناکام ثابت ہوئی ہوں، جس کی امامت وقیادت میں پیروانِ اسلام کی جا نثاریاں اور قربانیاں اسلام کا سرمایۂ حیات بن رہی ہوں، تم بہ حیثیت امامان ِ کفراس آفتاب عالم تاب کی ابدی روشنی کو کیا خاک قید کرو گے؟ تم عنقریب دیکھو گے کہ جاہلیت کے شیطانی جوش میں آکر اس مصلح اعظم ؐ کا بال بھی بیکا نہ کرو گے ،البتہ اپنے چہروں پر لازماً ناکامی کی کالک پوت دوگے ۔ اس طرح کی ذلیل حرکت سے حق کو فنا کے گھاٹ اُتار نا تمہارے بس کا روگ نہیں، قطعاً نہیں ۔ 
 معرکۂ حق وباطل کی تاریخ میں گھٹیا ترین کردار پیش کر نے والا ابوجہل اپنی مکروہ سازش ِ قتل کو عملانے پر کمر بستہ ہے ۔ وہ مکہ کے گیارہ نامی گرامی سرداروں پر مشتمل ایک قاتل دستہ ترتیب دیتا ہے ۔ قاتل جتھا ابوجہل کے علاوہ حکم بن عاص ، عقبہ بن معیط، نضر بن حارث، اُمیہ بن خلف، زمعہ بن الاسود، طعیمہ بن عدی ، ابولہب، ابی بن خلف، نبیہ بن الحجاج، منبہ بن الحجاج پرمشتمل ہے۔ شقی القلب ابوجہل کو وثوق واعتماد ہے کہ اب کی بارکامیابی کاسہرا اُس کے سر بندھنے والا ہے ،اس کی یہ بھی خام خیالی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت رسول اکرم ؐ کو قاتل دستے کی تیزدھار تلواروںسے نہیںبچاسکے گی۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق رات کے اندھیرے میں شیطانی گماشتوں کا یہ مسلح دستہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہونے کے لئے ننگی تلواروںکےساتھ  کاشانہ ٔ نبوت کے باہر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ ابوجہل یہاں پر اپنے شریک ِجرم حواریوں کے سامنے اسلام کا یہ کہہ کر مذاق اُڑا رہا ہے:محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کہتا ہے اگر تم لوگ اسلام لاکر اس کی پیروی کرو تو عرب وعجم تمہارے زیر نگین ہوگا، مرنے کے بعد تم اُٹھوگے تو جنت کے باغات ملیں گے اوراگر ایمان نہ لایا تو بعداز موت تمہیں جہنم کی آگ میں جلنا نصیب ہو گا۔ ابوجہل کی بے ہودہ کلامی سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اُسے پختہ یقین ہے کہ کل سپیدہ  ٔسحرمکہ میں نمودارہوتے ہی یہ اَٹل سچ دنیا کے سامنے لائے گا کہ محمد عربی ؐ اب خاکم بدہن صرف ماضی کا نام ہیں۔ یہ غنڈہ قاتل نہیں جانتا کہ اللہ کا رساز ہے ، غالب ہے ، دانا وبینا ہے ، زمین وآسمان کی قوتوں کا مالک ہے ، وہ جس کی محافظت کر ے اُسے کوئی ذرہ بھر گزند نہیں پہنچاسکتا ، جسے وہ اپنے حفظ واَمان سے آزاد کر دے اس کا مٹنا اور خاک میں ملنا طے ہے۔اللہ بروقت اپنے محبوب پیغمبر ؐ کو بذریعۂ وحی مطلع فرماتا ہے : ( اے نبی ؐ)وہ وقت یاد کرو جب کفار آپ کے خلاف مکر کر رہے تھے تا کہ تمہیں قید کردیں یا قتل کردیں یا نکال باہر کریں اور وہ لوگ داؤ چل رہے تھے اور اللہ بھی داؤ چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر داؤ والا ہے ( ۸: ۳)
 بغض ، حسد، ہٹ دھرمی اور لاعلمیت وگمرہی کے تراشیدہ ان کج فہم پیادوں کی ساری اسکیم اللہ جل شانہ بوساطت ِوحی اپنے نبی ؐ کے گوش گزار کر دیتا ہے ۔اس سے قبل اذن ِہجرت یا سٹیشن لیونگ پرمشن کے لئے آقائے نامدار ؐ سراپاانتظار ہیں مگر کفار کی جانب سے قتل کی مکروہ سازش کا مرحلہ آنے تک سارا معاملہ موخر کیا جاتاہے۔ حضرت جبرئیل امین علیہ السلام آپ ؐ کی خدمت میں حاضرہو کر نہ صرف قاتل دستے کے برے عزائم سے آگاہ کر تے ہیں بلکہ آپ ؐ کو جادہ ٔ ہجرت اختیار کرنے کا حکم ِخداوندی بھی سناتے ہیں ۔ اس کے لئے وقت کا تعین بھی آسمان میں ہی ہوتا ہے ۔ حضرت جبرئیل ؑ آپؐ سے مزید فرماتے ہیں کہ یہ رات آپ اپنے بستر عالیہ پر نہیں گزاریں گے جیسے قبل ازیں آپ ؐکا معمول رہا ۔ یہ خدائی فرمان جاری ہوتے ہی آپؐ خلافِ معمول دوپہر کی کڑکتی دھوپ میں سر مبارک ڈھانپ کر اپنے ہمدمِ دیرینہ حضرت ابوبکر صدیق رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے دولت خانے پر تشریف فرما ہوتے ہیں تاکہ آپؓ کو ہجرت کے آسمانی فیصلے سے آگاہ کر یں، ضروری ہدایات دیںاور سفرہجرت کی جملہ تفصیلات طے کریں ۔
 رقیق القلب ، سلیم الفطرت اورشریں شخصیت کا مالک حضرت ابوبکر صدیق ؓ اسلام کے دورِابتلاء سے ہی تبلیغ دین میں ہمہ تن مشغول ہوجاتے ہیں، کمزور ومحتاج مسلمانوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں ، غلاموں کی گردنیں سنگدل آقاؤں کے چنگل سے چھڑاتے ہیں ،کلمہ ٔ حق کا بول بالا کر نے کے لئے مالی ایثار میں پیش پیش رہتے ہیں۔ان وجوہ کی بناپرآپ ؐ اپنے ہمدم ِمکرم کے ساتھ خاص اُنس ا ور لگاؤ رکھتے ہیں ۔ یثرب کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہو اتو صدیق اکبر ؓ بھی آپ ؐ سے نقل مکانی کی اجازت طلب کر تے ہیں۔ جواب میں پیغمبرکریم ؐ فرماتے ہیں: ایسا بھی نہ کریں، شاید اللہ آپ کا کوئی ساتھی پیدا کردے جو ہجرت کے موقع پر آپ کے ہمراہ ہو ‘‘۔ رمز شناس ہمدم کو اشارہ ملتا ہے کہ شاید آپ ؐ کی ہمرکابی کا وہ شرف نصیب ہونے والا ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں ۔ آپ ؓ ہمہ وقت اسی خوش نصیب لمحے کے انتظار میں بے تاب رہتے ہیں۔ حالانکہ صدیق اکبر ؓ اس تلخ حقیقت سے بھی آشکارا ہیں کہ عازمین ِہجرت کو کس طرح ستا ستا کر قریش اپنی تسکین کا سامان کرتے رہے ، پیغمبر اسلام ؐ کی دشمنی میں دارالندوہ کتنا سرگرم ہے ، منکرین ومعاندین اگر آپؐ پر قابو پائیں تو کس طرح قتل ِناحق کی صورت پیش آسکتی ہے مگر یہ خیال ہم دم ِدیرینہ کےلئے سامانِ تسکین ہے کہ آپ ؐ کو ان کٹھن گھڑیوں میں تنہا نہیں چھوڑوں گا اور اگر اس دوران شہادت بھی نصیب ہوئی تواس پر ہزار بار یہ زندگی قربان۔ حضرت ابوبکر ؓ رمزوکنایہ کی زبان میں آپؓ سے ہجرت کااشارہ پاتے ہی دواونٹنیاں تیاری کی حالت میں رکھتے ہیں ۔تاریخی روایت ہے کہ آپ ؐ بصد اصرار اونٹنی کی قیمت ہمدم دیر ینہ کو ادا کرتے ہیں ۔  
  صدیق اکبرؓ کو مطلع فرماکر آپ ؐواپس کاشانہ ٔ نبوت تشریف لاکر رات کے اندھیرے کاانتظار کر نے لگتے ہیں ۔ اُدھر مدینے میںمہاجرین و انصار بے تاب وبے قرار ہیں کہ کب آقائے مکی ومدنی ان کے یہاں جلوہ افروز ہوجائیں، کب اُن کا شوق ِ دیدار پورا ہو ۔ مدینے کی گلیاں بھی ننھی منی کلیاں بھی آپ ؐ کے استقبال کے لئے اشتیاق و محبت سے منتظر فردا ہیں ۔ اِدھر کاشانہ ٔ نبوت کے گرد کفار کا قاتل دستہ محاصرہ تنگ کرجاتا ہے ۔ ایک عجیب طرح کی کشمکش جاری ہے ۔ آپؐ نہایت ہی اطمینان اور دل جمعی کے ساتھ محاصرہ توڑکر باہر صحیح و سلامت نکل آنے کے لئے اپنی تدبیر یںکرتے ہیں ، جب کہ محاصرین اپنے ہدف پر پل پڑنے کے لئے ماہی ٔ آب بنے ہوئے ہیں۔ اس جان لیوا صورت حال میں آپ ؐ اپنے عم زاد حضرت علی المرتضیٰ کرم ا للہ تعالیٰ وجہہ کوا پنے بستر مبارک پرمحواستراحت ہونے کا وہ شرف واعزاز بخشتے ہیں کہ ملائکہ بھی ابو تراب ؓ کے حُب ِ رسول ؐ کی لامثال ادا پر عش عش کر رہے ہیں ۔ آپ ؐانتہائی حکمت ودانائی کے ساتھ حضرت علی المرتضیٰ کرم ا للہ تعالیٰ وجہہ کو اپنے بستر عالیہ پر یہ فرماکر لیٹنے کاحکم دیتے ہیں کہ میری یہ سبزحضرمی ( یمن کی بنی ہوئی ) چادر اوڑھے سو جائیں، آپؓ کو ان ( دشمنوں ) کے ہاتھوں کوئی گزند نہ پہنچے گی ۔ رسول کائنات ؐ اسی چادر کو معمولاً اوڑھے بستر مبارک پر دراز ہوتے۔ چشم ِفلک دیکھ رہی ہے کہ آپ ؐمحاصرین کے نرغے میں ہیں لیکن عین نصف رات کو آپؐ بغیر کسی پس وپیش کے سورہ یٰسین کی تلاوت فرماتے ہوئے کاشانہ ٔ نبوت سے مضبوط قدموں سے باہر آتے ہیں۔ اللہ کا غیبی اہتمام یہ ہے کہ قاتل دستہ دنیا ومافیہا سے اتنا بے خبر پڑا ہے کہ آپؐ ان کے سامنے سے بہ نفس نفیس جا رہے ہیں مگر ان کی نگاہوں کو کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ آپ ایک مٹھی سنگریزوں والی مٹی قاتلوں کے سر پر ایک ایک کر کے ڈالے جارہے ہیں اور یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے ہیں: ہم نے اُن کے آگے رکاوٹ کھڑی کردی اور ان کے پیچھے رکاوٹ کھڑی کردی۔ پس ہم نے انہیں ڈھانک لیا ہے اور وہ دیکھ نہیں رہے ہیں(۶۳:۹)۔ اللہ اس مٹھی بھر خاک میں یہ تاثیر ڈالتاہے کہ قاتل دستہ غفلت وبے شعوری کے عالم میں گویا بےدست وپا ہوکررہ جاتا ہے۔ محاصرین میں سے کوئی ایک بھی نہیں بچتا جس کے سر پر آپ ؐ کے دست مبارک سے مٹی نہ ڈالی گئی ہو ۔ آپ ؐسیدھے حضرت ابوبکر صدیق  ؓ کے یہاں پہنچ کر دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں مگر پچھواڑے کی کھڑکی سے نکل باہر آکر شب کی تاریکی میں ہی مدینے کا رخت ِسفرباندھے نما زفجرسے بہت پہلے ہی روانگی ڈالتے ہیں۔ حزم واحتیاط کا یہ عالم ہے کہ دشمن کے تعاقب سے بچنے کے لئے رُخ یمن کی جانب فرماتے ہیں کیونکہ آپ ؐ کو یہ پیش بینی ہے کہ دشمن پوری برق رفتاری کے ساتھ ان کی بازیابی میں سرگرداں رہیںگے ، اور ظاہرہے وہ مدینہ جانے والے کاروانی راستہ کا چپہ چپہ ٹٹولیں گے جو شمال میں ہے۔ دشمن کو بے نیل ومرام لوٹانے کے لئے آپ ؐ جنوب کا رُخ اختیار کر تے ہیں جو یمن جانے والا راستہ ہے ۔ چند میل کی مسافت کاٹنے کے بعد غار ِ ثور اپنی بانہیں کھول کر آپؐ کو اور آپ ؐکے ہمدم دیر ینہ کوخوش آمدید کہتا ہے ۔ 
   نوٹ : بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، اِن شاء ا للہ
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

چاند نگر جموںکی گلی گندگی و بیماریوں کا مرکز، انتظامیہ کی غفلت سے عوام پریشان پینے کے پانی میں سیوریج کا رساؤ
جموں
وزیرا علیٰ عمر عبداللہ سے جموں میں متعدد وفود کی ملاقات
جموں
کانگریس کی 22جولائی کو دہلی چلو کال، پارلیمنٹ کاگھیرائوکرینگے ۔19کو سری نگر اور 20جولائی کو جموں میں راج بھون تک احتجاجی مارچ ہوگا
جموں
بھلا کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی پر حکام کی سرزنش بی جے پی پر جموں کے لوگوں کو دھوکہ دینے کا الزام
جموں

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 17, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?