شاہراہِ ہجرت پر سفر مدینہ کا اختتامی مرحلہ اب آیا چاہتا تھا ۔ کچھ ہی دیر میں ہم جنت ِارضی کے واحد ٹکڑے کا دیدا رکر نے والے تھے۔ شاعر نے اپنی دانست میں کسی اور جگہ کی تعریف وتوصیف میں یہ شعر موزون کیا ہو تو ہو مگر مدینہ منورہ پر یہ من و عن صادق آتاہے ؎
اگر فردوس بروئے زمیں است
ہمیں است او ہمیں است او ہمیں است
پیغمبر اعظم وآخر صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینۃ النبی ؐ کے بارے میں یہ کتنی عظیم بشارت دی ہے:مدینہ ان کے لئے بہتر ہے اگر وہ اس کا علم رکھتے ہوں۔ جو کوئی مدینہ سے اعراض کرتے ہوئے اُسے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس سے بہتر شخص کو مدینے لے آئے گا۔ اور جو شخص مدینے کی بھوک اور سختی کے باوجود یہیں ثابت قدم رہے گا ، میں قیامت کے دن اُس کی گوا ہی دوں گا اور شفاعت کروں گا۔اور جو کوئی اہل ِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سیسہ کی طرح یا پانی میں نمک کی طرح پگھلا دے گا‘‘۔
مدینہ طیبہ میں مومن کے لئے جینا ہی خوش نصیبی نہیں بلکہ اس سرزمین پر موت کا جام نوش کر نا بھی بڑے نصیبوں والی بات ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا: تم میں سے جس شخص کو مدینہ میں موت آسکتی ہو، اُسے چاہیے کہ وہ یہ سعادت حاصل کر ے، چونکہ یہاں مر نے والوں کی گواہی میں دوں گا۔( سنن ابن ماجہ ،۳۱۱۲)
بہشت ِمدینہ کی عظمت وسطوت ناپنے کا کوئی پیمانہ ہی نہیں مگر اس مقدس شہر کی برتری و بالا دستی کا ایک اہم اشارہ یہ بھی ہے کہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ دُعا کیا کرتے:اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور اپنے رسول ؐ کے شہر میں موت عطاکر (صحیح بخاری،۱۸۹۰)
اس پرشو ق کا پنچھی دل کی کتاب لئے بیٹھا:سوچئے ذرا !یہ دعا مانگنے والی ہستی تاریخ اسلام کی ماتھے کا جھومر تھی ، وہ جن کی آراء اور مشوروں کی بارگاہ ِ الہٰیہ میں اتنی پذیرائی ہوتی کہ وحی بن کر اللہ کے رسول ؐ پر نازل کی جاتی، وہ فارو ق اعظمؓ جس کی تعریفوں میں دوست تو دوست دشمن بھی رطب اللسان ہیں۔ یہ خاص دُعا مانگ کر اس فنافی الرسول ؐ شخصیت نے ہمیں جینے میں ہی نہیں بلکہ مر نے میں بھی ہمسائیگی رسولؐ اختیار کر نے کی آرزو سکھا دی ۔ آپ ؓ بالمعنیٰ فرماتے ہیں اپنے نصیبے سے جو بہشت مدینہ میں داعی ٔ اجل کولبیک کہے، سمجھو اس کا بیڑہ پار ہوگیا ۔ امیرالمومنین کی یہ دعا اللہ کی بار گاہ میں یک بار قبول ہوئی مگر عالم ِاسلام کے سینے میں خنجر میںگھونپتے ہوئے ۔ تاریخ اسلام کا خونین ورق یہ داستان سرائی کرتا ہے۔
حضرت عمر ؓکی خلافتِ راشدہ کادبدبہ ہے، اسلام اپنی جملہ تابانیوںاور درخشندگیوں کے ساتھ جلوہ گرہے، ایران ، عراق، شام ، مصر اور کئی دوسرے ممالک سمیت قبلہ ٔ اول قلمروئے اسلام کی میں شاد و آباد ہیں۔ بہ حیثیت خلیفہ ٔ اسلام فاروق اعظم ؓہر سال حج ے لئے مکہ تشریف لے جاتے ہیں ، بعد ازحج انتظامی امور کے سربراہان(گورنروں یا عمال) کو مکہ معظمہ بلاتے ہیںتاکہ اُن کے زیر انتظام صوبوں کے سرکاری کام کاج کا جائزہ لیں، ان کی کارکردگی کا محاسبہ کریں، حالات ِ حاضرہ سے بر سر موقع معلومات حاصل کر یں ، مملکت اسلامیہ کی تدبیر وتنظیم سے متعلق برمحل ضروری ہدایات جاری کریں۔ یہ آپ ؓ کی خلافت کا دسواں سال ہے، آپ ؓ حج کی سعادت اپنی اُمہات المومنین کے ہمراہ حاصل کرتے ہیں ۔ مناسک ِحج کی ادائیگی سے فارغ ہوکر منیٰ سے ابطح لوٹ آتے ہیں، اونٹ زمین پر بٹھاتے ہیں، سنگریزے جمع کرکے ان کا بچھونا بناتے ہیں، اوپر اپنی چادر بچھادیتے ہیں اورچت لیٹ جاتے ہیں۔ لیٹے لیٹے اپنے دونوں دست ہائے مبارک آسمان کی طرف اُٹھائے فریاد کرتے ہیں:’’یااللہ ! میری عمر زیادہ ہوگئی ہے، ہڈیاں نرم پڑی ہیں ، قوتیں جواب دے رہی ہیں ، اور رعایا پھیل گئی ہے۔ اب مجھے اپنے پا س بلالے، اس حال میں کہ میرا دامن عجز وملامت سے پاک ہو ‘‘۔ حضرت عمر ؓ جیسی قوی ا لجثہ اور آہنی عزائم والی شخصیت اور ضعف وناتوانی میں بعد المشرقین ہے مگر موت بھی یاد ہے اور قبر کا احساس بھی رگ وپے میں پیوست ہے ،اس لئے اللہ سے تنہائی میں موت طلب کر تے ہیں۔ دارالخلافہ مدینہ منورہ لوٹتے ہیں ، جمعۃ المبارک کو مسجد نبویؐ میں لوگوں سے خطاب فرماتے ہیں ، رسول اللہ ؐ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ذکر مبارک چھیڑکر فرما تے ہیں: لوگو! میں نے ایک خواب دیکھا ہے جسے میں اپنی موت کا پیغام سمجھتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ ایک لال رنگ کے مرغے نے مجھے دو ٹھونگیں ماری ہیں ۔۔۔ لوگو! تم پر احکام فرض کر دئے گئے، تمہارے لئے قانون ِ حیات مرتب کر دیا گیا ہے اور تمہیں ایک کھلے رستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ تم لوگوں کو اِدھر اُدھر بھٹکا دو ۔۔۔ یااللہ ! میں تمام شہروں کے حکام پر تجھے گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں صرف اس لئے بھیجا تھا کہ وہ لوگوں کو دین اور سنت ِ رسول ؐ کی تعلیم دیں ، ا ن سے عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئیں، ان میں غنیمت تقسیم کریں ، اور اُن کے معاملے میں اگر کوئی مشکل درپیش ہو تو میرے پاس پیش کریں۔ ‘‘
بظاہر چاق وچوبند اور صحت مند نظر آنے والے خلفیہ دوئم ؓ کھلم کھلا ملک الموت کے منتظر نظر آتے ہیں ۔آ خر بات کیا ہے کہ آپ ؓ دوران ِ خطاب معمول سے ہٹ کر ایسے جملے ادا کر تے ہیں جوبالعموم موت کے دروازے پر کھڑا کوئی شخص ہی وصیت کی صورت میں بولتا ہے؟ یہ راست گوئی آپؓ کی بے لوث شخصیت ، بے باک طبیعت اور بے خوف مزاج پر دلالت کر تی ہے۔ کامل الا یمان انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ موت کو رفیق اعلیٰ سے ملاقات کا بہانہ مانتے ہیں ۔ ہم ایسے عامیوں کو موت کی تمنا سے احتراز کر نے کو کہا گیا ہے ،اِلا یہ کہ اگر غیر معمولی حالات میں موت کی طلب ناگزیر تقاضا بنتا ہو تو دعا یہ ہونی چاہیے: اے اللہ! میری زندگی کو نیک عملی پرا ُستوار رکھ اور جونہی یہ خیر اور ایمان کی راہ سے ڈ گمگائے ، تو دنیا سے میرا آب ودانہ اُٹھانا ۔
چلئے امیرالمومنین عمر ؓ بن خطاب کی محولہ بالا دعا ئے شہادت اور تدفین ِ مدینہ کی اجابت کا نم ناک منظر بھی دیکھتے ہیں۔ یہ ۲۶ ؍ ذی الحجہ کی بدھوار ہے، حضرت عمر ؓ کاشانہ ٔ خلافت سے حسب معمول نماز فجر کی ادائیگی کے لئے منہ نہارے مسجد نبویؐ تشریف لے آتے ہیں ، آپ ؓ کی آمد سے قبل ہی مسجد میں صفیں دُرست کر نے کے لئے مقررہ اصحاب صفوں کی دُرستگی کا اہتمام کرتے ہیں ۔ آپ ؓ امامت کے لئے آگے بڑھتے ہیں، پہلی صف میں تھوڑی بہت کجی پاتے ہیں ، ایک دم اپنے دُرے سے صف ٹھیک کرتے ہیں، پھر مصلیٰ پر آجاتے ہیں، روشنی مدہم ہے ، اقامت پڑھنے کے بعد آپ ؓ اللہ اکبر کہہ کر نمازِ فجر شروع ہی کر تے ہیں کہ خلاف ِ معمول گھات میں بیٹھاایک شخص صفیں چیر تے ہوئے آگے بڑھتا ہے، یہ شخص آپ ؓ کے سامنے رُک جاتا ہے، آپؓ اپنی ہی دُھن میںاللہ سے راز و نیاز میں مشغول ہیں کہ آپ ؓ پر یہ بد باطن و سیہ دل درندہ زہر میں بجھے اپنے خنجر سے پے درپے تین یا چھ وار کر جاتا ہے، ایک وار آپ ؓ کے زیر ناف پڑجاتاہے۔ آپ ؓ نمازتوڑ دیتے ہیں ، مقتدیوں سے فرماتے ہیں: ’’پکڑو اس کتے کو، اس نے مجھے قتل کیا‘‘۔ قاتل حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کا ایرانی ا لاصل عیسائی غلام ابولولو فیروز ہے، یہ جنگ نہادند میں قید ہو کرجناب ِ مغیرہ ؓ کی غلامی میں آجاتا ہے۔ مسجد نبوی ؓ کے پاک فرش کو خلیفہ ٔ وقت کے پاک لہو سے رنگین کر کے یہ کم بخت چشم زدن میں تاریخ اسلام کی تیشہ زنی کرجاتا ہے ۔ اُدھر قاتل کو زندہ قابو میںکرنے کے لئے نمازی بہت کوشش کر تے ہیں مگر یہ اپنے دائیں بائیں خنجر زنی کرتے ہوئے خود کو بچا نے کا رقص نیم بسمل کر تا جاتاہے۔ جائے وارادت پر اس کی اندھا دُھند چھرازنی سے مزیدبارہ نمازی زخمی ہو جاتے ہیں، جن میں سے ۹؍ مومنین اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔ اسی بیچ ایک شخص بڑی پھر تی سے شقی القلب قاتل پر پیچھے سے چادرڈال کر اُسے زمین پر گرادیتا ہے۔ قاتل خود کو مسلمانوں کے نرغے میں پاکر اپنی موت یقینی سمجھ کر اُسی خنجر سے خود کشی کر لیتا ہے جس سے ابھی کچھ دیر قبل روئے زمین پر موجود عظیم ترین انسان فاروق عادل ؓ پر یہ جان لیوا حملہ کر چکا ہے۔ زیرناف چھرا زنی سے امیر المومنین ؓ کی صنفاق اور آنتیں کٹ جاتی ہیں ، آپؓ شدید زخمی حالت میں مصلیٰ پر نیچے آگرتے ہیں لیکن اس عالم ِاضطراب میں بھی بہ قائمی ہوش وحواس آپؓ فوراً حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو امامت کے لئے آگے بڑھاتے ہیں ۔ یہ حضرت قرآن کی دو مختصر ترین سورتیں۔۔۔ سورہ العصر اور سورہ الکوثر۔۔۔ کی قرأ ت کر کے نماز فجر کی پیشوائی فرماتے ہیں ۔ نماز کی ادائیگی اور وہ بھی اس حال میںجب لاکھوں مر بع میل پر اپنی فرمانروائی اور دبدبے کا سکہ چلانے والے امیر المومنین حضرت عمر ؓ مسجد نبوی ؐکے فرش پرخون میںلت پت ہیں اور زخموں سے اُبل رہے درد سے کراہ رہے ہیں ۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی بے ہوشی کی حالت میںآپ ؓ کو کاشانہ ٔخلافت میں منتقل کیا جاتا ہے، دیگر زخمیوں کو بھی مسجد نبویؓ سے اُٹھاکر اپنے اپنے ٹھکانوں پر پہنچادیا جاتا ہے۔ جب سورج نکلتا ہے تو آپ ؓ کچھ ہوش سنبھالتے ہیں ، اپنے اردگرد غم کے مجسم بنے چشم گریاں مصاحبین میں حضرت عبداللہ بن عباس سے نحیف ونزار زبان میں پہلاسوال کر تے ہیں : لوگوں نے نماز پڑھی؟ جواب ملتا ہے ’’ہاں ‘‘۔ بولتے ہیں ’’ جس نے نماز چھوڑی وہ مسلمان نہیں ہے ‘‘۔ آپ ؓ کی حالت غیر ہے مگر پھر بھی ابن ِ عباسؓ سے گھر سے باہر جمع ہجوم سے استفسار کرواتے ہیں: لوگو! امیر المومنین ؓ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ واقعہ تم لوگوں کے مشورے سے ہوا؟ لوگ ڈر جاتے ہیں کہ شک کی سوئیاں کس جانب پھر رہی ہیں ،وہ بیک زبان بول اٹھتے ہیں :’’استغفراللہ ! ہمیں ا س واردات کا کوئی (پیشگی)علم نہیں، ہمیں سازش کی کوئی خبر نہیں‘‘ ۔ یہ اطمینان کرنے کے بعد کہ جم ِغفیر میں سے کسی کو قاتل کے اقدام ِ قتل کے بارے میں کسی سازش کا کوئی علم نہیں ، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ بھیڑ سے پوچھتے ہیں:’’ لوگو! یہ قتل کس نے کیا؟‘‘ سب لوگ ایک ہی شخص کانام لیتے ہیں: ’’اللہ کے دشمن ابو لُولُو نے جو مغیرہ بن شعبہ ؓ کا غلام ہے ‘‘۔ حضرت عمر ؓ جب ابن ِعباسؓ کی زبانی مطلع ہوتے ہیںکہ مسلمان اس ناقابل ِمعافی جرم میں ملوث ہی نہیں اور اصل خونی مذہباً نصرانی ا ور قوماً ایرانی ہے تو آپ ؓ مطمئن ہوکر فرماتے ہیں: ’’ شکر ہے ا للہ کا کہ اس نے میرا قاتل کسی ایسے شخص کو نہ بنایا جو اس کے جناب میں کبھی کے کئے ہوئے اپنے ایک سجدے کو میرے لئے حجت بنا تا۔ الحمد للہ کسی عرب نے مجھے قتل نہ کیا‘‘۔ کڑی آزمائش کے ا ن درد انگیز لمحات میں آپ ؓ سب سے پہلے اگلے خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک چھ رُکنی مجلس مشاورت تشکیل دیتے ہیں۔اب ایک اور فکر آپ ؓ کے دامن گیر ہوتی ہے ۔ اپنے شبابِ خلافت کے دوران آپ ؓ ایک مرتبہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر یہ تمنائے دل ظاہر کر تے ہیں کہ مابدولت کو روضہ ٔ پاک کے پہلومیں (جوحضرت عائشہ ؓ کا حجرہ ہے ) ابدی آرام کے لئے تھوڑی سی جگہ ازاراہ ِ کرم دیجئے گا۔ حضرت صدیقہ ؓ بڑی خندہ پیشانی سے آپ ؐ کو اس کی اجازت مرحمت فرماتی ہیں۔ جان کنی کی حالت میں آپ ؓ اپنے ورثاء سے وصیت کرتے ہیں ’’ اُمت کی ماں سے دوبارہ میری التجاء گوش گزار کر نا کہ عمرؓ اپنے دو محترم ومکرم ساتھیوں حضرت رسول اکرم ؐ اور یارِ غار صدیق اکبر ؓ کی آرام گاہ کے پہلو میں اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓکے حجرے میں سے اپنی تدفین کے لئے جگہ مانگتا ہے ۔ کیا پتہ موصوفہ نے میرے اقتدار کی وجہ سے پہلے بادل نخواستہ اجازت دی ہو ‘‘۔ اپنے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ بن عمر ؓکو اُم المومنین ؓ کی خدمت میں اس بابت روانہ کرتے ہوئے اُن سے فرماتے ہیں :’’ حضرت عائشہ ؓ کے پاس جاؤ ، اور ان سے کہنا عمر ؓ آپ کی خدمت میں سلام عرض کرتاہے۔ دیکھو! امیرالمومنین نہ کہناکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہ رہا، اور مستدعی ہے کہ آپ اُسے( عمر ؓ) اُس کے دو محترم رفیقوں کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت عطا فرما دیجئے‘‘۔ حضرت ابن عمر ؓ اُم المومنین ؓ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ہیں تو انہیں سوگواری کی میں حالت نم دیدہ پاتے ہیں ، بعداز سلام عرض کر تے ہیں :ـ ’’عمر بن خطابؓآپ سے اپنے دومحترم رفیقوں کے پہلو میں تدفین کی اجازت چاہتے ہیں‘‘۔ حضرت عائشہ جواب دیتی ہیں : ’’واللہ یہ جگہ میں نے اپنے لئے رکھی تھی مگر آج میں انہیں اپنے اوپر فوقیت دیتی ہوں ‘‘۔ اپنے صاحبزادے کی زبانی حضرت عائشہ کی مکرر اجازت پاکر حضرت عمرؓ فرماتے ہیں :مجھے ا س آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے ۔ دیکھو عبداللہ ! جب میں انتقال کرجاؤں تو میرا جنازہ لے کر جانا اور اُم المومنین ؓ کے دروازے پر کھڑا ہوکرکہنا :عمرؓ بن خطاب اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اجازت دیں تو جنازہ اندر لے جانا ورنہ مجھے مسلمانوں کے کسی قبرستان میں دفنا دینا‘‘۔
گرم مزاجی میں یکتائے زمانہ خلیفہ ٔ ثانیؓ اپنی آرام گاہ کا معاملہ ہنگامی حالات میں بھی انکسار و نرم خوئی کے ساتھ نپٹاتے ہیں ۔ اس کے بعد ان کی فکریں اب اپنے ذاتی محاسبہ پر مجتمع ہوتی ہیں۔ اللہ کی ہیبت سے لرزیدہ، بیم و رجاء کی کیفیات میں غرق ، اشک وآہ میں غوطہ زن عمر فاروق ؓ اللہ سے رحم وکرم کا معاملہ چاہتے ہیں ۔ عیادت کر نے والا ایک شخص دلاسہ دیتا ہے:’’ قسم بخدا! مجھے اُمید واثق ہے کہ آگ کبھی آپ کے جسم کو کبھی نہیں چھو ئے گی‘‘ ۔ حضرت عمر ؓ بڑی حسرت کے ساتھ اُس سے فرماتے ہیں: ’’ اے شخص! اس معاملے میں تیرا علم قلیل ہے ۔ا گر میرے اختیار میں ہوتا تومیں زمین کے سارے خزانے آنے والی آز مائش کے خوف پر نچھاور کر دیتا ‘‘۔ اس پر حضرت ابن عباس ؓ لب کشائی کر تے ہیں:’’ واللہ !مجھے اُمید ہے کہ آپؓ کو اس سے زیادہ کچھ نہ دیکھنا نہ پڑے گا، جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’اور تم میں سے کوئی بھی نہیں جس کا اس پر سے گزر نہ ہو(سورہ مریم ، آیت۷۱) کیونکہ جہاں تک ہمارے علم کا تعلق ہے، آپ امیرالمومنین، امین المومنین اور سید المومنین ہیں ، کتاب اللہ سے فیصلہ فرماتے ہیںاور حصے برابر تقسیم کر تے ہیں‘‘۔ یہ سن کر آپ ؓ بہت شادماں ہوتے ہیں ، ذرا سا سنبھل کر بیٹھتے ہیں اور فرماتے ہیں:ابن عباس! کیا تم میرے لئے اس کی شہادت دوگے؟ حضرت ابن عباسؓ سکوت اختیار فرماتے ہیں ۔ شہادت کے دہانے پر کھڑے عمر فاروق ؓ اُن کے شانے تھپتھپاتے ہیں : ’’ابن عباس!میرے لئے اس کی شہادت دینا‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اثبات میں جواب دیتے ہیں :’’ ہاں ، میں اس کی گواہی دوں گا‘‘۔
بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ،ان شاء اللہ
�������