Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

نزول گاہِ وحی کی مہمانی میں!۔۔۔قسط87

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 17, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
20 Min Read
SHARE
   گزشتہ شمارے میں برسبیل تذکرہ پہلے عمرے کا ایک واقعہ یاد آیا تھا جسے سپردِ قرطاس کیا تاکہ داستانِ حرم کا یہ پہلو یاداشت کی تختی سے محو نہ ہو ۔ یہاں یہ بتا تا چلوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور ہر بار ماہ ِ ذی قعد میں یہ فریضہ انجام دیا مگر حج بیت اللہ صرف ایک ہی مرتبہ ادا کیا، رخت ِسفر مدینہ منورہ سے ماہ ذی قعد میں باندھا ۔ اس موقع پر تمام ازواج مطہرات ؓ آپ ؐ کے ہمراہ تھیں ۔ تاریخ ِاسلام میں یہ حجۃالوداع سے موسوم ہے۔ شاہِ مدینہ ؐ نے طوافِ کعبہ اپنی اونٹنی پر کیا اور چاہِ زمرم کے پاس پہنچ کر اس میں ڈھول ڈالا، زمرم نکالا ، کچھ نوش فرمایا ، بچے ہوئے زمزم میں لعاب ِ دہن ملا اسے کر کنوئیں میں ڈال دیا ۔ اس لعابِ دہن کا اثر ِخوش تر ابدالآباد تک ہمارے روحانی امراض کے لئے تریاق ہے ۔  
     بہرصورت ہمارا سفر مدینہ شدو مد سے جاری تھا ۔ رات کے اندھیرے میںتادیر دائیں بائیں صحرا و بیابان دیکھنے کے بعد اب رفتہ رفتہ قافلے کا گزر شہری بستیوں اور آبادیوں کے درمیان ہورہاتھا ۔  دیدہ زیب مساجد کے فلک بوس مینار، کثیر منزلہ عمارتیں، قمقموں کی چمک دمک ، اَن گنت گاڑیوں کی آمدورفت، بازاروں کی چہل پہل وغیرہ سے محسوس ہورہاتھا جیسے زندگی کی بہاریں یہاں دن رات مسکراتی رہتی ہیں۔ یکے بعد دیگرے پُر بہاربستیاں اور مصروف بازارنظر آنا ہی گویا اس بات کا بلیغ اشارہ تھا کہ ہمارے سفر کا آخری سرا یعنی طیبہ کا گوہر مقصود ہم سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔ مسجد نبوی ؐ کی عطر بیز قربتوں سے شو ق کا پنچھی کیف و مستی کے عالم میں جھوم اُٹھا،بولا : اقبال کی یہ عاشقانہ رہنمائی اہل ِدل کے لئے ایسے ہی موقعوں سے مناسبت رکھتی ہے    ؎
 اچھا ہے دل کے پا س رہے پاسبان ِ عقل
 لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
    کچھ معلوم ہے اقبال نے اپنے روحانی سفر مدینہ میں کسی طیارے یا لاری کا احسان نہ لیا بلکہ کچھ دیر پاسبان ِعقل کو دل کی نگرانی سے فارغ کر کے والہانہ شیفتگی ، عاجزانہ فروتنی،فدویانہ گرویدگی اور مخلصانہ حاضر باشی سے یہ مشتاقانہ سفر پلک جھپکنے کی دیر میں طے کیا۔ ہم سب بہ جسد وجان راہروان ِ طیبہ میں شامل ہیں لیکن وہ بندہ ٔ خدا ، مردِقلندر، دانائے راز ، عشق ِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم میں سراپاغرق، اپنی زندگی کے لئے عمر مسنونہ کی حد پار نہ کرنے کی آرزو رکھنے والا، اخیر عمر میں نام پاک رسول ؐ سنتے ہی زیادہ ہی رقت آمیزی سے بلبلانے والا، ہمہ وقت حرمین کی زیارت کے لئے تڑپنے والا اقبالؒ۔۔۔ اپنے قلبِ ِمصفیٰ اور رُوحِ بالیدہ لے کر جب عشق بنیؐ کی سواری پر طیبہ کی جانب بڑھے تو تجلیات ، مشاہدات اور اپنے قلبی واردات کا حال احوال ہمیں بتائے بنانہ رہے۔ ’’ارمغان حجازی‘‘( فارسی) کی نظم ’’حضورِ رسالتؐ‘‘ انہی جذبات و کیفیات کا شاہکار تحفہ ہے۔ یہ نظم ہمیں ایک نقش ِراہ عطا کرتی ہے کہ جب بھی حرمِ مدینہ جانے کی سعادتِ کبریٰ سے سرفراز ہوجائیں تو دل کے سمندر میں صالح جذبات کا مدوجزر کا انہی جذبات ومحوسات سے عبارت ہو ۔ اپنے روحانی سفر مدینہ کی جھلک دکھاتے ہوئے فرماتے ہیں    ؎
سحر باناقہ گفتم نرم تررو
 کہ راکب خستہ وبیمار پیر است
 قدم مستانہ زد کہ چنداں گوئی
 بپایش ریگ ِا یں صحراحریر است
 ترجمہ : ( مدینہ منورہ جاتے ہوئے) صبح کے وقت میں نے اپنی اونٹنی سے کہا ذرا آہستہ چل کیونکہ( تیرا)سوار تھکا ماندہ، بیمار اور عمر رسیدہ ہے۔ اس ( اونٹنی ) نے مستی کے عالم میں اپنے تیز تیز قدم مارے کہ گویااس کے پاؤں کے نیچے صحرا کی ریت ریشم (کی طرح نرم) ہے۔
 مہار اے ساربان اور را نشاید
 کہ جان ِاو چہ جانِ مابصیر است
 من از موج ِ خرامش می شناسم
 چو من اندر طلسم دل اسیر است
 ترجمہ: اے شتربان! اس (اونٹنی ) کے لئے نکیل مناسب نہیں کیونکہ اس کی رُوح بھی ہماری روح کی طر ح بصیرت والی ہے۔ میں اس کے اندازِخرام سے( یہ ) سمجھ رہاہوں کہ (وہ بھی ) میری طرح دل(محبت النبیؐ) میں گرفتار ہے ۔
 چہ خوش صحرا کے دُرودے کا رواں ہا
 دُرودے خواند ومحمل براند
 بہ ریگِ گرم او آور سجودے
 جبیں راسوز تاداغے بماند
 ترجمہ: کیسا اچھا ( خوش نصیب )ہے وہ صحرا کہ جس میں( مدینے کے) قافلے دُرودپڑھتے ہیں اور اپنے محملوں کو ( اونٹنیوں کو ) ہانکتے ہیں۔ تُو اس کی گرم ریت پر سجدہ کر( اپنی پیشانی کو جلا تاکہ اس پر کوئی داغ ( سجدے کانشان )رہ جائے۔
 مسلمان آن فقیرے کج کلاہے
 رمید از سینہ ٔ اوسوز آہے
 دلش نالد، چرا نالد، نداند
 نگاہے یارسول اللہؐ نگاہے
 ترجمہ : مسلمان وہ ( شاہانہ تمکنت والا)فقیر، افسوس اس کے سینے میں گرمی ( ایمان و عشق کی گرمی) نکل گئی ہے۔اس کا دل روتا ہے ،کیوں روتا ہے؟ وہ نہیں جانتا،( اس نالہ بر لب قوم پر)اک نگاہ ِ کرم اے اللہ کے رسول ؐ! بس اک نگاہ ِ کرم! 
اقبال نے آقائے مدنی ؐ کے حضور مسلمانوں کی زار وزبوں حالات  گوش گزارکر کے وہی دردِ دل پیش کیا ، وہی مرثیہ خوانی کی ، وہی نالہ زنی کی ،و ہی دُکھڑا سنایاجوا نہیں اس بارے میںعمر بھر تڑپاتا رہا ۔ یہ اُمت مسلمہ کی بدحالی ، خود فراموشی اور انتشار وافتراق کی ناگفتہ کہانی ہے ۔ا نہوں نے قبل ازیں سر سید کے فرزند سرراس مسعود کے نام اپنے ایک مکتوب مورخہ ۱۵؍ جنوری ۱۹۳۷ ء میں عمر بھر کی اسی تڑپ کو یوں اظہار کی زبان دی :’’ ان شاء اللہ اُمید ہے کہ سال ( آئندہ ) حج بھی کروں گا اور دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری بھی دوں گا اور وہاں سے ایک ایسا تحفہ لاؤں گا کہ مسلمانانِ ہند یاد کریں گے‘‘ (زندہ رُود: جاوید اقبالؔؔ)
 اقبال شناس چوہدری محمدحسین کہتے ہیں کہ یہ تحفہ’’ ارمغان حجاز‘‘فارسی تھا ۔ وہ لکھتے ہیں :’’ دیار ِ حبیبؐ اور روضۂ حبیب ؐ کا شوق برسوں سے رُوح اقبال کو جذب کئے ہوئے تھا،دن بھر میں بہت کم ایسے لمحے گزرتے ہوں گے کہ محمدؐ( فداہ روحی) کی باتوں سے وہ دل غافل ہوتا ہو۔۔۔کئی سال حج کے موقع پر حجاز جانے کی تیاریاں ہوئیں، لیکن طویل علالت کی وجہ سے حالات نے مساعدت نہ کی۔۔۔ چونکہ نیت پختہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںایک دفعہ حاضر ہونا ہے اور وہاں معروضات بھی پیش کر نی ہیں اور ملت کی نمائندگی بھی کرنی ہے،اس ان معروضات کی تحریر وتسوید شروع ہوگئی اور اضطراری طور پر شروع ہوگئی اور چونکہ مدینہ جانے سے پہلے مکہ یعنی خدا کے گھر بھی جانا تھااور دونوں گھروں میں حاضری اور پیش کش گزارنے کے بعدوہاں سے قوم وملت کے نام تحفے لاناتھے،اس لئے تصنیف ( ارمغانِ حجاز ) نے یہ صورت اختیار کی کہ پہلے حضورحق گزارشات پیش ہوں اور اس کے بعدحضور رسالتؐ اور پھر حضور ملت‘‘( ایضاً)
 اقبال نے مسلم اُمہ کے اوپر مسلط جن آلام و مصائب پرسرور عالم ؐ کے حضور عالم تصور میں پہنچ کر ماتم کیا، مرثیہ پڑھا آج وہ آلام ومصائب کروڑ گنا زیادہ شدت کے ساتھ کلمہ خوانوں کے گلے جابجا پڑے ہوئے ہیں۔ان کے چلتے مسلمان ا س وقت دنیا بھر میں ذلیل وخوار ہیں ، رونے دھونے، مرنے مٹنے اور سینہ کوبی کرنے سے فارغ ہی نہیں ہورہے، اغیار واشرار اُمت پر جگہ جگہ بھوکے گدھوںکی طرح پِل پڑے ہیں ، ستم یہ کہ ہم مسلمان خود بھی ا یک دوسرے کے درپئے آزار ہیں، بے اصل اختلافات میں پڑکر باہم دگر گلے کاٹنے کو ہم ہی اپنی مسلمانیت کا اظہار مان رہے ہیں ۔ مسلم قوموں اور ملکوں کی جب یہ مایوس کن تصویر نگاہوں کے سامنے ہو تو ہم کس منطق سے خود کواُمت ِواحدہ کہیں ؟ سچ یہ ہے کہ ہم ایک ایسا منتشر ومتفرق ، متصادم ومتخاصم انبوہ ِ آدم ہیںجو اطراف و جوانب میں لُٹ رہے ہیں ، پِٹ رہے ہیں ، ہماری حیثیت سیلِ رواں کے اوپر جمی بے وقعت جھاگ سے بھی گئی گزری ہے ، کوئی ہمارا نالہ وفریاد نہیںسنتا ، کسی کو بھی ہماری بپتا سے دلچسپی نہیں ،کوئی ہم پر مائل بہ کرم نہیں، کسی کا دل ہمارے ناقابل ِبرداشت رنج وغم سے پسیجتا نہیں کیونکہ ہمارے ملکوں میں ہمارے ہاتھوں جنگیں اُگ رہی ہیں، ہماری بستیوں پرمصیبتیں برس رہی ہیں، ہمارے گھروں میں تکلیفیں پنپ رہی ہیں ، ہمارے کھیت کھلیان میں ایذائوں کی کاشت ہورہی ہے، ہمارے چاروں موسم برادرکشیوں، تکفیر بازیوں، مسلکی انتشاروں ، ناچاقیوں میںبیت رہے ہیں ،ہم چاروں طرف سے دشمن کے محاصرے اور سنگینوں کے سائے میں جی رہے ہیں لیکن ہلاکت خیزی کے دلدل میں پھنسے ہونے کے باوجود ہم میں سے کسی کو اُمت کے بچاؤ کی سُدھ بُدھ ہے نہ دفاع کی فکر!!! اپنے اردگرد یہ ساری تباہ کاریاں اور مجرمانہ لاپروائیاں د یکھتے ہوئے حساس دل انسان کا کلیجہ منہ کو آئے تو آئے لیکن خدا گواہ نہ زمین ہم  پررو نے کو تیارہے نہ آسمان مغموم ہو نے پر آمادہ ۔ یہ ہم پر اللہ کی سخت پکڑ (بطش الشدید ) عذاب کا کوڑا ( سوط العذاب) نہیں تو اور کیاہے ؟ اقبال اگر آج دربار رسالت ؐ میں جاکر مسلم اُمہ کی خود پیداکردہ حالت ِزار پر رحم وکرم کی فریاد کر تے تو ان کے ماتمی الفاظ کا ذخیرہ بھی نامساعد حالات کی تصویر کشی کر نے میں کم پڑتا۔ وہ کس منہ سے ہمیں مسلمان ومومن کے طور حضور اکرم ؐ کے رُوبرو جاکر پیش کرتے ؟ اس ساری ناقابل ِبیان صورت حال کے ذمہ دارا ور قصور وار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں ۔ کیا ہم نے کبھی سنجیدگی سے یہ سوچا کہ اللہ اور رسول اللہؐ نے ہمیں قبل ا ز وقت خبردار کر رکھا ہے کہ جو اسلام کا نہیں وہ اُس کے پشتیبان نہیں، مددگار نہیں ، غم خوار نہیں!!! سوچئے جو حکمران اللہ ورسول ؐ کے کھلے دشمنوں کے ساتھ دوستی گانٹھتے ہوئے’’ماڈریٹ اسلام‘‘ کے نام پر نہ صرف اسلام کی آخری پناہ گاہ کے اسلامی تشخص کے بخیے اُکھیڑنے کے لئے شاہی فرامین جاری کر تاہو بلکہ اپنے ہی ہم مذہبوں کے قتل و غارت اور بربادیوں کا سامان بھی کر تا پھرے، اُس کی وکالت اقبال دربار رسالتؐ میں کس زبان سے کرتے ؟ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے خدمت ِانسانی کے طفیل ہمارے اسلاف کے سر دنیا کی امامت و رہنمائی کی دستارِ فضیلت باندھ لی تھی ، لیکن جب ہم نے ا س اعزاز کواپنے سر سے اُتار پھینکاتو سنت ِ الہٰیہ کے عین مطابق ہمارے لئے حشر سامانیوں کا فیصلہ عرشِ معلی سے صادر ہونا ہی تھا۔
 بایں ہمہ یہ دستار ِ فضیلت اب بھی قرآن وسنت کی صورت میں ہمیں پکار رہی ہے : آؤ! اے اسلام کے دعویدارو! اللہ کی اطاعت اور اتباع رسولؐ سے مشروط انفرادی و اجتماعی زندگی کی سرخروئی اور آخرت کی کامرانی کا معاہدہ طے کرکے اپنی بگڑی بھی بناؤ اور قوموں کی تقدیر یں بھی سنوار و، جنت بھی کماؤ اور عذابِ جہنم کے عذابوں سے بھی بچو مگر آہ! ہم اس صدائے رُبانی کی اَن سنی کئے جار ہے ہیں ۔ راہ ِ مدینہ کا عاشق ِدیرینہ اقبال ہمارے زوال وادبار کے اسباب ومحرکات کی تشخیص کر کے ایک اور تلخ حقیقت کی گرہ کشائی کر تے ہیں    ؎
شبے پیشِ خدا بگریستم زار
مسلماناںچرا زارند وخوارند
ندا آمد، نمی دانی کہ ایں قوم
 دلے دارندو محبوبے نہ دارند
 ترجمہ:ایک رات میں خدا کے حضور زار وقطار رویا کہ مسلمان کیوں کمزور ، ذلیل ورسوا ہیں؟( غیب سے) آواز آئی تو نہیں جانتا کہ یہ لوگ دل تو رکھتے ہیں مگر ( ا س میں ) کوئی محبوب( یعنی پیغمبر آخرالزماں ؐ ) نہیں رکھتے۔
 شوق کے پنچھی نے فکر اقبال کی خوشہ چینی سے واضح کیاکہ محبت النبی ؐ کا دعویٰ کر نے سے پہلے ہم اپنا محاسبہ کریں کہ اپنے دعوے میں کھرا اُترتے ہیں ؟ واقعی عشق رسول ؐ مسلمان کے لئے ایمان کی کمائی، صالحات کا ماحصل ، زندگی کا نچوڑ ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ یہ ہے کہ ہم اطاعت ِرسول ؐ کے بحر زُخار میں ڈوب جائیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم ہر شعبہ ٔ ز ندگی میں معصیت اور گناہوں سے دور رہیں اور اگر کسی وقت بشری کمزوری کے سبب کوئی سہو و خطاء اور لغزش ہم سے سرزد ہوبھی جائے تو فوراً خوف ِ خدا کی رسی ، رسول اللہؐ کی محبت اور ضمیر کی ملامت ہمیں توبہ کی پگڈنڈی پر ڈال دے ۔یہ ہوا تو ہم سے زیادہ کون خوش نصیب کہ محبت نبیؐ کے دعویٰ میں کھرے ہیں کھوٹے نہیں۔ قرآن کریم کا واضح اعلان ہے : اے نبی ؐ ! فرمادیجئے اگرتم مجھ سے محبت کر تے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔(سورہ آل عمران ۔۔۔۳۱)
 چھٹ جائے اگر دولت ِکونین توکیا غم 
چُھوٹے نہ مگر ہاتھ سے دامان ِ محمدؐ
 آپ  ؐ کا ارشاد گرامی ہے: میری تمام اُمت جنت میں داخل ہوگی سوائے اُس کے جس نے میر انکار کیا۔ صحابہ ؓنے پوچھا: یارسول ا للہ ! آپؐ کاا نکار کر نے والا کون ہے ؟ آپ ؐ نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی ، اس نے میرا انکار کیا۔
   الغرض اللہ کے جناب میں دعویٰ ٔ محبت النبیؐ صرف اُسی کا برحق مانا جائے گا جس نے محبوبِ خداؐ کے ہر ہر حکم پر دل کی خوشی سے لبیک کہا، چاہے تعمیل ِ حکم اُس کی عادت ، پسند وناپسند، مزاج ، ذات برادری اور رسم ِدنیا کے خلاف ہی جاتا ہو۔ حُبِ نبیؐ کے نادر نمونے ہمیں صحابہ کی پاک زندگیوں میں کہاں نہیں ملتے ؟ ایک برگزیدہ صحابی ٔ حضرت ثوبان رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپؓ اکثر بیمار رہنے لگے، طبیعت کی ناسازی روزبروز بڑھتی چلی گئی۔ صحابہ کبار ؓ بیمار پُرسی کر تے تو یہ اپنے دل کا حال ان قدسی صفات پر بھی ظاہر نہ کر تے، شکریہ کر کے بات ٹال دیتے۔ آخر پیغمبر دوجہاںؐ نے پوچھا تو صاف صاف عرض کی: یارسول اللہ ! ایک خیال دل میں آتے ہی طبیعت خراب ہوجاتی ہے ۔ سرور عالم ؐنے پوچھا: کیا خیال آتا ہے ؟ عرض کی: اے اللہ کے رسول ؐ! اب زندگی میں جب تک آپؐ کا دیدار نہ ہو چین نہیں آتا۔ سوچتا ہوں مر نے بعد کیا ہوگا۔ اگر اللہ نے اپنے فضل و عنایت سے مجھے جنت عطابھی کی تب بھی معلوم نہیں آپ ؐ کہاں ہوں گے اور میں آپ ؐ کے روئے نازنین کی زیارت کئے بغیرجنت میں کیونکر تسکین وطمانیت پاؤں؟ معلوم ہی نہیں وہاں آپ ؐ کے چہرہ ٔ انور کا دیدار کرنے کے لئے مجھے کیا کیا پاپڑبیلنے پڑیں گے۔حضور پُر نورؐ نے فرمایا: ثوبان! تم جس سے محبت کر تے ہو اُسی کے ساتھ رہو گے۔ پھر آپ ؐ نے قرآن کریم کی وہ آیت تلاوت فرمائی جو اسی موقع پر عرش ِمعلی سے نازل ہوئی : جو اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کر تے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی رہیں گے جنہیں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے نواز اہوگا ۔
 یہ تو صحابہ کبار ؓ کے عشق رسول ؐ کے احوال وکوائف تھے۔ اولیائے کاملینؒ نے کامل اتباعِ سنت کر کے اپنے بیدادعشقِ رسول ؐ کی لاج رکھی۔ حضرت بایزید بسطامیؒ نے ایک مرتبہ انہوں نے بڑے اشتیاق سے خر بوزہ منگوایا لیکن اس خیال سے کہ پہلے یہ معلوم کرناچاہیے کہ آپ ؐ خربوزہ کیسے تناول فرما تے تھے، پتہ چلا کہ رحمت عالم ؐ نے کبھی خربوزہ تناول فرمایا ہی نہیں۔ بایزید بسطامی ؒنے خربوزہ کھانے سے ہی انکار کیا۔
 بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں ،ان شاء اللہ 
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

’می آئی ہیلپ یو‘: امرناتھ یاترا میں سی آر پی ایف خواتین ٹیم نے دل جیت لئے
تازہ ترین
ہندوستانی شہریوں کو ایران کے غیر ضروری سفر سے گریز کرنا چاہئے: ہندوستانی سفارتخانہ
بین الاقوامی
ریاستی درجے بحالی کی کوشش: عمر عبداللہ نے کھڑگے اور راہل کاشکریہ ادا کیا، مرکز سے وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ
تازہ ترین
ایران سے بات کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے : ٹرمپ
برصغیر

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?