Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!۔۔۔۔ قسط 84

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 27, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
 مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کا سفر جاری تھا کہ بہشت ِمدینہ کی ہوائیں ہمارے دیدہ ٔ شوق کا اضطراب بڑھا تی ر ہیں ، مدنی خوشبوئیں زنان ِ مصر کی طرح ہمارے دل و جگر کاٹتی رہیں، گنبد خضریٰ کی تابانیاںسینکڑوں میل دوری سے ہماری بے تابیوں کو مہمیز دیتی رہیں۔ ایسے میں ہوش وحواس کی پگڈنڈی پر قدم پھسلے بغیرچلنا صرف دل گردہ کا کام ہی ہوسکتا ہے ۔ حالانکہ علامہ اقبالؒ اس نازک موقع پر اللہ سے یہ دعا مانگتے    ع
 مرے مولا !مجھے صاحب ِجنوں کر 
  یہ دُعا مانگنااقبال جیسی اونچی ہستی کے لئے ہی شا یانِ شان ہے ،ہم ٹھہرے مدینہ منورہ کے ادنیٰ مسافر ، نہ صاحب ِ جنون نہ راہِ عشق ومستی کے پیادے، بلکہ گزرگاہِ رسول اکرم صلی ا للہ علیہ و سلم سے دیار ِ حبیب ؐکی جانب مشتاقانہ بڑھنے والے  تھے۔ ہم جیسے عامی اس شاہراہِ ہجرت کی اہمیت پر کیا سوچیں، اس کی مسافت پر کیا غور کریں، اس کے نشیب وفراز اور پیچ وخم کو کیادیکھیں ، اس کے آخری پڑاؤ کا کیاتصور کریں، ہمارے لئے عزتؔ بخاری کا یہ فرمودہ بس مد ینے کے تقدس و ادب میں ڈوب جانے کادرس ہے     ؎
 ادب گاہیست زیر آسماںاز عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنیدو بایزیدایں جا
 یعنی آسمان کی چھت کے نیچے فرش زمین پر روضۂ رسولؐ عرش سے بھی زیادہ نازک تر ہے کہ یہاں حضرت جنید بغدادی ؒ اور بایزید بسطامیؒ جیسے اولیاء اللہ بھی سانس رو ک کر آتے ہیں۔ کہاںہم اور کہاں یہ برگزیدہ ہستیاں ! ہم میں وہ روحانی قوت اور ضبط کہاں کہ دم کشی کریں اور مدینہ طیبہ جاتے ہوئے اپنی سانس کی آہٹوں تک کوروکیں مبادا ہم سےکوئی  بھول بے ادبی انجانے میں سرزد ہو ۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا کرسکتے ہیں کہ یہاں کی ہر شئے کے ادب واحترام اور تقدس مآبی کا لحظہ لحظہ خیال رکھیں، اپنی آواز بالکل پست ،لہجہ حد درجہ شریفانہ اور نگاہیں نیچے رکھیں ۔ مدینے کے عاشق وہ بزرگ گزرے ہیں جنہیں یہاںدہی کی کھٹاس کے بارے میں یہ شکایت کر نے پر بھی عمربھر پچھتاوا رہا۔
   مدینہ طیبہ کی شاہراہِ ذی شان کے دونوں اطراف ہمارے استقبال میں تقدس مآب ریگ زار، بیابان، پہاڑ ، سنگلاخ چٹانیں اور باوقارخاموشیاں چشم براہ نظر آتی تھیں ۔ان سب کواُس قافلۂ ہجرت کے دیدار کا رتبہ ٔ عالیہ اور شرف حاصل ہے جو اسلام کے شاندار اور پُر بہار مستقبل کے سالارِ قافلہ ٔ محمد رسول ا للہ ؐ کی قیادت میں آج سے چودہ سو اُنتالیس برس قبل بسوئے مدینہ گامزن تھا۔ مدینے کاوہ فقیدالمثال مہاجر قافلہ دو اونٹوں پر رواں دواں تھا۔ میرکارواں سرورِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اونٹ پر اور غیر مسلم راہ شناس عبداللہ بن ارقط اور صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام ِ آزاد مگر اسیرِ اسلام حضرت عامر بن فُہیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے اونٹ پر سوار تھے ۔ یہ مختصر سا قافلہ مکہ سے یثرب( جو بعدازاں مدینۃ النبیؐ کہلایا) جارہاتھا تاکہ سرزمین مدینہ فانوس بن کر شمع ِاسلام کی حفاطت کرے، اسلام کے فلاح ِ انسانیت کا ابدی منشور اس پہلی اسلامی ریاست میں نافذالعمل کیاجائے ، یہاںسے ایمان ، تقویٰ، صالحات ، اُخوت اور امن ِعالم کا پرچم لہرایاجائے، یہیں سے دنیا میں اندھیاروں کا مقابلہ اُجالوں سےکرنا شروع کیا جائے ۔ہم ان بلند مرتبہ پہاڑوں اور بیابانوں کو دل ہی دل سلام عقیدت پیش کرتے رہے کہ انہوں نے شانِ اسلام کے اصل ضامنوں کو یہاں سے آتے جاتے دیکھا ہے۔ ہمارے جذب و جنون کومشہور نعت خوان اُم حبیبہ کا نعتیہ کلام دوآتشہ کررہاتھا۔ ہم اُن کے منفرد ترنم ، سوزوگداز ، لفظوں کے زیروبم، لہجے کی شرینی ، خوش الحانی کی اثر آفرینی پر سر دُھنتے رہے ، بیچ بیچ میںاپنے گرم گرم آنسوؤںسے بھی دل کوسیراب کرتے رہے ۔ شوق کا پنچھی جھٹ سے اپنا یہ دُکھڑا لئے بیٹھا : جس ماورائے گمان ذاتِ اقدس صلی ا للہ علیہ و سلم کی تزئین کاری اورنقاشی اللہ خصوصاً کے ہاتھ ہوئی ہو، جس پر خود اللہ جل شانہ اور اس کے ملائکہ دور بھیجتے ہوں،جس کے پاک وجود میں اللہ نے خُلق عظیم کا وہ گلستان مہکایا کہ جملہ انبیاء ومرسلین ؑ کی صف میں آپ سب پر فائق ہوں، کیا کسی نعت گو کی زبان میں یارا ہے کہ انسانیت کے اس واحد رول ماڈل کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف ِ حمیدہ کی آئینہ داری وترجمانی کا حق ادا کرسکے؟ کیاکوئی ہندسہ اس کی صفات مقدس کاشمار کر سکتا ہے ؟ کیاکوئی آلہ ٔ پیمائش اللہ کے اس قاصد ونامہ بر کی عظمتوں اور احسانات کے ناپ تول کا متحمل ہوسکتا ہے ؟ کیا کوئی حرف و صوت اس کی تعریف وتوصیف کا احاطہ کرسکتا ہے؟ میں کہتاہوں دنیا کی ہر نعت نامکمل اور اُدھوی ہے ، یہ ہوہی نہیںسکتا کہ کوئی نعت خوان پیغمبر آخرالزماںؐ کی ذات وصفات کی مدح سرائی کا حق ادا کر سکے۔ شاہ عبدالحق دہلویؒ جیسے عاشق وعارف یہ کہہ کر مدحت نبی ؐ کے حوالے سے انسانی زبان کی محدودیت اور بیان کی معذوری کا اظہار کر چکے ہیں   ؎
 یا صاحب الجمال و یا سید البشر ؐ
من وجہک المنیرلقد نور القمر
 لا یمکن ا لثناء کما کان حقہ
 بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
  کسی نعت خوان کی خوش نوائی کی داد دنیا ، اس کی شرین کلامی پر سردُھننا، نعتیہ قوالیوں پرواہ واہ کر نا کیا کوئی کمال ہے؟ یہ بہت آسان ہے مگر ذرایاد کیجئے ہجرت مدینہ کی پُر خطر ساعتوںکو جب اسلام کی بقاء کے لئے آپ ؐ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اس صحرا وبیابان سے گزرہے تھے، آپ ؐ نہتے تھے ، بے سروسامان تھے ،جانی دشمنوں کے مسلسل تعاقب میں تھے ، سنگین خطرات سر پر منڈلا رہے تھے مگر آپ ؐ یہ سب نظر انداز کر کے اسی شاہراہِ ہجرت سے اللہ کے آخری پیغام کی تابندہ روشنیوں کوتن تنہا مدینہ منتقل کررہے تھے ۔اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ائمہ کفر،اصنام پرستوں اور باطل عقائد کے ساتھ پل بھر کے لئے بھی سمجھوتہ کر نا آپ ؐ کوقبول نہ تھا ۔کیوں؟ وجہ ایک ہی تھی کہ آپ ؐ کو توحیدباری کا نور دنیائے انسانیت میںپھیلانا مطلوب تھا تاکہ انسانی دنیا تاریکیوں میں مزید ٹھوکریں کھانے سے بچ جائے، گناہوں کی اوبڑ کھابڑ کھائیوں میں گرنے سے رُک جائے، شرک وبدعت کی گمراہیوں سے نکل کر خدائے یکتا کے دامن ِتوحید میں آبا د ہوجائے۔ یہی آفاقی نصب العین، یہی دعوت ، یہی پیغام اپنے سینہ ٔ بے کینہ سے چمٹائے آپؐ اسلام کے ابدی اصولوں ا ور دائمی اقدار کے تحفظ و نفاذ کے لئے مصائب اور مشکلات کے بھنور میں مہاجرت اختیار کر گئے ۔ آپ ؐ کی حمایت میں کوئی فوج نہ تھی، کوئی توپ وتلوار نہ تھی ، کوئی بڑا انبوہ ِانسانی نہ تھا، کوئی اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ نہ تھا ، کسی قصیدہ گو میڈیا کی پشت پناہی نہ تھی، کسی سیاسی اقتدار کی اخلاقی مدد نہ تھی، ماسوائے ایک اللہ کے اور مٹھی بھر لٹے پٹے جان نثار مہاجرین ِمکہ اور اسلامی غیرت وحمیت کے متوالے انصارِ مدینہ کے، آپؐ یکہ وتنہا تھے، لیکن آپؐ کے پاس ہمہ گیرکامیابی اور فتح کامل کی شاہ کلید یعنی خلق ِعظیم کا وہ گنج ہائے گراں مایہ تھا جو کسی اور کو آج تک اورنہ آئندہ قیامت تک نصیب ہو گا۔انہی بلند و بالااخلاق کو موسموں کے اُلٹ پھیر کی پرواہ کئے بغیر آپ ؐ بے دریغ لٹاتے گئے کہ دس سالہ مدنی زندگی میں آپؐ کے مقدس ہاتھوں اور جانثار صحابہؓ کی اَن تھک قربانیوں سے صالح انقلاب کاوہ عجوبہ چشم ِفلک نے دیکھاجو بڑی بڑی سلطنتیں اور مادی طاقت سے لیس متمدن قومیں بھی بر پا کر نے سے قاصر ہیں۔ لامثال اخلاق کریمانہ کا یہ نہ ختم ہونے والا خزانہ آپ ؐ کی صداقت شعاری ، عدل گستری، خوش اخلاقی ، نرم مزاجی ، رحم دلی، صبروتحمل، اعتدال نوازی، انسان دوستی ، صلح پسندی ، اپنوں اور غیروں سے مہر وماہ کی صورت میں متواتر آپ ؐ کی جلوت وخلوت میں چھلکتا رہا ،اسی اخلاق فاضلہ کے بل پر مہاجرین و انصارؓ کے اس قائد بے بدل نے بہت کم عرصہ میں بے انتہا مخالفتوں ، کدورتوں ، سازشوںاور جارحیتوں کے باوجود لوگوں کے دل جیت لئے ،ان کے ضمیر مسخر کئے ، ان کے سوچ کی کائناتیں بدل ڈالیں، انہیں کھرے اور کھوٹے میں تمیز کر نا سکھایا ، انہیں حق کا جان نثارا ور باطل سے بیزار بنایا ، یہ سب ہوا تو پھر تاریخ نے حیرت واستعجاب کے ساتھ ا سی شاہراہِ ہجرت سے آپ ؐ کو چند ہی سال بعد ہزاروں بندگان ِ خدا کو اپنے ہمراہ لئے پُرامن طور مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کا معجزہ رونما ہوتے دیکھا اور یہ مناظر بھی دیکھے کہ اسلام کے پُرامن ا نقلاب سے بولہبی کے تمام فتنہ سامان بُت یک لخت پاش پاش ہوئے ، اسلام کا بول بالا ہوا، حق کا دور دورہ ہوا ۔ تاریخ ساز  ہجرت برائے اسلام کے بعد خدائی نصرت کا یہی زریں باب ہے جسے آج تم لوگ صرف نعت خوانیوں تک محدود کر چکے ہو ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ہجرت کے بعد نصرت خد ا وندی جزیرہ نماعرب میں محض سیاسی ہاتھوں کی ادلا بدلی اور مذہبی چہروں کے تغیر وتبدل کامظہر نہ تھا بلکہ یہ نظامِ کفر کی جگہ نظامِ اسلام کا عملی نفاذ تھا ، یہ شرو فساد اور شرکیات و بدعات کے خاتمے کا اعلان تھا ، یہ کعبہ کی تولیت بت پرستوں کی تحویل سے چھین کر توحید کے پرستاروں میں منتقل ہونے کا دیباچہ تھا، یہ اسلامی نظریہ ٔ حیات کی پرچم کشائی تھی، یہ نئے زمانے کی نئی ہواؤں میں اسلامی تہذیب وتمدن کی سنگ بنیاد  تھی، مگر واللہ ہجرت ِمدینہ کے بعد فتح ِمکہ کا انقلاب آفرین واقعہ صرف اور صرف آپ ؐ کے خلق عظیم ، جہد مسلسل اور بے مثال قائدانہ صلاحیتوں کا منطقی نتیجہ اور اللہ کی تائید ونصرت کا رہین ِمنت ہے ۔ بے شک مدینہ نے جنگیں دیکھیں، تلواروں کی جھنکاریں سنیں ، شہیدوں کے لاشے دیکھے، دنیوی نقصانات کے غم سہے، دُکھوں کی فصلیں کا ٹیں، آلام وشامتوں کے نامہربان موسم برداشت کئے، پریشان حالی کی آندھیوں کا مزا چھکا، کردار کشیوں کے طوفان امڈتے دیکھے مگر ان تمام اعصاب شکن حالات میں اہل اسلام کے لئے ایمان کے بعد واحد آپ ؐ کا خلقِ عظیم ہی فتح مبین اور اُمید فردا کا اُجالا تھا جس نے اسلامیان ِ مدینہ کو ہرمصیبت وتکلیف میں ثابت قدم بھی رکھا اور دعوت و عزیمت کی وساطت سے انہیں دنیا پر چھا جانے کا حوصلہ بھی دیا۔ آپ ؐ کے خلق عظیم نے مسلمانوں کو اشارہ کیا کہ ایمانی برادری اور اُخوت کی لاج رکھتے ہوئے انصار اپنے مہاجربھائیوں کو اپنی جائیدادوں ، میراث اور کاروبار میں شریک کریں ، سب نے کہا چشم ماروشن دل ماشاد۔ خلق عظیم نے اعلان کیاشراب پینا مسلمان کے لئے حرام ہے تو ریاست ِمدینہ کے اطراف واکناف میں ایک دم اُم الخبائث ایسے غائب ہوئی جیسے یہ قرنوں سے وہاں ممنوعہ تھی ، خلق عظیم نے ہدایت جاری کی قبلہ کی سمت بیت المقدس سے بدل کر بیت اللہ کی طرف پھیر دو تو لوگوں نے بنا چوں چرا نماز کی حالت میں سنتے ہی بیت اللہ کی طرف رُخ کیا ، خلق عظیم نے جنگی مقاصد کے لئے چندے کی اپیل کی تو صدیق اکبرؐ نے گھر کو خالی کر کے دربار نبوی ؐ میں گھر کا سارا سامان پیش کیا، فاروق عادل ؓ نے نصف اثاث البیت لا حاضر کیا ، جب کہ ایک صحابیؓ نے رات بھر کسی یہودی کے پاس مزدوری کر کے سیردوسیر کھجو روں کی کمائی پیش کی تو اُسی کا مالی ایثار سب پر سبقت لے گیا، خلق عظیم نے فصل کٹائی کے موقع پر حکم دیا محاذ جنگ پر کوچ کرو، سب نے اپنی تمام نجی مصروفیات چھوڑ کر حکمِ پیغمبر ؐ کی بلا توقف تعمیل کی۔ آج یہ خلق عظیم مسلمانوں نے بھولی بسری کہانی بنادی ہے ۔ ہم نے اس انمول متاع سے ناطہ توڑدیا تو اللہ نے بھی ہمیں یکسر اپنے سرکش اور باغی درندوں کے حوالے کیا ہو اہے۔  
 آگے شو ق کا پنچھی اصرا کر نے لگا:میری مانئے واپس پلٹ آئیں کیوں کہ آپ کو پتہ نہیں آپ کہاں جارہے ہیں۔ تصور میں لایئے آپ اولاد ِ آدم کے سرداروغم خوارؐ، امام الانبیاء ؑ، صاحب ِ معراجؐ، شافع محشرؐ اور دنیائے انسانیت کی واحد اولوالعزم ہستی کے در پر حاضری دینے کے لئے سفر مدینہ پر ہیں، مگر پہلے خدارا!آپؐ کی عظمتوں اور رفعتوں کا کچھ خیال توکیجئے۔ ذرا سا دل کی دنیا ٹٹولئے ، کیااس میں آپ ؐ کے لئے ادب، محبت، احترام اور اتباع کا ہمہ رنگ گلستان بسا ہے ؟ دماغ کا جائزہ لیجئے اس میں کبرو نخوت اور عقل نارساہے یا عظمت ِ رسولؐ کا سکہ جما ہوا ہے ؟ اپنی آنکھ کی پتلی کی خبر لیجئے اس میں نگاہ ِ بصیرت کا خزانہ پنہاں ہے یا دنیا کی عارضی رنگینیاں پناہ گزین ہیں؟ 
  شوق کے پنچھی کی اس گفتگو میں گم صم اوران کے مطالب و معانی میں کھویاہوا تھا کہ ڈرائیور نے کسی جگہ نماز عصر کے لئے گاڑی روک دی۔ زائرین نیچے اُترکر شاہراہ ِ مدینہ کے کنارے واقع شاندار مسجد اور اس سے ملحقہ وضوخانہ کی طرف چل دئے۔ یہاں زائرین کی دو تین اور گاڑیاں ہم سے پہلے ہی نماز اور چائے نوشی وغیرہ کے لئے کھڑی تھیں۔ ہم نے تجدید وضو کر کے مسجد میں صلوٰاۃ العصر باجماعت اداکی۔ یہاں نما ز کے لئے سرکاری طور امام صاحب تعینات ہوتاہے جو بسا اوقات خود اذان دیتاہے ، تکبیر تحریمہ بھی خود ہی پڑھتاہے اور پھر نماز کی پیشوائی بھی کر تاہے۔ مسجد میں لگاتارایک جماعت کے فوراً بعد دوسری جماعت کھڑی ہوتی ہے ۔ خرابی ٔ بسیار کے باوجود عرب دنیا میں نمازوں کا پنچ وقتہ اہتمام اس بات کا خوش کن ثبوت ہے کہ اسلام ابھی تک ا ن کے شعور اور تحت الشعور میں قوت وتحرک کے طور موجود ہے ۔ یہی ان میں منفرد چیز ہے۔ مسجد میں خواتین کے لئے الگ جگہ مقر ر ہوتی ہے ، وضو خانے کا انتظام بھی جدا گانہ ہوتا ہے ۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم نے چائے ناشتہ کیا ۔ یہاں پشتون بولنے والا ایک دراز قد خوانچہ فروش مختلف خشک میوے مونگ پھلی وغیرہ اپنی ریڑھی پر سجائے بیچ رہاتھا۔ میرے خیال میں زائرین کو ان خوانچہ فروشوں سے ضرور کچھ نہ کچھ لینا چاہیے جواپنے وطن سے ہزاروں میل دورچار پیسے کمانے کے لئے اس مبارک شہر میں ایک اُمید لے کر آتے ہیں۔
) نوٹ :بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ، ان شاء اللہ)
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

نجی ہسپتال اس بات کو یقینی بنائیںکہ علاج عام شہری کی پہنچ سے باہر نہ ہو:وزیراعلیٰ نیشنل ہسپتال جموں میں خواتین کی جراحی کی دیکھ بھال پہل ’پروجیکٹ 13-13‘ کا آغا ز
جموں
آپریشنز جاری ،ایک ایک ملی ٹینٹ کو ختم کیاجائیگا بسنت گڑھ میںحال ہی میں4سال سے سرگرم ملی ٹینٹ کمانڈر مارا گیا:پولیس سربراہ
جموں
مشتبہ افراد کی نقل و حرکت | کٹھوعہ میں تلاشی آپریشن
جموں
نئی جموں۔ کٹرہ ریل لائن سروے کو منظوری د ی گئی
جموں

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?